بنت شیروانی :
جویریہ اور شافیہ دونوں دیورانی جٹھانی لاؤنج میں بیٹھی دھی بھلا چاٹ اور میکرونی کھا رہی تھیں جبکہ ایک طرف کٹا ہوا کیک بھی رکھا تھا کہ اتنے میں دروازے پر گھنٹی بجی ۔ جویریہ نے دروازہ کھولا تو سامنے پڑوس کا بچہ کھڑا تھا جس کے ہاتھ میں خوبصورت سا کاغذ کا بیگ تھا ۔اس نے یہ جلدی سے اسے پکڑایا اور کہا کہ امی نے بھجوایا ہے۔
جویریہ بیگ لے کر لاؤنج میں آئی تو شافیہ نے پوچھا کہ بھابی کیا ہے یہ؟؟؟؟
جویریہ نے کہا : ” اللہ جانے کیا ہے۔ “
پھرجلدی سے بیگ کے اندر جھانکا تو بہت ہی پیارے سے ریپننگ پیپر میں کچھ رکھا نظر آیا۔ تیزی سے اسے نکالا تو اس ریپنگ پیپر کے اندر چُھپی کتاب محسوس ہوئی ۔اس سے پہلے کہ وہ اس پیپر کو پھاڑتی اسے پیپر پر دل کی شکل کا بنا سنہرے رنگ کا ایک کارڈ نظر آیا جس پر لکھا تھا۔ ” شادی کی سالگرہ مبارک “
یہ پڑھ کر تو جہاں جویریہ کو حیرت ہوئی وہیں شافیہ نے بھی ششدر ہو کر جویریہ کو دیکھا۔اب جویریہ نے کہا کہ میری تو ان پڑوسن سے ملاقات بھی نہی ہوئی، انھیں کیسے پتہ چلا کہ ہماری شادی کی سالگرہ تھی۔اس پر شافیہ کہنے لگی:
” بھابی ! کہیں آپ نے انھیں میسج کر کے بتا تو نہیں دیا یا کبھی اس موضوع پر بات ہوئی ہو تو انھوں نے تاریخ یاد رکھ لی ہو۔ “
اب جویریہ نے جھنجلاتے ہوئے اور ساتھ اپنی جگہ سے اٹھتے ہوۓ کہا:ارے نہیں بھئی! میں کیوں میسج کرنے لگی، وہ بھی پڑوسیوں کو اور کئی دن ہوگئے میری تو ان خاتون سے ملاقات بھی نہیں ہوئی۔
جویریہ نے جلدی جلدی برتن سمیٹے، موبائل اٹھایا تو تقریباً چودہ افراد کی طرف سے شادی کی سالگرہ کی مبارک باد کے پیغام آئے ہوئے تھے۔ اب تو وہ سٹپٹا گئی کہ کس نے ان سب کو بتا دیا۔ اس نے عجلت میں واٹس اپ کا اسٹیٹس چیک کیا تو معلوم ہوا کہ اس کے تو اسٹیٹس پر پوری کیک کٹنے کی ویڈیو لگی ہوئی تھی۔
اس نے غصہ سے اپنے آٹھ سالہ بیٹے کو آواز دی کہ اس کا موبائل اُس کے ہاتھ میں تھا اور اس سے پوچھا تو بیٹے نے کہا:
” جی امی ! میں نے یہ اسٹیٹس لگایا تھا۔“
اب تو وہ مزید غصہ میں بھی آگئی کہ کم از کم بتا تو دیا ہوتا۔ اور جلدی جلدی اپنی پڑوسن کو شکریہ کا میسج بھیجنے لگی۔
اب ایک دن اسی جویریہ کے گھر مکئی کے بھٹے آئے ۔ یہ بھٹے ہرے رنگ کے چھلکوں کے اندر بال نما ریشوں میں تھے۔ جویریہ نے ان بال نما ریشوں کو اپنی مونچھوں کی جگہ پر لگا لیا اور مذاق میں ہی چند تصویریں لے لیں۔ابھی وہ اپنی تصویریں کھینچ ہی رہی تھی کہ اتنے میں اس کی کزن کا فون آیا جو اس کی امی سے بات کرنا چاہتی تھیں۔
جویریہ نے فون اپنی امی کو دیا ۔اور جب اس کی امی فون پر بات کر کے فارغ ہوئیں اور اسے پکڑایا تو اس نے واٹس اپ کے میسج دیکھنے شروع کئے، اتنے میں اس کے بہنوئی کا ” بہت خوب “ کا پیغام آیا ۔ وہ حیران ہوئی کہ وہ اسے کس بات پر ” بہت خوب کہہ رہے ہیں۔
دیکھا تو وہ ” مونچھوں “ والی تصویریں اس کی امی کے فون پر بات کرنے کے دوران اس کے اسٹیٹس پر لگ گئی تھیں ۔اور اس دوران انھیں پانچ افراد نے بھی دیکھ لیا تھا۔ اسے بہت شرمندگی بھی ہوئی کہ میں اتنی بڑی خاتون اور یہ اسٹیٹس۔ جلدی جلدی اس نے یہ اسٹیٹس ڈیلیٹ کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک خاتون جو ایک اسکول کی کلاس 5 کے واٹس اپ گروپ کی ایڈمن تھیں۔ ان کی بیٹی کی پیدائش ہوئی ۔اور ابھی تقریباً بیس منٹ ہی ہوئے ہوں گے کہ اس کلاس کی ایک ماں کا مبارک باد کا فون آیا۔ پھر دوسری کا ، پھر تیسری کا۔اب تو لائن لگ گی۔
ہمت ویسے ہی نہی تھی بات کرنے کی۔ وہ بس مبارک باد وصول کر کے کال کاٹ دیتیں۔ تھوڑی دیر میں دماغ نے کام کرنا شروع کیا تو وہ خاتون حیران ہوئی کہ اتنے سارے بچوں کی امیاں کیسے فون کر رہی ہیں؟؟؟ ان سب کو کیسے پتہ چل گیا؟؟؟
اس نے ہمت کر کے موبائل کا انٹرنیٹ کھولا ، جو گروپ پر نظر پڑی تو معلوم ہوا کہ جس گروپ کی وہ ایڈمن تھیں اس گروپ میں ہی ان کی بڑی بیٹی نے یہ اسٹیٹس اپ ڈیٹ کر دیا تھا۔ یہ دیکھ کر انھوں نے اپنا سر پکڑ لیا۔بستر پر تو وہ دراز ہی تھیں ۔اس موبائل کو سائلنٹ پر لگا کر ساتھ ہی آنکھیں بھی بند کیں کہ ابھی تو اسے ڈیلیٹ کرنے کی بھی ہمت نہ تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
نازیہ کو اس کی بڑی بہن شازیہ ڈولمن مال میں ملی لیکن نازیہ نے اسے دیکھتے ہی منہ پھیر لیا ۔ شازیہ جو کہ اپنی بہن کو اس طرح اچانک دیکھنے پر خوشی سے نہال ہوگئی تھی، اس کے منہ پھیرنے پر پریشان ہوئی اور زبردستی اس کے کندھوں پر ہاتھ ڈالتے ہوئے پوچھنے لگی کہ ” بتاؤ تو سہی بہنا ! آخر ماجرا کیا ہے؟؟؟؟کیا خطا ہوئی مجھ سے جو تم ناراض ہوگئیں؟؟؟؟ “
اور ساتھ ہی گال پر پیار بھی کر دیا کہ ” تم ناراض ہوگئیں تو میں کہاں جاؤں گی ؟؟؟؟آخر کو میری اکلوتی بہن ہو۔ “
اب تو اسے کہنا ہی پڑا کہ ” باجی ! اکیلے اکیلے چنے کی دال کا حلوہ بنا لیا اور ہمیں پوچھا تک نہیں۔“
یہ سننا تھا کہ باجی حیران ہوئی کہ تمھیں کیسے پتہ چلا کہ میں نے حلوہ بنایا؟؟؟
کہنے لگی دولھا بھائی نے اسٹیٹس لگایا تھا کہ بیگم کے ہاتھ کا بنا چنے کی دال کا حلوہ کھا رہا ہوں۔
” اوہ مائی گاڈ ! یہ اسٹیٹس بھی نا ۔۔۔۔۔۔۔ “ کہا اور پھر کہنے لگی کہ ” ہاں ! بنایا تو تھا حلوہ۔ اگلی بار لازمی تمھیں کھلاؤں گی۔ابھی کی اس خطا کو معاف کرو ۔ “
۔۔۔۔۔۔۔۔
ممانی جان اپنی نند کی بیٹی کے گھر گئیں تو ان کی بیٹی کہنے لگی کہ ممانی جان آپ نے وریشہ باجی کے گھر کے لئے کتنا اچھا آئس کریم سیٹ لیا تھا، ایسا ڈیزائن تو میں نے آج تک نہ دیکھا۔ یہ سننا تھا کہ ممانی جان ہوئی حیران کہ تمھیں کیسے پتہ چلا؟؟؟اس پر وہ بیٹی کہنے لگی کہ وریشہ باجی کے لگائے اسٹیٹس کو دیکھ کر۔
اب تو ممانی جان نے بھی اسٹیٹس کو دیکھنا شروع کیا۔ کسی کے اسٹیٹس کچھ حالات کی اطلاع دے رہے تھے تو کسی کے قرآن و حدیث سے متعلق تھے۔ کسی کے اسٹیٹس میں صرف اقوال زریں تھے تو کوئی اسٹیٹس کے ذریعہ اپنا روزگار کما رہا تھا۔ کسی کے اسٹیٹس میں سیلفیاں تھیں تو کوئی اپنی آمد و رفت کو ان کے ذریعہ بتا رہا تھا جب کہ کچھ کے اسٹیٹس میں گانے اور میوزک بھی تھا ۔
جنھیں دیکھ کر وہ سوچنے لگی کہ یہ اسٹیٹس لگانے والے خود بھی گنہ گار ہورہے ہیں میوزک ڈال کر اور دوسروں کو بھی گنہ گار کر رہے ہیں۔ کتنا اچھا ہو کہ اگر وہ یہ کام نہ کریں کیونکہ گناہ جاریہ اور صدقہ جاریہ کا عمل بھی تو جاری ہے۔