الطاف جمیل ندوی :
یہ کون چلا ہے اک بستی سے جس کا جانا ٹھہرا غم
ہر سو ایک ہی آہ بلند ہم کس کے نقش کو دیکھیں گے
ہر روز کی طرح جمعہ کو بھی سوشل میڈیا کو دیکھا ۔ ایسا لگا کہ زبان خشک اور آنکھیں نم ہورہی ہیں، جوں ہی یہ خبر جانکاہ دیکھی کہ علاقہ ترال کے سرکردہ عالم دین حضرت مولانا نور احمد ترالی کا انتقال ہوگیا ہے ۔
مرنا تو ہر کسی کو ہے ، پر کسی کی موت سانحہ ہوتی ہے اس لحاظ سے کہ عوام کو ان کی سرپرستی کی ضرورت ہوتی ہے یا ان کا اوڑھنا بچھونا خدمت خلق ہوتی ہے ۔ ایسے لوگوں کی موت نقصان ہی کہلاتی ہے۔ بہرحال ہونی کو ٹالنا ہمارے بس میں نہیں ، وہ ہوکر ہی رہتی ہے ۔ یہی قانون قدرت ہے۔
بس ! کسی کے غم جدائی میں آنکھیں از خود برستی ہیں تو کسی کی جدائی پر صرف آہ نکل جاتی ہے کیونکہ دل ہے ہی ایسا کہ جہاں اس کی وابستگی ہوجائے وہیں کا ہوکر رہتا ہے۔ میرے لئے یہ خبر اس لئے بھی انتہائی پریشان کن تھی کیونکہ اب تسلسل کے ساتھ علماء کرام کا انتقال ہورہا ہے۔ یہ کوئی عام سی بات نہیں ہے بلکہ ایک حساس بات ہے کہ اہل علم دنیا سے جارہے ہیں اور ہم جیسے جہلا ان کے پیچھے رہ گئے ۔
علماء کسی بھی معاشرے کا حسن اور وقار ہوتے ہیں۔ علماء کا وجود معاشروں کے لیے اس اعتبارسے انتہائی ضروری ہے کہ عوام الناس ان سے شرعی‘ دینی ‘ سماجی و دیگر معاملات میں رہنمائی حاصل کرتے رہتے ہیں اور ان کے خطبات ‘ دروس‘ مجالس اور تحریروں کے ذریعے اپنے عقائد ‘ نظریات اور اعمال کی اصلاح کرتے رہتے ہیں۔
تاریخ اسلام اس بات پر شاہد ہے کہ عوام کی ایک بڑی تعداد ہر دور میں پختہ علماء اور آئمہ کے ساتھ وابستہ رہی اور ان کے دروس اور خطبات کو نہایت جوش وخروش اور عقیدت واحترام کے ساتھ سنتی رہی ۔ پختہ اور سنجیدہ علما کے ساتھ تعلق ہونا یقیناً ہر سنجیدہ اور باشعور شخص کے لیے باعث عزت وافتخار ہے۔
جید علماء کی رفاقت یقیناً دین و دنیا کی بہتری کا ذریعہ ہوتا ہے‘ اسی طرح کسی بھی جید عالم کی رحلت یقیناً بہت بڑا سانحہ ہوتی ہے اور اس کی وفات سے پیدا ہو جانے والا خلا مدت مدید تک پر نہیں ہوتا ، انسان تادیر معاشرے میں ان کی کمی کو محسوس کرتا ہے۔
کسی بھی باعمل عالم کی رحلت پر ہر دین پسند انسان بہت زیادہ بے چینی اور غم کو محسوس کرتا ہے۔ اس لیے کہ اُس کو اس بات کا علم ہوتا ہے کہ علماء کی روحوں کے قبض ہوجانے سے انسان نہیں بلکہ علم بھی اُٹھ رہا ہے‘
جس طرح سنن ترمذی کی حدیث ہے کہ عبداللہ بن عمر وبن عاص ؓ سے روایت ہے رسول کریم ﷺ نے فرمایا: ” اللہ تعالیٰ علم اس طرح نہیں اُٹھائے گا کہ اُسے لوگوں کے سینوں سے کھینچ لے‘ لیکن وہ علم کو علماء کی وفات کے ذریعے اُٹھائے گا “ تو ایسا ہی اب ہورہا ہے کہ علماء دنیا سے اٹھ رہے ہیں اور ہم باقی رہ گئے تنہا ۔ اللہ نہ کرے کہ وہ زمانہ آجائے کہ علماء نہ ہوں اور دنیا مصائب و مشکلات میں بے یارومددگار رہ جائے۔
بہرحال بات ہو رہی ہے مولانا نور احمد ترالی مرحوم کی جن کا چند روزقبل انتقال ہوگیا ہے میرے تب آنسو نکل پڑے جب ایک صاحب سے ان کے بارے میں استفسار کیا تو جواب میں انہوں نے فرمایا کہ
اب کی بار کون رولایا گیا شب میں
سوچتے سوچتے ہم رو پڑے
ان کے جاننے والے کہتے ہیں کہ مولانا رحمہ اللہ کی آواز میں سوز و گداز جو تھا اسی سبب شب قدر میں ایک بڑا مجمع سامعین کا ہوتا جو رات کے کسی پہر اچانک پھوٹ پھوٹ کر رو دیتے جب مولانا دعا کرتے اور مولانا کی بھی ہچکیاں سنی جاتی تھیں۔
شاید ہی اب ایسی مجالس دیکھنے کو ملیں گی۔ مولانا اتحاد امت کے سلسلے میں کافی متحرک تھے۔ وہ مسلکی منافرت کے بجائے امت مسلمہ کو ایک پلیٹ فارم پر دیکھنے کے متمنی تھے اسی لئے اس کوشش میں اکثر اوقات تبلیغ کا سہارا لیتے۔ فکر سید مودودی غالب تھی، مجال ہے کہ دوسرے علماء سے چڑتے یا ان کی برائی کرتے بلکہ ہمہ وقت ان کی مجالس کراتے ان سے ملاقاتیں کرتے اس کے لئے اپنے قائم کردہ مدرسہ میں بھی انہیں مدعو کیا کرتے۔
اور انہیں سنتے بھی اور ان سے درد مندانہ قدم اٹھانے کی تلقین بھی کرتے ۔ فرقہ واریت اور مسلکی رسہ کشی کے اس دور میں وہ داعی وحدت و اخوت تھے۔ تفرقات کو صرفِ نظر کر کے اور مساویت کی بنیاد پر عالموں کا ایک ساتھ ملن اُن ہی کی بدولت دیکھنے کو ملتا تھا۔
آپ توحید کے داعی، نڈر، اللہ تعالی کی ذات کے سوا کسی سے ڈرنے والے نہیں، علم و عمل کے پیکر، اخلاقیات سے پُر، داعیِ اتحاد اور سب سے بڑھکر امتِ مسلمہ کے خیر خواہ تھے۔نرم دمِ گُفتگو، گرم دمِ جُستجو،رزم ہو یا بزم ہو، پاک دل و پاک باز” جیسی صفات کی متحمل شخصیت تھے۔
مولانا کے بارے میں کچھ معلومات جو میں نے جمع کیں، کچھ یوں ہیں کہ
مختصر تعارفی خاکہ
مولانا نور احمد ترالی کا تعلق کشمیر کے جنوبی ضلع پلوامہ (ترال )سے تھا، وہ اپنے والد معروف عالم دین مولانا نور الدین ترالی قاسمی کے زیر تربیت پروان چڑھے، مولانا نور احمد ترالی جموں و کشمیر مجلس دعوت حق کے سربراہ تھے، دارالعلوم نورالاسلام ترال کے سرپرست بھی تھے، جس کی بنیاد ان کے والد مرحوم نے 1940ء میں رکھی تھی،
مدرسہ تعلیم الاسلام ترال بوائز و گرلز ونگ انہی کے زیرنگرانی فعال تھا، وہ مجلس اتحاد امت سے بھی وابستہ تھے، جموں و کشمیر میں اتحاد و اخوت بین المسلمین کے حوالے سے انہوں نے کئی کارنامے انجام دیئے، جن میں نمایاں کارنامہ ان کی مشہور تصنیف ’’ دعوت حق ‘‘ ہے، 2002 ء سے وہ مجلس دعوت حق تعلیم الاسلام کی سربراہی کر رہے تھے اور جموں و کشمیر کے اطراف و اکناف میں مختلف سیمیناز و کانفرنسز کا انعقاد بھی کراتے۔
ایک صاحب کے تاثرات کچھ یوں تھے:
مولانا نور احمد ترالی کا فن خطابت موثر اور یکتا تھا۔ قرآن و حدیث کی تشریح کے دوران مولانا روم، علامہ اقبال اور شیخ نور الدین نورانی کے اشعار کا بروقت استعمال ان کے تبحر علم کا آئینہ دار تھا۔ وہ بے باکی کے ساتھ کشمیر کے حالات کے پس منظر میں عالموں اور عوام کے رول پر بات کرتے تھے۔
جب کبھی بھی ان کا خطبہ جمعہ یا عیدین سننے کا موقعہ ملا تو ذہن کے دریچے وا ہوئے۔ نور احمد مرحوم ، گزشتہ صدی کے ولی کامل حضرت مولانا نور الدین ترالی کے فرزند تھے لہٰذا انہیں علم و حلم، فصاحت و بلاغت اور تدبر و حکمت ورثے میں ملی تھی۔
ان کے انتقال پر میرا آبائی علاقہ ترال ہی نہیں بلکہ پورا کشمیر سوگوار ہے۔ مجھے دور دور تک ان کی سطح کا کوئی دینی عالم نظر نہیں آتا جنہیں عوام میں اتنی قبولیت حاصل ہو ۔
مولانا مرحوم کے بارے میں ان کے ایک چاہنے والے محترم منیب سلفی صاحب کہتے ہیں کہ
مولانا نور احمد ترالی رح کسی تعارف کے محتاج نہیں تھے وادی کشمیر کے مایہ ناز عالم دین مولانا نور الدین ترالی رح کے بطن جلیل لائق و فایق جانشین تھے۔
مولانا نور احمد ترالی رح نہ صرف ایک داعی تھے بلکہ بذات خود ایک تحریک تھے ۔ سکھ برادری کے ساتھ
چھٹی سنگھ پورہ کا المناک واقعہ جب پیش آیا تو سکھ برادری نقل مکانی پر بضد رہی تو مولانا نور احمد ہی وہ مرد غیور تھے جنھوں نے انہیں دلاسہ دیا اور ان کا حوصلہ بنائے رکھا اور نقل مکانی سے روک دیا۔
شہر و گام جب بھی کوئی آفت آتی تھی تو مولانا آگے آگے ہوتے تھے ۔
بات 2014 کی ہے ، جب سیلاب نے پوری وادی کشمیر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تو مولانا میدان میں خود اتر آئے اور ہزاروں غریبوں،مفلوک الحال افراد کی بھر پور معاونت کی۔ 2016 میں جب نا مساعد حالات کے سبب لاکھوں افراد بے گھر ،بےسہارا ہورہے تھے تب ان کی بازآبادی کیلئے کلیدی کردار ادا کرتے تھے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ کشمیر میں مزدوری کے پیشہ سے وابستہ مختلف ریاستوں کے لوگوں کے لئے بھی کھانے پینے کا انتظام کردیا بقول نور احمد رح ہماری جدوجہد پاک ہے ، ان بے چاروں کا کوئی قصور نہیں ہے یہ ہمارے مہمان ہیں۔
اب رہا مسلکی تشدد
ڈاکٹر حمید نسیم رفیع آبادی کہتے ہیں :
یہ خبر سن کر بہت دکھ ہوا کہ مولانا نور احمد ترالی کا انتقال ہوگیا ہے ، ایک ایسی دینی شخصیت جو بے لوث مخلص اور اعلی پائے کی علمی حثیت رکھتی تھی ، دینی و دنیاوی تعلیم کے امتزاج کے داعی دعوت الی اللہ اور اصلاح بین المسلمین کے علمبردار علماء کے قدر دان اور اسلام پسند دانشوروں کے مربّی نور احمد ترالی اس زمانے میں ایک منفرد شناخت کے حامل تھے۔
کم گو متقی اور سنجیدہ عالم دین ہونے کے باوجود بڑے بڑے دینی اجتماعات کا انعقاد کرنا ان کا معمول تھا ۔تقریبا ہر سال ایک بڑی دینی تقریب کا اہتمام پابندی سے کرنا اور اس میں علماء کے ساتھ دانشوروں کو بھی مدعو کرنا آپ کی ایک قابل ستائش کوشش رہی ہے ۔
مجھے بھی ایسے بہت سارے پروگراموں میں شمولیت کی سعادت حاصل ہوئی اور کتنی بار ترال کے مردم خیز علاقے کے دانشوروں اور علماء کے ان مشترکہ جلسوں سے خطاب کرنے کا موقع مرحوم نور احمد ترالی صاحب نے فراہم کیا ۔ ان جلسوں میں تمام مکاتیب فکر اور مسالک کے علماء کو بلا تفریق مدعو کیا جاتا رہا ہے اور ہر سال کوئی نیا عنوان سمیناروں کا اور جلسوں کا نور صاحب مرحوم تجویز فرماتے تھے۔
ایسے جلسوں میں شمولیت کے وقت قیام و طعام کا بڑا اچھا انتظام ہوتا تھا اور مرحوم نور صاحب مہمانوں کے پاس بیٹھ کر اکثر ان کی مہمان نوازی کا پابندی سے اہتمام کرتے تھے ۔ خود اکثر روزہ سے ہوتے تھے مگر مہمانوں کے ساتھ بیٹھ کر ان کی تکریم کا بھر پور خیال رکھتے تھے۔
اسی طرح جب میں اسلامک ریلیف اینڈ ریسرچ ٹرسٹ کے ساتھ وابستہ تھا اس کے جلسوں میں ہم مرحوم ترالی صاحب کو بلاتے تھے اور آپ کئی بار ہماری دعوت پر تشریف لائے اور ہمیں اپنے زرین خیالات اور قیمتی مشوروں سے مستفید فرمائے ۔
میرے پیارے بھائی زبیر ندوی صاحب کہتے ہیں :
بڑی مدت بعد علاقہ ترال کے معروف و مشہور، عالم دین، اپنا خاص مدرس و معلم و مربی مولانا نور احمد ترالی دام ظلہ سے ان کے آشیانہ پرملاقات کا شرف حاصل ہوا۔
مولانا نے اپنے در پر مجھ دیکھتے ہی بڑی مسرت کا اظہار کرتے ہوئے اندر آنے کو کہا۔ اندر بیٹھ کر چند اہم امور پر گفت و شنید ہوئی۔ مستقبل کے تئیں چند قیمتی نصائح سے بھی نوازا۔ تحریک اسلامی سے تعلق اور خدمت دین کرنے پر بھی مولانا نے بڑی خوشی اور اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کلمات دعائیہ سے نوازا . ایک نصیحت جس کو میں اپنے تمام رفقاء تک پہنچا رہا ہوں تاکہ آپ بھی مستفید ہوں، فرمایا:
روح مخلوقِ رب نہیں ہے بلکہ امرِ رب ہے اس لئے روح کو حاکم بنایا جائے جسم کو محکوم…… دعوت الی اللہ کا فریضہ روح انجام دیتا ہے جبکہ جسم اس کا صرف ایک معاون کی حیثیت رکھتا ہے. روح کی طہارت و پاکیزگی کرنا لازمی ہے تب جا کے آپ دنیا کے کسی محاز پر دعوت الی اللہ کا فریضہ کما حقہ سر انجام دے پاؤ گے.
قیامت میں آپ کے روح سے ہی پوچھ گچھ ہوگی. اس لئے روح کو پاک و صاف کر کے اللہ کا قرب حاصل کر کے رضا الہی کی فکر دامن گیر رہے گی .. ورنہ صرف جسم کا بناؤ سنگار کوئی مفید نہ ہو گا.
ان کی کچھ تالیفات بھی ہیں جن میں سے ہر کتاب اپنے اندر محبت و اخوت کا پیغام لئے ہوئے ہے اور نام کی طرح اندرون بھی علمی شاہکار ہیں جن میں سے ” ایمان مفصل “ ، ” فرائض و حقوق “ ،” طریقہ حج “، ” پیر مرید “ ، ” دعوت حق “ ، ” صلوتہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم “ ، ” ماثور دعائیں “۔
اس کے علاوہ محترم کا ایک انٹرویو اسلام ٹائمز نامی ویب سائٹ پر بھی موجود ہے جس میں سے دو اقتباسات آپ کی نذر کررہا ہوں تاکہ ان کا نظریہ محبت اور درس توکل کے ساتھ ساتھ ان کو سمجھنے میں آسانی ہو ۔
” ہمارے مادہ پرست مولوی حضرات سیاسی طور پر بالکل نابلد ہیں، وہ سیاست کی الف ب سے بھی واقف نہیں ہیں، سیاسی شعور کا ان کے اندر فقدان ہے، اس لئے وہ استعمال ہو رہے ہیں، وہ بظاہر اسلام کے لئے کام کرتے ہیں لیکن درحقیقت اسلام مخالف مہم کا حصہ ہیں، وہ اسلام کے خلاف کام کرتے ہیں، دین کے ساتھ ساتھ سیاسی شعور کا ہونا لازمی ہے، ہندوستان اور ہندوستانی سیاست برسوں سے اس کوشش میں لگی ہوئی ہے کہ کشمیر میں حقیقی اسلام باقی و زندہ نہ رہنے پائے، اسلام ناب یہاں پنپنے نہ پائے اور بھارت کی کوشش ہے کہ اسلام بھی یہاں وہی سطح و معیار اختیار کرے جو برھمن و ہندوں کا معیار ہے۔ “
” بہت ضروری ہے کہ مسلمان منظم ہو جائیں، متحد ہو جائیں، اس وقت مغربی طاقتیں متحد ہو رہی ہیں اور اسلام کے خلاف ایک ہو کر سازشیں کر رہی ہیں، اب اپنے بچائو اور دفاع کے لئے مسلمانوں کو متحد ہونا پڑے گا، تاکہ مسلمان مغربی طاقتوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرسکیں، مسلمانوں کو اسلام کے تقدس کو بچانے کیلئے متحد ہونا ہی ہوگا، ایک کعبے کی پاسبانی کیلئے مسلمانوں کو متحد ہونا ہی پڑے گا، مسلمان چاہے مغرب میں ہوں یا مشرق میں ہوں، جنوب میں ہوں یا شمال میں ہوں ’’لا الہ الا اللّہ، محمد رسول اللہ‘‘ سب کی آواز ہے، سب کا نعرہ ہے، سب کا دستور العمل ہے، اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام مسلمانوں کو متحد کر دیا اور ہمارے کلمہ توحید کا یہی تقاضا ہے، نماز کا بھی یہی تقاضا ہے، حج کا بھی یہی مطالبہ ہے اور قرآن مجید کا بھی یہی دستور ہے کہ مسلمانوں کو چاہیے کہ متحد ہو جائیں اور اسلام کی پرخلوص خدمت کریں اور مسلمان اسلام کا دفاع مل کر کریں، اسلام کے خلاف جو یلغار چلی آ رہی ہے، اس کو نیست و نابود کرنے کیلئے مسلمان متحد ہوجائیں، اتحاد بہت ضروری ہے، تاکہ ہم اسلام کا دفاع کرسکیں، اکیلے کوئی فرد یا کوئی ملک اسلام کا دفاع نہیں کرسکتا۔ اسکے لئے سب مسلمانوں کا متحد ہونا بہت ضروری ہے ۔“
ہم کہہ سکتے ہیں کہ علاقہ ترال اس لحاظ سے انتہائی خوش قسمت واقع ہوا کہ اسے مولانا جیسی ہمہ جہت شخصیت کی سرپرستی میسر تھی جن کی کاوشوں کا اعتراف غیر مسلم بھی کر رہے ہیں۔ آج علاقہ ترال اپنے ہمدرد اور آفتاب علم سے محروم ہوگیا۔ میں ان کے ہی خانوادہ سے ہی نہیں بلکہ تمام علاقہ ترال کے عوام سے تعزیت کرتا ہوں کیونکہ ایسے صاحب بصیرت اور صاحب علم لوگ صرف ایک گھر کے نہیں ہوتے بلکہ ان کی ذات ایک انجمن ہوتی ہے، ایک روشن چراغ ہوتی ہے جس کی ضیاع پانی سے ہزار ہا لوگ استفادہ کرتے ہیں اور اپنی دنیا و آخرت سنوار لیتے ہیں ۔
اللہ تعالی علاقہ ترال کو اس کا نعم البدل عطا فرمائے ۔ مولانا مرحوم ہزاروں لوگوں کی معیت میں سفر آخرت پر روانہ ہوئے کہ ہر آنکھ اشک بار تھی اور ان کے جنازے کے مناظر بتا رہے تھے کہ اک شخص نہیں اک انجمن تھی جو مدفن کی طرف چلی جارہی ہے ۔