عبید اللہ عابد :
گیارہ اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) اپنی تحریک کو آخری مرحلے تک لے آیا ہے، فیصلہ کن مرحلے کا ایک ایک دن حکومت اور اپوزیشن کیمپ کے لئے کافی اہمیت کا حامل ہوگا۔ سخت سرد موسم میں کسی کا پسینہ بہے گا تو کسی کا پسینہ چھوٹے گا۔
آج پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس سے پہلے ہی یہ خبر گردش کررہی تھی کہ آج استعفوں پر بات ہوگی، حکومتی کیمپ میں یہ خبر نہایت مسرت کے ساتھ سنی اور بولی جا رہی تھی کہ اپوزیشن اسمبلیوں سے استعفوں کے معاملے میں ایک نہیں ہے۔ مسلم لیگ ن سمیت متعدد جماعتیں اسمبلیاں خالی کرنے کی حامی ہیں لیکن پاکستان پیپلزپارٹی اس اقدام کی مخالف ہے۔ چنانچہ حکومتی کیمپ میں موجود ہر کوئی دعویٰ کر رہا تھا کہ آج استعفوں کے معاملے پر خوب جوتیوں میں دال بٹے گی۔
تاہم اپوزیشن نے استعفوں کے معاملے کو بھی اس خوبی کے ساتھ ہینڈل کرلیا ہے کہ فوری استعفے دینے کی بات کرنے والے بھی مطمئن ہیں اور نہ دینے کی بات کرنے والے بھی مطمئن ۔ اکتیس دسمبر 2020 تک تمام اپوزیشن جماعتوں کے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی اپنے استعفے اپنی اپنی پارٹی قیادت کے پاس جمع کروا دیں گے۔ ہوسکتا ہے کہ اس سے پہلے لانگ مارچ چل پڑے اور اسلامآباد پہنچ جائے، پھر استعفے دینے کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔
پی ڈی ایم سربراہی اجلاس کے بعد مولانا فضل الرحمن نے تمام اپوزیشن رہنمائوں کے درمیان کھڑے ہوکرکہا کہ جس طرح عوامی ردعمل بڑھ رہا ہے، اس میں مزید اضافہ ہوگا۔ مولانا فضل الرحمٰن نے دعویٰ کیا کہ حکومت کو فرق پڑچکا ہے، وزیراعظم کی کرسی ہل چکی ہے ، بس اسے ایک دھکا اور دینے کی ضرورت ہے۔ پی ڈی ایم سربراہ نے لاہور کے 13 دسمبر کے جلسے کو تاریخی اور حکومت کے لیے آخری کیل قرار دیا۔
اپوزیشن اپنی حکمت عملی میں کامیاب جارہی ہے، اس نے اپنی تحریک کے ذریعے حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو ایک صفحہ پر نہیں رہنے دیا ، اسٹیبلشمنٹ نہ صرف دوسرے صفحے پر جا کھڑی ہوئی ہے بلکہ وہ حکومت سے بدظن بھی ہوچکی ہے اور اپوزیشن کے ساتھ پس پردہ مذاکرات میں مصروف ہے۔ یہ خبر اب کوئی ڈھکی چھپی نہیں رہی،
اسٹیبلشمنٹ سے قرب رکھنے والے اور نوازشریف ، آصف زرداری کے شدید ناقد صحافی بھی تسلیم کرتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ اس صفحہ پر نہیں ہے جہاں عمران خان کھڑے ہیں۔ ظاہر ہے کہ وہ اپنے آپ کو اس حد تک حکومت کے ساتھ نتھی نہیں کرنا چاہتی کہ کل کسی دوسری صورت حال میں وہ کہیں کھڑی ہی نہ ہوسکے۔ اسے عمران خان کے بعد کے دنوں کے لئے بھی اپنا وجود برقرار رکھنا ہے۔
ممتاز تجزیہ نگار اور باخبر صحافی سہیل ورائچ بھی ان خبروں کی تصدیق کر رہے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ حکومت سے شاکی ہے، سہیل ورائچ آج بھی یہی کہہ رہے تھے کہ ” اسٹیبلشمنٹ کو حکومت سے گلہ ہے کہ وہ اپوزیشن اور اسٹیبلشمنٹ کو آمنے سامنے لاکر خود کو محفوظ بنانا چاہتی ہے۔“
اپوزیشن اعتماد سے بھرپور
اپوزیشن اپنی تحریک کے ساتھ ایک ایک قدم آگے بڑھ رہی تھی اور اسے ہر قدم پر کامیابی ملتی تھی۔ اب تک وہ جیسی کامیابی چاہتی تھی ، اسے ویسی ہی ملی۔ گوجرانوالہ ، کراچی، کوئٹہ ، پشاور، سوات، ملتان اور اب لاہور میں حکومت اپوزیشن کی راہ روکنے کی کوشش کرتی ہے لیکن پھر اپوزیشن کی قوت کے سامنے پسپائی اختیار کرلیتی ہے۔
آج تو حکومت نے عجیب مضحکہ خیز اقدامات کئے ہیں، مینار پاکستان کے گرائونڈ میں ، جہاں 13 دسمبر کو اپوزیشن کا جلسہ ہونا ہے، پانی چھوڑ دیا ہے، اس سے قبل وزیراعظم عمران خان نے لاہور جلسے کے لیے کرسیاں اور ساؤنڈ سسٹم فراہم کرنے والوں کے خلاف مقدمے قائم کرنے کا اعلان کردیا۔
اس کا مطلب اپوزیشن اعتماد سے بھرپور ہے جبکہ حکومت حواس باختہ ہے۔ حکومت کو حواس باختہ کہنے پر کوئی ہمیں الزام یا دشنام نہ دے کیونکہ حکومتی اقدامات تو حواس باختگی پر مبنی ہی ہیں۔ دوسری طرف وزیراعظم عمران خان خود اعتراف کررہے ہیں کہ اپوزیشن پُر اعتماد ہے لیکن انھوں نے اس پُراعتمادی کا سبب بعض ممالک کی حمایت بتائی ، وزیراعظم کے بقول ” اپوزیشن سب کچھ ایک منصوبہ بندی کے تحت کررہی ہے،ان کی پشت پر کچھ ممالک کا ہاتھ ہے۔ کچھ ممالک کبھی نہیں چاہتے کہ پاکستان کی معیشت مضبوط ہو۔ “
عمران خان حکومت پریشان ؟
عام تاثر یہی ہے کہ اپوزیشن کے مقابلے میں حکومتی اقدامات اس کی پریشانی اور اضطراب کے عکاس ہیں۔ معروف تجزیہ نگار، مصف اور کالم نگار جناب فاروق عادل کا کہنا ہے کہ جو کچھ عمران خان نے کیا ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یقیناً آنے والے دن ان کے لیے آسان نہیں۔
” کسی سیاسی بحران میں حکمران اگر اپنی نیکی، پاکیزگی، پارسائی اور عبادت گزاری کی تشہیر کرنے لگے تو تاریخ بتاتی ہے کہ وہ مشکل میں ہے۔ تین چار دہائی قبل جب بھٹو صاحب نے پی این اے کی تحریک کا دباؤ محسوس کیا تھا تو اس وقت انھوں نے بھی جمعے کی چھٹی اور شراب پر پابندی عائد کر کے دباؤ سے نکلنے کی کوشش کی تھی۔ “
فاروق عادل کا کہنا تھا ” قومی منظر نامے پر 8 دسمبر کو دکھائی دینے والے منظر سے یہ واضح ہے کہ معاملات ٹکراؤ کی طرف جا رہے ہیں۔ حکومت جس کے سربراہ کچھ عرصہ قبل اپوزیشن کو احتجاج کے لیے کنٹینر دینے کی باتیں کیا کرتے تھے، اب دور ایوبی کی یاد تازہ کر رہے ہیں۔ “
” ایوب خان کے زمانے میں بھی اپوزیشن کی جلسہ گاہوں میں پانی چھوڑ دیا جاتا تھا، بعد میں بھٹو صاحب نے بھی اس روایت کی پیروی کی۔ موجودہ حکمران وہ پرانی بھولی بسری روایات تازہ کر کے کیا حاصل کریں گے، یہ تو وہی جانتے ہوں گے لیکن تاریخ ان کا نام کہاں لکھنے جارہی ہے، اس کا شاید انھیں شعور نہیں یا پروا ہی نہیں۔ “
آج پی ڈی ایم کے اجلاس میں سٹیرنگ کمیٹی کو لانگ مارچ کی تاریخ طے کرنے کو کہا گیا ہے۔ جناب فاروق عادل کا خیال ہے کہ ”شاید لاہور کے جلسے سے ہی لانگ مارچ کی ابتدا ہو جائے۔“
حکومت کا اپوزیشن سے رابطہ
اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما احسن اقبال نے حکومت کی طرف سے حزب اختلاف سے رابطوں کا انکشاف کیا ہے۔ انہوں نےکہا کہ حکومت کی طرف سے رابطے ہوئے ہیں لیکن ہم نے انہیں جواب دیا ہے کہ اب بہت دیر ہوچکی ہے۔ ن لیگی رہنما نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ اپوزیشن سے ایک سے زائد حکومتی شخصیات نے رابطہ کیا ہے۔ ہم نے تمام رابطہ کرنے والی شخصیات کو یہی جواب دیا ہے کہ عمران خان کے استعفے کے بعد بات ہوگی۔
واضح رہے کہ وزیراعظم عمران خان نے بھی آج سینئر کالم نگاروں سے گفتگو میں کرپشن کیسز اور این آر او کے علاوہ باقی تمام امور پر اپوزیشن جماعتوں سے بات چیت کے لیے آمادگی کا اظہار کیا ہے۔ لیکن اپوزیشن ان کے استعفے کے علاوہ کوئی دوسری بات ہی نہیں کررہی ہے، شاید اپوزیشن پہلے ایک استعفیٰ لینا چاہتی ہے، اس کے بعد مزید دو استعفے۔ وہ اپنے سارے کارڈ ایک دم ظاہر نہیں کرنا چاہتی۔ ایک ایک کرکے اپنے اہداف حاصل کرے گی۔