ماہم رحمان

ماہم رحمان : مالی طور پر کمزور، یتیم لیکن پوزیشن ہولڈر طالبہ ، نادرا کے ناقص قوانین کی شکار

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

سمیرا غزل :

ایڈوکیٹ عثمان فاروق صاحب کی وال پر ایک طالبہ ماہم رحمان کے حوالے سے ویڈیو دیکھی اور بے اختیار لبوں سے یہ شعر ادا ہوا۔

وہ فیضان نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی

مگر یہ کیا کہ ماہم تین ماہ میں والد کی شفقت سے محروم ہوگئی اور تین سال کی عمر میں ماں کے سائے سے بھی محروم ہوگئی اور اسے وہ آغوش بھی نہ مل سکی جسے انسان کی پہلی درسگاہ کہا جاتا ہے۔

وہ بچی جو کبھی خالہ کے ہاں رہتی ہے کبھی ماموں کے، پھر بھی جماعت نہم میں پہنچنے کا سفر طے کر گئی ہے یقیناً یہ بڑی بات ہے کہ یکسوئی کے بغیر اور ننھی سے عمر میں یتیمی کا بوجھ سہارنے والی بچی نہ صرف پڑھ رہی ہے بلکہ پوزیشن ہولڈر ہے اور آگے بھی پڑھنے کا شوق رکھتی ہے،اس کے سرپرستوں کے گھر کی حالت دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ بھی کچھ زیادہ خوشحال نہیں ہیں مگر بچی کے ساتھ کھڑے ہیں اور یہی ان کی عظمت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

ماہم آج اپنے حق کے لیے کھڑی ہوئی ہے مگر کسی سے پیسے یا مدد نہیں مانگ رہی ہے، وہ تو کہتی ہے کسی پر بوجھ نہیں بنوں گی، ٹیچر بننا چاہتی ہوں۔

انتہائی معصومیت سے اپنی مجبوری کو الفاظ کا عملی جامہ پہنانے والی ماہم اٹکتے ہوئے کہتی ہے کہ فارم جمع کرانے گئی تو مجھ سے کہا گیا کہ آپ کا ب فارم نہیں ہے، اور ب فارم اس لیے نہیں بن رہا ہے کہ میرے والدین نہیں ہیں۔ جس کی وجہ سے میٹرک بورڈ نے اس کا ایڈمٹ کارڈ روک لیا ہے۔

گویا ستم بالائے ستم ہی تو ہے کہ!

یتیمی ساتھ لاتی ہے زمانے بھر کے دُکھ عابی !
سُنا ہے باپ زندہ ہو تو کانٹے بھی نہیں چُبھتے

میں لڑکیوں کی تعلیم کو اتنا ہی ضروری سمجھتی ہوں جتنا کہ لڑکوں کی ،اور امت مسلمہ کی بیٹیوں کو باحجاب اور باوقار دیکھنے کے ساتھ ساتھ قوی مسلمہ دیکھنا بھی میری خواہش ہے۔

لیکن اس وقت ہم تعلیمی نظام کے زوال کی آخری حد کو چھورہے ہیں ایسے میں یہ ایک نئی صورتحال سامنے آئی ہے جو حیرت انگیز بھی ہے کہ اس ملک میں یتیم بچوں کو ایسی صورتحال سے سابقہ پڑ جائے تو کوئی ایسا قانون ہی نہیں ہے کہ انھیں ب فارم جاری کیا جاسکے۔

بے شک بچی کے والدین نہیں ہیں مگر وہ جن لوگوں کے ساتھ رہتی ہے وہ اس کے کوائف سے بھی واقف ہیں اور والدین کی کوئی نہ کوئی دستاویزات تو ہوں گی ان کے پاس جن کی نشاندہی پر بچی کو ب فارم جاری کیا جاسکتا ہے۔ بصورت دیگر ایک ذہین اور علم حاصل کرنے کا شوق رکھنے والی بچی کا مستقبل تاریک ہے۔

اس ضمن میں جہاں بچی کا شوق اور جذبہ تحسین کے لائق ہے ،وہیں ساتھ کھڑے رشتے داروں کا کردار بھی لائق تحسین ہے جو اس معاملے کو سندھ ہائی کورٹ تک لے گئے۔

ان کے ساتھ ساتھ ایڈوکیٹ عثمان فاروق صاحب نے اس اہم مسئلے کے حل کے لیے جرات مندانہ قدم اٹھایا ہے اور استدعا کی ہے کہ ماہم رحمان کو ب فارم جاری کیا جائے اور میٹرک بورڈ بھی ماہم کو ایڈمٹ کارڈ جاری کرے تاکہ ماہم کا سال ضائع ہونے سے بچ سکے ۔

علم کا ایک چراغ بھی جل اٹھا تو ایک نسل سنور جائے گی۔ اور انھوں نے اس چراغ کو جلانے کا بیڑا اٹھایا ہے اس کے لیے ایڈوکیٹ عثمان فاروق صاحب بہت زیادہ تعریف اور دعائوں کے مستحق ہیں۔

مجھے یقین ہے کہ اللہ اس بچی کو ضرور کامیاب کرے گا کہ جس پر فیضان نظر ہو اسے آداب فرزندی ودیعت کیے جاتے ہیں، اور جسے کچھ آسمانوں سے ودیعت کیا گیا ہو، اللہ اسے ناکام کبھی نہیں چھوڑتا۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں