قربان انجم

افسوس ! میں اپنی ماں کا حکم بجا نہ لاسکا

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

قربان انجم :

پہلے یہ پڑھیے

ہندوستان سے پاکستان، ہجرت کی خونچکاں داستان ( پہلی قسط )

ہندوستان سے پاکستان، ہجرت کی خونچکاں داستان ( دوسری قسط )

ہندوستان سے پاکستان، ہجرت کی خونچکاں داستان ( تیسری قسط )

ہندوستان سے پاکستان، ہجرت کی خونچکاں داستان ( چوتھی قسط )

ہندوستان سے پاکستان، ہجرت کی خونچکاں داستان ( پانچویں قسط )

ہندوستان سے پاکستان، ہجرت کی خونچکاں داستان ( چھٹی قسط )

بی بی ماں تو بتول اختر کی ماں ہیں، اپنی بیٹی کی وفات کو کیونکر فراموش کرسکتی ہیں، خود میری اور بھائی غلام رسول اور دیگر قرابت داروں کو بھی بتول کا صدمہ ہمیشہ یاد رہے گا۔ بی بی اپنی وفات سے چند روز قبل مجھے وصیت فرما رہی تھیں:

” جب بھی وقت ملے واہگہ اور والٹن جانا۔ وہاں47 کے مہاجرین کے جو کیمپ لگے تھے ، اس جگہ کے بارے میں لوگ تمھیں بتا دیں گے۔ جہاں ہمارا کیمپ تھا، اس جگہ کی ایک نشانی یہ ہے کہ ہمارے کیمپ کے قریب ایک جوہڑ تھا، جہاں میں نے ’ بُولو‘ ( بی بی جان بتول اختر کو بُولو کے نام سے پکارا کرتیں) کی وفات کے بعد اس کے کپڑے دھوئے تھے۔ تم وہاں ضرور جانا، بُولو مجھے خواب میں ملی ہے۔ اگر جاﺅ تواس کے لئے فاتحہ خوانی کرنا۔“

بی بی جان کی وفات برین ہیمبرج کے بعد ہوئی۔ آخری دنوں میں وہ گفتگو بھی ٹھیک طرح سے نہیں کرسکتی تھیں۔ زبان میں لکنت تھی۔ خیالات پریشان تھے۔ مجھےاس بات کا زندگی بھر افسوس رہے گا۔ افسوس! اپنی ماں کے حکم کی تعمیل نہ کرسکا، کرسکتا ہی نہیں۔ اگر میں مہاجرین کے کیمپ کے مقام پر چلا بھی جاﺅں تو مجھے بتول کی قبر ( ایک گڑھا) نہیں ملے گی، فاتحہ خوانی اور دعاﺅں کا سلسلہ تو ہمیشہ سے ہمیشہ تک جارہی ہے۔

میری سب دوستوں سے درد مندانہ درخواست ہے کہ بتول سمیت ان تمام شہدا کے درجات بلند کرنے اور ہمیں صبر جمیل کی عطا کے لئے خصوصی دعا فرمائیں۔ یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے اسلام اورمسلمانان برصغیر کے لئے الگ وطن کے لئے غیرمعمولی قربانیاں پیش کی اور اب ہمارے ” رہنما “ ان قربانیوں کو بے کار و بے خیر ثابت کرنے میں کس قدر جوش و خروش کے ساتھ منہمک ہیں۔

بتول اختر سے بی بی جان کی والہانہ محبت ( جو کہ ممتا کا لازمہ ) کا ایک مظاہرہ یہ ہے کہ ہمارے خاندان کی اکثر لڑکیوں کا نام بتول کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ میری ایک بیٹی کا نام وجاہت بتول ہے ، دوسری کا عفت بتول۔ عفت کے شوہرعزیز محترم محمد عباس نے اپنی ہونہار بیٹی کا نام عائشہ بتول رکھا ہے حالانکہ میں نے اپنی بہن کے بارے میں تفصیلات انھیں بعد میں بتائی تھیں۔

بی بی جان بتول اختر کی یادیں تازہ کرتے ہوئے ایک واقعہ کا ذکر کرکے خود اشکبار اور دوسرے لوگوں کو سوگوار کردیا کرتیں۔ وہ واقعہ یوں بیان کیا جاتا رہا کہ بی بی جان ایک روز بچوں کے لئے ناشتہ بنا رہی تھیں، ایک پراٹھا توے پر ڈالا تو شدید گرم گھی کے چھینٹے بتول اختر پر آن پڑے جس پر بتول کو اذیت ہوئی تو اس نے اپنی ماں کی اس غلطی پر انتہائی جذباتی ردعمل کا اظہار کیا۔” انھی جہی “ ( اندھی نہ ہو تو)

پنجابی سے اردو میں ترجمہ میں نے بریکٹ میں دیا ہے ، یہ صحیح مفہوم کے قریب قریب ہی ہوسکتا ہے۔ اظہار اذیت کے اصل الفاظ وہی ہیں جو میری معصوم بہن کی مادری زبان نے ادا کردئیے۔ اس غمگین اور درد آزار منظر نامے کی تفہیم کے لئے قارئین کو یہ حقیقت ذہن نشین رکھنا ہوگی کہ ماں بیٹی کے عظیم الشان رشتے ( ممتا کے لازوال تعلق ) کا احترام لازم رکھتے ہوئے بتول نے غصے کا اظہار کیا۔

اظہار خیال کے لئے ممتا کی محبت بہت حد تک آڑے آرہی تھی۔ ادھر ماں پر اس وقت جو بیتی اور جس کرب میں وہ باقی ماندہ زندگی مبتلا رہی، وہ سب سے زیادہ لائق توجہ واقعہ ہے۔

بی بی جان متعدد بار ان گنت لوگوں کے سامنے اس واقعہ کا تذکرہ کرتی رہیں۔ مجھے بھی بارہا انھوں نے بتول کی دل آزاری کی انتہائی جذباتی کیفیت سے آگاہ کیا۔ ” انھی جہی “ کے الفاظ سن کر میری آنکھیں کئی بار برستی رہیں مگر جب شعور کی عمر کو پہنچنے کے بعد جب علمائے دین نے صحیح احادیث کے حوالے سے بتایا کہ شہید معصوم بیٹی اپنی ماں اور اپنے باپ دونوں کی یقینی مغفرت کا لازمی سبب بن جائے گی تو مجھے اطمینان و سکون کی ایسی دولت نصیب آگئی کہ جسے کسی بھی پیمانے سے ناپا نہیں جاسکتا۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب کسی کا بچہ فوت ہو جاتا ہے تواللہ تعالی فرشتوں سے فرماتا ہے کہ تم نے میرے بندے کے بچے کی روح نکال لی (حالانکہ وہ اللہ تو سب جانتا ہے) ، فرشتے عرض کرتے ہیں کہ نکال لی ، پھر ارشاد ہوتا ہے کہ تم نے اس (والدین) کے دل کے ٹکڑے (پھل) کو لے لیا ، فرشتے عرض کرتے ہیں لے لیا ، ارشاد ہوتا ہے کہ پھر میرے بندے نے اس پر کیا کہا ؟ فرشتے کہتے ہیں اِس نے آپ کی حمد کی اور (انا للہ واناالیہ راجعون) پڑھا ، اللہ فرماتا ہے کہ اس کے بدلے میرے بندے کے لیے جنت میں ایک گھر بنا دو اور اس کا نام بیت الحمد (تعریف کا گھر) رکھو۔

متعدد احادیث میں چھوٹے بچوں کا اپنے والدین کے لیے سفارشی ہونا وارد ہوا ہے، بعض روایات میں ہے کہ دوزخ سے پردہ اور آڑ بن جائے گا، بعض میں ہے کہ ایک مضبوط قلعہ بن کر کھڑا ہوجائے گا، ابن ماجہ کی روایت ہے کہ ناتمام بچہ کے والدین کو جب دوزخ میں ڈال دیا جائے گا تو وہ اللہ سے تکرار کرے گا، لہٰذا بچہ سے کہا جائے گا کہ اپنے والدین کو جنت میں لے جا تو وہ اپنے ناف کی ڈوری کے ذریعہ والدین کو جنت میں داخل کردے گا، تو جب ناتمام بچہ کا یہ حال ہے تو تام الخلق بچہ بدرجہ اولی اس طرح کی سفارش کرے گا۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

ایک تبصرہ برائے “افسوس ! میں اپنی ماں کا حکم بجا نہ لاسکا”

  1. bahis Avatar

    I have recently started a website, the information you provide on this web site has helped me greatly. Thanks for all of your time & work. Melina Enoch Dorwin