ڈاکٹرشائستہ جبیں :
[email protected]
چند ماہ پہلے ایک محترم رفیقِ کار نے بہتے آنسوؤں اور دل گرفتہ انداز میں بتایا کہ اُنہیں اپنا ایم فل کا تحقیقی مقالہ نا گزیر ذاتی مجبوری کی وجہ سے ادھورا چھوڑنا پڑا. مقالہ کے کل چار ابواب میں سے تین پر تحقیق مکمل کر کے وہ تحریری کام اپنے نگران مقالہ کو جمع کرا چکی تھیں،آخری باب پر کام جاری تھا کہ انہیں کچھ وقت کے لیے اس اہم کام کو مؤخر کرنا پڑا.
ان کی اس غیر حاضری سے فائدہ اُٹھا کر نگران مقالہ استاد محترم نے اپنی کسی منظور نظر طالبہ کو اس سارے مواد سے اسی عنوان پر نہ صرف پی ایچ ڈی کرا دی، بلکہ مقالہ شائع بھی کرا دیا اور یوں میری رفیق کار اپنی دو سالوں کی محنت، وقت، رقم سب کچھ تج کر خالی ہاتھ رہ گئیں. اس واقعہ سے وہ اس قدر دل برداشتہ ہوئیں کہ پھر انہوں نے ایک دوسری جامعہ میں داخلہ لے کر نئے سرے سے اپنی ڈگری مکمل کی.
یہ واقعہ محض ایک استاد کی غیر اخلاقی حرکت اور علمی سرقہ کا نہیں ہے، بلکہ یہ ہمارے ملک کے اعلیٰ تعلیمی نظام کی قلعی کھولتا ہے اور عیاں کرتا ہے کہ ہمارے بظاہر اعلیٰ تعلیم یافتہ اور معاشرے کے لئے رول ماڈل حضرات کی اصل حقیقت کیا ہے.
زیادہ پرانی بات یہ بھی نہیں ہے اور اس نسل کے کچھ بزرگ ابھی بھی بطور گواہ یہ بتانے کو حیات ہیں کہ تعلیم اور طب، ان دو شعبوں میں لوگ فی سبیل اللہ خدمت کرتے تھے اور برملا کہتے اور یقین رکھتے تھے کہ اگر ان دو شعبوں کو بھی کمائی کا ذریعہ بنا لیا جائے تو ان سے برکت اور اثر ختم ہو جاتا ہے.
ہمارے گاؤں کے استادِ محترم جناب عبدالغفور صاحب نے تمام عمر بلا تخصیص گاؤں کے بچوں کو صبح سے شام تک پڑھایا، لیکن کبھی کسی سے کوئی معاوضہ طلب نہیں کیا، کسی کا دل چاہا تو کچھ دے دیا، حالات نے اجازت نہ دی تو نہ دیا، لیکن ماسٹر صاحب کی طرف سے فیس یا کسی قسم کی ادائیگی کا کوئی مطالبہ کبھی نہ ہوا، بلکہ اکثر ضرورت مند بچوں کو کاغذ، قلم بھی وہ خود مہیا کرتے تھے،
بغیر کسی تفریق کے سب بچوں کو یکساں توجہ اور محنت سے علم سے فیض یاب کرنا ان کا شیوہ رہا. اس سلسلے میں ایک دلچسپ امر جو اب ذہن میں آتا ہے کہ ان محترم لوگوں کو کبھی کسی معاشی پریشانی کی شکایت کرتے بھی کبھی کسی نے نہ دیکھا، شاید توکل اور قناعت کی دولت سے مالا مال دل ان دنیاوی معاملات سے ماورا ہوتے ہیں.
یہ بھی حقیقت ہے کہ استاد اور حکیم معاشرے میں ہر ایک سے بڑھ کر قابلِ تکریم اور لائقِ تقلید جانے جاتے تھے. آج جب ہم یہ شکایت سنتے ہیں کہ استاد کی عزت نہیں رہی اور ڈاکٹروں کے ہاتھ میں شفا نہیں رہی، تو ہمیں اس حقیقت کو مد نظر رکھنا چاہیے کہ جو شعبہ بھی تجارتی بنیادوں پر استوار کیا جائے گا، جسے محض آمدنی میں اضافہ کا ذریعہ بنا لیا جائے گا، اس سے عزت، برکت اور وسعت ختم ہوتی جائے گی.
تعلیم اور طب کے شعبہ جات نے اس وقت ایک ایسی منافع بخش صنعت کی شکل اختیار کر لی ہے، جہاں محض نفع ہی نفع ہے، نقصان ہے تو معاشرے کا، کہ جہاں سے اقدار اور روایات اس نام نہاد تعلیم کی وجہ سے ختم ہوتی جارہی ہیں. ہر گلی، ہر محلے میں رنگ برنگے انگریزی میڈیم اسکول کُھلے ہیں، جہاں معمولی تعلیم یافتہ لڑکے، لڑکیاں انگریزی زبان کے حوالے سے معاشرے کے احساس کمتری کو بڑھاوا دے کے اپنے مالکان کے نفع حاصل کرنے میں مشغول ہیں.
کھیل کے میدان، جسمانی ورزش اور بھاگ دوڑ کے مواقع فراہم کرنے سے قاصر، چھوٹے بڑے گھروں میں قائم یہ نام نہاد انگریزی سکھانے والے سکول رنگ برنگ دیواروں، نک سک سے درست عملے اور کمپیوٹر کے سامنے بٹھا کر روبوٹ بنانے والی تعلیم کے ذریعے والدین کی جیبیں خالی کر رہے ہیں، جس ادارے کی فیس جتنی زیادہ ، وہ اُتنا ہی اچھا اور بہترین سکول سمجھا جاتا ہے. والدین ہر ماہ ایک تگڑی رقم سکول کے اکاؤنٹ میں جمع کرا کر سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اپنے بچے کی بہترین تعلیم و تربیت کا حق ادا کر دیا ہے.
یہ حال صرف ابتدائی درجہ کی تعلیم کا نہیں ہے، اعلیٰ تعلیم کا نظام اس سے بھی بدتر صورتِ حال سے دوچار ہے. دنیا کے ساتھ چلنے کی دُھن میں ہمارے ملک میں بھی چار سالہ ڈگری پروگرام جو کہ بی ایس کہلاتا ہے، عام کیا جا رہا ہے.
المیہ یہ ہے کہ یہ سارا معاملہ بھی کوا چلا ہنس کی چال کے مصداق ہے. اس ڈگری کے لیے اختیار کیا جانے والا طرز تعلیم، مطلوبہ سہولیات، تجربہ گاہیں، کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی سہولیات، اساتذہ کی اس ڈگری کے حوالے سے تربیت اور اعلیٰ تعلیم، ان تمام ضروریات کو مہیا کیے بغیر اندھا دھند پر جگہ بی ایس پروگرام شروع کرایا جا رہا ہے،
نتیجتاً پڑھے لکھے جاہلوں کی ایک ایسی نسل معاشرے کے سپرد ہو گی، جسے اپنے تعلیم یافتہ ہونے کے ثبوت کے طور پر شاید اپنی ڈگری دکھانے کی ضرورت پیش آئے گی، کیونکہ ان کے انداز و اطوار، طرزِ گفتگو سے تو ان کے تعلیم یافتہ ہونے کا احساس تک معلوم نہیں پڑتا.
ہر شہر میں بغیر کسی پیشگی منصوبہ بندی اور وسائل کی فراہمی کے بغیر بنائی جانے والی جامعات، دھڑا دھڑ بی ایس پروگرام شروع کرا رہی ہیں. صبح، دوپہر، شام تین تین شفٹوں میں قوم کے ہونہاران کو بھاری رقوم کے عوض، دو چار سوالات پر مبنی نوٹس فراہم کر کے، ایک دو بے مقصد اور بے فائدہ اسائنمنٹس کرا کے، اساتذہ کی خوشامد اور تحائف کے ذریعے خدمت کر کے ڈگریاں حاصل کی جا رہی ہیں.
اس میں کوئی شک نہیں کہ وطن عزیز میں کچھ سرکاری اور پرائیویٹ ادارے بہت اعلیٰ، عمدہ اور معیاری تعلیم بھی فراہم کر رہے ہیں، لیکن ہم جگہ جگہ کُھمبیوں کی طرح اُگتی جامعات اور ہر چھوٹے بڑے شہر میں قائم سب کیمپسز اور ان کے معیار تعلیم کا نوحہ لکھ رہے ہیں.
کیا بی ایس اور کیا ایم فل، پی ایچ ڈی سطح تک کی ڈگری ایسے ایسے عنوانات پر تحقیقاتی مقالے لکھوا کر عطا کی جا رہی ہیں کہ سمجھ میں نہیں آتا کہ اس صورتحال پر رویا جائے یا ہنسا جائے؟ دنیا کے کسی ملک میں تعلیم اور ڈگریوں کی اس انداز میں بندر بانٹ نہیں ہوتی ہو گی، جیسے ہمارے ملک میں دھڑلے اور ڈھٹائی سے جاری و ساری ہے.
یہ درست ہے کہ تحقیقاتی مقالہ لکھوانے کا اصل مقصد طلباء کو تحقیق کے طریقہ کار اور قواعد و ضوابط سے آگاہی و رہنمائی دینا ہوتا ہے، لیکن کم از کم عنوان بھی اتنا اہم اور جاندار تو ہو کہ اس پر کم از کم ڈیڑھ، دو سو صفحات طالب علم تحریر کرے.
یہ جامعات ہر سطح کے طلباء کو مزاحیہ عنوانات دے کے کاپی، پیسٹ مقالہ جات لکھوا کر اپنے تاج میں اتنے ایم فل اور اتنے پی ایچ ڈی کرانے کے پر لگانے کو مقصد بنائے ہوئے ہیں، فیس کے نام پر بھاری بھر کم رقوم، مقالہ جات اور تحقیق کے نام پر کوئی قابلِ ذکر کارکردگی نہیں. ہر دوسرے فرد کے ہاتھ میں اس جامعہ کی ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگری ہے اور اس میں ذاتی صلاحیت اتنی بھی نہیں کہ وہ ان ڈگریوں کا مخفف پی بتا سکے.
دنیا بھر میں رائج نظام تعلیم کو اپنے ملک میں ضرور متعارف کرائیں، لیکن معیار، نصاب اور سہولیات بھی ان کے برابر کی فراہم کریں، ورنہ جو نظام تعلیم بغیر کسی منصوبہ بندی کے آپ معاشرے کے اوپر ٹھونس رہے ہیں، وہ نہ آپ کو تیتر رہنے دے گا اور نہ بٹیر.
5 پر “کچھ علاج اس کا………..” جوابات
معاشرے کے بالکل اہم پہلو پر آپ نے روشنی ڈالی ہے ڈاکٹر .اور اِس نئی تعلیمی اور معاشرتی بیماری کو سمجھنے اور اسے سلجھانے کی اشد ضرورت ہے ورنہ ڈگریوں کے نام پر پیسے لینے کا کاروبار ایسے ہی چلتا رے گا.
Truly said dr shaista..it’s very necessary to resolve these issues as soon as possible..
Bhttt bhtt khoob.. Is point ko bhi logon ko dikhany ki zrort thi.. Jo k ap ny bht achy sy kia…
..You are right Mam
It’s necessary to resolve these
.educational problems in society
You are right Mam
It is necessary to solve these educational problems in our society for best future