محمد شاہد بھٹی :
انفارمیشن ٹیکنالوجی کے استعمال کے ساتھ معلومات ، ڈیٹا پرائیویسی اور سیکیورٹی خدشات ایک مستقل پرابلم ہیں لیکن اگلی دہائی میں آپ کے ڈیٹا کی پرائیویسی ایک بڑا اور انتہائی اہم معاملہ ہوگا ۔ مختلف کمپنیوں نے ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ ہم صرف اپنے دوستوں کے ساتھ رابطے میں رہنے کے لیے ، شہر کے آس پاس اپنا راستہ تلاش کر نے کے لیے یا کوئی اپنی دلچسپی کی پراڈکٹ تلاش کر نے کے لیے، جب ہم ہر نئے ڈیجیٹل ٹول کی خوبیوں کو سراہ رہے ہوتے ہیں اور ایک دوسرے سے تازہ ترین ایپس کی باتیں کررہے ہوتے ہیں، کمپنیاں ہماری معلومات ہمارے خلاف استعمال کرنے کے لئے اربوں ڈالر کے جنگی معلومات تیار کر رہی ہیں ، ان کے نزدیک آپ بھی ایک پراڈکٹ ہیں جو انفارمیشن اکٹھی کرنے کے لیے استعمال ہو رہی ہے.
یہ بات آپ کو اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعہ سے سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں ، تقریباً ایک ماہ پہلے میں نے اپنے اینڈرائیڈ فون میں ایزی پیسہ کا اکاؤنٹ بنایا، اکاونٹ بنانے کے لیے پلے سٹور سے ایپ ڈاؤن لوڈ کی اور دی گئی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے اسے اپنے فون میں انسٹال کر لیا۔
اس کی تکمیل میں ایک مرحلہ انگوٹھا کی تصدیق کا تھا ، وہ میں نے اس وقت نہیں کروایا کیونکہ اس کے لیے آپ کو کسی شاپ پر جانے کی ضرورت تھی. اس کے بغیر آپ اس اکائونٹ میں پیسے منتقل کر سکتے ہیں لیکن نکال نہیں سکتے. لیکن ایک ٹرانزیکشن کرتے ہوئے کچھ پیسے بھی اس میں منتقل کیے.
یہ ایک کام تھا جو میں نے اپنے فون سے کیا، اسی دن شام کو مجھے ایک دوست کی طرف سے فیس بک پر یہ میسج ملا :
” بھائی جی کیسے ہیں؟ آپ کا کوئی ایزی پیسہ کا اکاؤنٹ ہے، ایک ضرورت پڑ گئی تھی۔ “
جس دوست کی طرف سے یہ پیغام ملا ، وہ میرے لیے انتہائی قابل احترام شخص ہیں. اس بات کا مجھے یقین تھا کہ یہ پیغام ان کی طرف سے نہیں ہو سکتا۔
میرے لیے حیرت اور پریشانی کی بات یہ تھی کہ انھیں یہ کیسے پتا چلا کہ میں نے ایزی پیسہ اکائونٹ بنایا ہے. دوسری بات یہ کہ میں کنفرم ہوں کہ وہ پیغام ان کا نہیں تھا تو اس کا مطلب ان کا اکائونٹ بھی کوئی اور استعمال کر رہا تھا۔
میں بھی انفارمیشن ٹیکنالوجی سے بخوبی آگاہ ہوں اور جن کی طرف سے یہ پیغام تھا وہ بھی نا صرف کمپیوٹر کے ایکسپرٹ ہیں بلکہ ایک یونیورسٹی میں کمپیوٹر ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ بھی ہیں . ہم دونوں اس بات سے بخوبی اگاہ ہیں کہ فون میں وائرس بھی ہو سکتا ہے اور کوئی ایسی ایپلیکشن بھی ارادتاً یا اتفاقیہ طور پرانسٹال ہو سکتی ہے جو جاسوسی کا کام کرتی ہو.
تسلی کرنے کے لیے میں نے اپنے فون کو چیک کیا تو مجھے کوئی ایسی مشکوک ایپلیکشن فون میں نہیں ملی. اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ سب کیسے ممکن ہے کہ میری معلومات نا صرف ریکارڈ ہوئیں بلکہ اس کی اطلاع ایک ایسے شخص تک پہنچا دی گئی جس کے پاس فیس بک کے کچھ اکائونٹ تک غیر قانونی رسائی تھی اور وہ یہ بھی جانتا تھا کہ میری فرینڈ لسٹ میں کون کون موجود ہے . اس نے ان معلومات کو استعمال کرتے ہوئے ایک فراڈ کرنے کی کوشش کی. میں نے اس میسج کا جواب نہیں دیا اور بعد ازاں وہ میسج انسنٹ ہو گیا.
اس واقعہ سے آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ آپ کی ذاتی معلومات کتنی محفوظ ہوتی ہیں . آپ جب اپنے نام کی سم اینڈرائیڈ فون میں ڈال لیتے ہیں اور سائن اپ پراسیس مکمل کر لیتے ہیں، اس دن سے آپ گوگل کو اجازت دے دیتے ہیں کہ آج کے بعد وہ آپ کی ہر سرگرمی پر نظر رکھ سکتا ہے اور وہ مسلسل اسے ریکارڈ کرتا رہتا ہے.
گوگل ہر ایک سیکنڈ کے بعد ایک ڈیٹا پیکٹ جس میں آپ کی لوکیشن، فون کی بیٹری کا سٹیٹس اور کچھ اور تفصیلات گوگل سرور کو بھیجتا رہتا ہے . اگر آپ انٹرنیٹ سے کنیکٹ نہیں ہوں گے تو وہ یہ انفارمیشن فون میں محفوظ رکھتا رہے گا اور جب آپ انٹرنیٹ سے فون کنیکٹ کریں گے تو وہ یہ فون کی سٹوریج میں موجود ڈیٹا سب سے پہلے گوگل کو بھیجے گا اور بعد میں کوئی اور کام کرے گا.
اس دوران اپدیٹنگ یا اس طرح کا کوئی میسج آرہا ہوتا ہے. اگر آپ زیادہ عرصہ انٹرنیٹ سے کنیکٹ نہیں ہوتے تو کچھ اپپلکشنز کام کرنا چھوڑ دیتی ہیں اور وہ آپ کو مجبور کرتی ہیں کہ آپ انٹرنیٹ سے منسلک ہوں تاکہ وہ آپ کی محفوظ کی گئی ذاتی معلومات گوگل سرور تک پہنچا سکے.
فون جتنا اچھا ہوگا وہ اتنی بہتر طریقے سے آپ کی سرگرمیوں پر نظر رکھ سکے گا. جتنے فون کی ان پٹ کے زریعے ہیں وہ تمام انفارمیشن کو اکٹھا کرنے کے لیے استعمال کیے جا سکتے ہیں. فون کا مائک جو آواز کو ان پٹ کے طور پر لیتا ہے وہ بھی بات چیت کے علاوہ آپ کی ذاتی جاسوسی میں استعمال ہوتا ہے.
آپ جو گفتگو کر رہے ہوتے ہیں اس کو پراسیس کرنے کے لیے لینگویج بنڈل فون میں انسٹال ہوتے ہیں اور وہ آپ کی گفتگو چاہے وہ کسی لینگویج میں ہو اس کا فونیٹک ٹرانسکرپٹ بناتے رہتے ہیں اور اس ٹرانسکرپٹ میں سے خاص الفاظ جن کو کی ورڈز بھی کہا جاتا ہے، سلیکٹ کر کے مارکیٹنگ کمپنیوں سے شئیر کیے جاتے ہیں. جو بعد ازاں آپ کو ان سے متعلقہ اشتہارات فیس بک ، گوگل اور یوٹیوب یا جو بھی سوشل میڈیا کی ایپلیکیشن استعمال کرتے ہیں وہاں پر نظر آنا شروع ہو جاتے ہیں.
آپ جو بھی چیز گوگل پر سرچ کرتے ہیں اس کے جواب میں جو آپ کو دکھایا جاتا ہے اس میں سے کچھ پرسنٹ صحیح ہوتا ہے باقی وہ دکھایا جاتا ہے جس کے لیے گوگل نے پیسے لیے ہوتے ہیں. جو لوگ سمجھتے ہیں وہ ان ویب سائٹ کو پہچان لیتے ہیں ، جو نہیں سمجھتے ان کی سرچ کی سمت گوگل متعین کر رہا ہوتا ہے. گوگل یہ کیوں نہ کرے کیونکہ اس کی اربوں ڈالر آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ ہی سپانسرڈ سرچ ہے.
آواز کے علاوہ امیج پراسیسنگ کے ذریعے آپ کی لی گئی تصاویر میں سے بھی جو معلومات ملتی ہیں وہ مصنوعی ذہانت استعمال کرتے ہوئے اس میں سے بھی مارکیٹنگ کی انفارمشن لی جاتی ہے اور اس کو بھی بیچا جاتا ہے.
آپ کس کس سے رابطے میں ہیں ، کس سے کیا گفتگو ہوتی ہے، آپ کے فون میں کس طرح کے لوگوں کے نمبر محفوظ ہیں اور آپ کا اٹھنا بیٹھنا کن لوگوں کے ساتھ ہے اور کس وقت آپ کہاں ہوتے ہیں؟ اس کے علاوہ بھی مزید بہت کچھ مسلسل ریکارڈ ہوتا رہتا ہے . فون آن ہے یا نہیں ہے اس سے قطع نظر آپ کا فون مسلسل آپ کی ہر طرح جاسوسی کرتا رہتا ہے.
ایک مرتبہ سوچیں کہ پچھلے ایک سال آپ کیا کرتے رہے ہیں اور وہ سب کچھ گوگل کے پاس محفوظ ہو اور گوگل کی طرف سے آپ کو پیغام ملے کہ آپ کا ڈیٹا ہمارے پاس محفوظ ہے لیکن اس کو سٹور رکھنے میں ہمارا خرچہ آرہا ہے. آپ کچھ پیسے دے دیں ورنہ آپ کا ڈیٹا پبلک کر دیا جائے گا. اس بات کی اجازت ان کو اینڈرائیڈ فون استعمال کرتے وقت ان کو دے چکے ہوتے ہیں. قانونی طور پر بھی آپ ان کا کچھ نہیں کر سکتے.
اس طرح کی جو اگلی چیز ہے وہ سمارٹ واچز ہیں یا فٹنیس بینڈز ہیں. ان کا استعمال بتدریج بڑھتا جا رہا ہے. امریکہ میں ہر دسواں بندہ یہ فٹنس بینڈ استعمال کرتا ہے. یہ واچز خاموشی سے ایکسلرومیٹر اور گائروسکوپ سگنل اکٹھا کرکے ان کے مالکان کی جاسوسی کے آلات بن سکتے ہیں.
اس آلے میں بہت سارے سنسر ہوتے ہیں . مثال کے طور پر سطح سمندر سے انچائی ، ایئر پریشر ، ہارٹ بیٹ کی شرح ، بلڈ پریشر وغیرہ وغیرہ آپ کی ذاتی جسمانی معلومات اکٹھی کر کے شئیر کر رہے ہوتے ہیں . اگر یہ اعداد و شمار انشورنس والی کمپنیوں سے شئیر کرنا شروع کر دیں تو کمپنیاں اس ڈیٹا کا غلط استعمال بھی کر سکتی ہیں .
جب تک سموں کی بائیومیٹرک تصدیق نہیں ہوئی تھی اس وقت کچھ فون ٹھیک کرنے والی سموں کی کاپی بنا کر رکھ لیتے تھے اور اس کو کبھی کبھار استعمال کر کے بیلنس منتقل کرنے یا کچھ غیر قانونی کام کرتے تھے. بعد اذان باییومیٹرک تصدیق کا عمل شروع ہو گیا. اب اگر آپ کی سم گم ہو جائے تو کسی بھی شاپ پر جا کر آپ پرانی سم کا آئی ڈی بلاک کروا لیتے ہیں اور دوسری سم کا آئی ڈی اپنے فون نمبر کے ساتھ منسلک کروا لیتے ہیں.
اب جن لوگوں کا یہ خیال ہے کہ ہم نے دو درجہ تصدیق اپنے فون پر آن کی ہوئی ہے تو اس وجہ سے ہمارے ڈیٹا تک رسائی نا مکمن ہے اور وہ حکومت یا اپنے اداروں کے خلاف بے نامی اکائونٹ بنا کر دھڑا دھڑ غیر قانونی چیزیں شئیر کر رہے ہوتے ہیں. ان کے لیے بھی عرض ہے کہ احتیاط کریں کیونکہ آپ کو تصدیقی پیغام آپ کی سم پر آتا ہے اور اگر کوئی ارباب اقتدار آپ کے نمبر کو تھوڑی دیر کے لیے کسی اور سم سے منسلک کر دے اور تصدیقی کوڈ موصول کر کے دوبارہ آپ کے نمبر کو پرانی سم سے منسلک کر دے تو آپ کو پتا بھی نہیں چلے گا اور آپ کی انتہائی محفوظ معلومات تک رسائی ممکن ہو جائے گی اور اس کوڈ کو بعد اذان آپ کے کسی اکائونٹ تک غیر قانونی رسائی قانونی طور پر بھی لی جا سکتی ہے۔
ٹیکنالوجی اس وقت زندگی کا ایک اہم ترین جز بن چکا ہے. اور اس کا بغیر گزارا ممکن نہیں ہے. اس تحریر کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ آپ ٹیکنالوجی استعمال کرنا چھوڑدیں بلکہ جو لوگ ٹیکنالوجی کی پوشیدہ چیزوں کو نہیں جانتے مقصد ان کو آگاہی دینا تھا کہ اینڈرائیڈ استعمال کرنا ایک ضرورت ہے . لیکن کچھ اور ایپلیکشنز جو ہیکنگ کے مقاصد کے لیے استعمال کی جاتی ہیں ان کا استعمال بہت ہی ضرورت میں اور بہت ہی احتیاط سے کریں.
کسی سے بھی بات چیت کرنے سے پہلے یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ یہ ڈیٹا آپ کے فون کےعلاوہ بھی کہیں نہ کہیں بیک اپ ہو رہا ہے. وہ معلومات اگر کسی غلط ہاتھوں میں آکر پبلک ہوگئیں تو وہ آپ کے لئے مسائل بنا سکتی ہے . تصویریں بناتے ہوئے زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے کیونکہ تصویریں ساتھ ساتھ گوگل فوٹوز نامی اپپلیکشن پر جا رہی ہوتی ہیں. تصویریں کپڑوں میں بنائیں.