سائرہ فاروق :
پاکستان کے بڑے قومی اخبارات میں مجھے لکھتے ہوئے تین سے چار سال ہوگئے ہیں اور روزنامہ ” ایکسپریس “ کے خواتین صفحے کے لیے میرے مضامین خواتین اور بچوں کے سماجی ، نفسیاتی ،معاشرتی، معاشی مسائل کو بیان کرتے رہے ہیں۔
میں ان اخباری مضامین کو اپنی فیس بک سائٹ پر بھی لگاتی رہی، صرف یہ جاننے کے لیے کہ ہمارے سماج کے مرد و زن اس پر اپنی عمومی اور خصوصی رائے کیا رکھتے ہیں؟
مجھے یہ جان کر ہمیشہ خوشی ہوئی کہ خواتین کے مقابلے میں مرد حضرات نے نہ صرف مضمون کو پڑھتے بلکہ سراہتے بھی اور بے لاگ رائے بھی دیتے۔
ساس، بہو، دیورانی ، جیٹھانی، بچوں سے لاپروائی برتتی ماں، دفتر سے تھکے ہارے خاوند کی بیوی کی منہ زوریاں، پسند کی شادی وغیرہ جیسے موضوعات پر نہ ختم ہونے والی بحث کا آغاز میری فیس بک وال پر شروع ہوتا اور دلچسپ صورتحال اختیار کر جاتا ـ
یہ مرد ہی تھے جنہوں نے خواتین میں مروجہ نقائض کی نہ صرف نشاندہی کی بلکہ گھر ٹوٹنے یا بننے میں خواتین کو ہی مورد الزام ٹھہرایا۔
میں ان تمام کمنٹس کو بغور پڑھتی تو مجھے لگتا تھا کہ واقعی خواتین ہی تمام برائیوں کی جڑ ہیں ۔
واقعی خواتین ہی زبان دراز اور ہاتھ چھوٹ ہوتی ہیں ۔ مجھے لگتا ہے کہ پسند کی شادی ایک جرم ہے۔ مجھے لگتا کہ ہر طرح کی رائے دینا صرف مرد کا حق ہے کیونکہ وال پبلک کرنا بھی عورت کی غلطی ہے ـ اس لیے ہر طرح کے کیے گئے کمنٹ کو برداشت کرنا بھی ضروری ہے۔اسے کیا حق ہے کہ وہ مردوں کے اس سماج میں بحث کرے؟
کمنٹس کے جواب میں اپنے سوال رکھے، اپنا اکاؤنٹ بنائے اور پھر سے پبلک کرے لیکن اگر مردوں کی طرف سے کسی بھی قسم کی بدتمیزی کی جا رہی ہے تو اسے بلاک کرنا عورت کا ہی جرم بنا دیا جاتا ہے کیونکہ یہ حق صرف مرد کو حاصل ہے کہ وہ بات جیسی بھی ہو سنائے اور عورت کا یہ حق ہے کہ وہ صرف سنے اور برداشت کرے ـ
لیکن جب میں نے اپنا ایک بلاگ ” مرد عورت کا آقا کیوں بننا چاہتا ہے“ بلاگ ڈاٹ کام پر لگایا تو آنے والے کمنٹس، میسنجر اور ای میل کے ذریعے مردانہ احتجاج سے واقفیت ملی کہ مردوں کے رویوں، مزاج اور خواتین کی ملکیتی تصور پر لکھا گیا میرا کالم ہضم نہیں ہوا۔ اور ایسے میں انہیں خواتین کی منٹیلٹی پر پوسٹ کرنے کا موقع مل گیا ۔
وہ اپنی وال پر لکھتے ہیں کہ جو خواتین مردوں سے نفرت کرتی ہیں وہ سائیکو ہوتی ہیں ، ایسی پوسٹ پر واہ واہ کرنے والے بھی زیادہ تر مرد ہوتے ہیں لیکن ایسی پوسٹ لگانے والا مرد ان عوامل کا ذکر کرنا بھول جاتا ہے کہ جن کی وجہ سے خواتین مردوں سے نفرت کرتی ہیں ۔
انہیں لگتا ہے یہ ایک غیر ضروری بحث ہے ، وہ خواتین کی بدمزاجی کا ذکر کرتے ہیں مگر بدمزاجی کا اصل فیکٹر کیا ہے وہ اس پر سوال اٹھانے والی خواتین کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہیں ۔
انہیں لگتا ہے کہ خواتین کا مردوں کے خلاف متعصبانہ رویہ دراصل ان کی اپنی ہی نفسیاتی مسائل کا شاخسانہ ہے، انھیں لگتا ہے کہ ایسی خواتین فیمنسٹ ہوتی ہیں۔ ان کے نزدیک فیمینیسٹ ایک گالی ہے، برائی ہے حالانکہ میں فیمنسٹ نہیں ہوں ـ میں نے مرد اور عورت پر یکساں لکھا ـ میری فیس بک وال اس بات کی گواہ ہے ـ
مگر اس کے باوجود یہ تجربہ کافی حیران کن رہا کہ عورتوں کے خلاف لکھنے پر تو یہ تائید کریں گے اور لائیک بھی کریں گے مگر جہاں پر آپ ذرا سا بھی مردوں کے عمومی رویوں پر پوسٹ کر دیں تو مہذب چہروں سے نقاب اُترتے دیر نہیں لگے گی ۔
پھر یہ اس کا نام لئے بغیر پوسٹ کرتے ہیں کہ اس عورت کی منٹیلٹی چیک کرو، یہ مردوں کے خلاف متعصبانہ رویہ رکھتی ہے۔
الغرض مردانہ حاکمانہ طرز فکر پر لکھی گئی ایک سطرخواتین کو پراپیگنڈا مشین ڈکلئیر کر دے گی یا پھر آپ پر فیمنسٹ کا ٹھپہ لگا کر شدید مذمت کی جائےگی ،اسی لئے آپ سوشل میڈیا پر بہت ساری چیزیں چبا کر پھینک دیتے ہیں لیکن آپ انہیں لکھ نہیں پاتے کیونکہ انھیں قبول ہی نہیں کیا جاتا ـ
یہ کیسا رویہ ہے کہ آپ سماج کی ایک جنس کے بارے میں اصول طے کر دیں؟ اس پر لطیفے لکھیں ـ خواتین کی کوتاہیوں اور کمزوریوں کا احساس تو دلائیں لیکن اپنی کجی اور خامیوں کو خاطر ہی میں نہ لائیں ـ
کیا دنیا میں صرف آپ ہی اشرف المخلوقات بنا کر بھیجے گئے ہیں؟
چونکہ صرف آپ ہی اعلیٰ و ارفع ہیں تو اس لیے آپ نہ غلطی کرتے ہیں نہ گناہ! یہ کس قانون کی کتاب میں لکھا ہے؟ المختصر ریپ سے لے کر چولھا پھٹنے تک آپ کا کوئی کردار نہیں ہوتا ؟ کیا واقعی؟ آپ ایک معصوم فرشتہ ہیں اور آپ کے مد مقابل عورت ایک ایک ابلیس کی باندی ہےـ
ایک دوسرے درجے کی شہری کے علاوہ اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے، سال 2020 ختم ہونے والا ہے لیکن آپ کی ذہنیت نہیں بدلتی ، کیوں؟
سماج میں تو قدم قدم پر خواتین کو ایسے رویے دیکھنے کو ملتے ہیں، وہ ان پر کہیں بولتی ہیں، کہیں جھکتی مگر زیادہ تربرداشت کرتے ہوئے خاموش ہو جاتی ہیں ـ
مگر سوشل میڈیا کی سائیٹ فیس بک پر بظاہر معتدل نظر آنے والے لوگوں میں شدت پسندی کا رجحان پایا جانا انتہائی افسوسناک صورتحال ہے یہ ہماری سوچ ہی ہوتی ہے چاہے وہ انفرادی ہو یا اجتماعی پورے سماج پر اثر انداز ہوتی ہے۔
فیس بک ایسا پلیٹ فارم ہے جہاں ہم ایسی سوچوں کو روک سکتے ہیں جو خواتین کو کم تر، ظالم، نفسیاتی سمجھتی ہیں مگر مقامِ افسوس ہے کہ ایسا کرنا بہت مشکل ہے کیونکہ جب تک بحیثیت انسان صنفی امتیاز کو ترجیح دیں گے یہ مسئلے حل نہیں ہو سکتے نہ ہی دونوں ایک دوسرے پر الزام لگا کر سماجی تبدیلی لا سکتے ہیں ۔
معاشرے کی تبدیلی میں دونوں کو مل کر اپنا کردار ادا کرنا ہے ، دونوں ہی ایک دوسرے کی رائے کو عزت دیں گے تو ہی زندگی آسان ہو گی ۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے اصول کے تحت نہیں بلکہ مساوی حقوق کے تحت ایک دوسرے کو تسلیم کرنے سے ہی سماجی ترقی ممکن ہے۔
( محترمہ سائرہ فاروق ایک ایسی مصنفہ ہیں جن کے قلم سے تاثیر ٹپکتی ہے۔ ایسے حساس موضوعات پر لکھتی ہیں، جن پر کوئی دوسرا لکھنے کی ہمت نہیں کرتا، اور وہ اس خوبصورت انداز میں لکھتی ہیں کہ کوئی دوسرا کیا لکھے گا۔ ان کا سوشل چینج کے نام سے ایک بلاگ بھی ہے۔ )