بابری مسجد، بھارت، انیسویں صدی کی تصویری

سانحہ بابری مسجد ، طے شدہ منصوبہ کے تحت ہوا

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

مہناز ناظم :

چھ دسمبر کا دن تاریخ کے سیاہ دنوں میں شمار ہوتا ہے جب انیس سو بانوے میں ہندوستان کی مشہور تاریخی مسجد بابری مسجد کو شہید کر دیا گیا۔

انتہا پسند ہندوؤں نے مسجد کی زمین کو اپنےرام کی جنم بھومی یعنی جائے پیدائش قرار دے کر بابری مسجد کو شہید کردیا جو 1528 میں مغل فرمانروا ظہیرالدین بابر کے ایما پرقائم کی گئی اور اسی کے نام سے منسوب تھی ۔ ہندوؤں کا دعویٰ تھا کہ مسجد ایک مندر کو گرا کر تعمیر کی گئی تھی۔ یہ دعویٰ عدالتی تحقیقات کے بعد غلط ثابت ہوا ۔ تاریخی شواہد کے مطابق مسجدایک بڑے ٹیلے پر تعمیر کی گئی تھی جہاں کوئی عمارت نہیں تھی۔ پانچ سو سال تک یہ مسجد غیر متنازعہ رہی ۔ انگریزوں کے دور میں جب ہندو منظم ہوئے تو انہوں نے یہ تنازعہ کھڑا کیا۔

تقسیم ہند کے بعد بھی یہ مطالبہ کیا جاتا رہا کہ بابری مسجد کی جگہ مندر کی تعمیر کی جائے ، اس مقصد کے لیے راتوں رات کچھ مورتیاں لاکر مسجد میں چوری چھپے لاکر رکھ دی گئیں اور مسجد پر رام جنم بھومی کا دعویٰ کر دیا گیا۔ حکومت نے ہندو مسلم فسادات کے پیش نظر مسجد کو تالے لگا دیے۔

چھ دسمبر 1992 میں ہندوؤں کے ایک بڑے جلوس نے دھاوا بول کر ایک منظم طریقے سے مسجد کو شہید کر دیا۔ یہ کام پہلے سے کی گئی منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا۔ مسلمانوں کی طرف سے مزاحمت کی گئی تو ہندو مسلم فسادات پھوٹ پڑے جس میں مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا ۔ تقریبا دو ہزار افراد مارے گئے بالآخر معاملہ عدالت تک پہنچا ۔ عدالتی تحقیقات کرائی گئیں ، حقائق اور شواہد اکٹھے کئے گئے مگر حتمی فیصلہ 2019 میں سامنے آیا۔

28 سال کے طویل عرصے کے بعد بھارت کی سپریم کورٹ نے تمام حقائق اور شواہد کو نظر انداز کرتے ہوئے فیصلہ رام مندر کی تعمیر کے حق میں دے دیا۔ بعد ازاں ستمبر 2020 میں اس واقعے میں ملوث یعنی مسجد کو شہید کرنے کے مجرم تمام کے تمام باعزت بری کر دیے گئے۔

بابری مسجد کی شہادت اور پھر اس پر بھارتی عدالتوں کے فیصلے نے انصاف کی دھجیاں بکھیردیں۔ حقائق کو نظر انداز کرکے ہندو انتہا پسندوں کے حق میں فیصلہ کر دینا اس بات کو واضح کرتا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے تمام ادارے حکومتی اداروں سمیت جانبدار ہیں اور انتہا پسند ہندوؤں کے زیر اثر ہیں.

مودی حکومت واضح طور پر ہندو ازم کی علمبردار ہے مگر اس کے آنے سے پہلے بھی بابری مسجد کے حق میں کسی حکومت اور کسی سیاسی پارٹی نے نہ آواز اٹھائی اور نہ ہی کوئی ایسا اقدام کیا جوانصاف کی فراہمی کو یقینی بناتا۔

بابری مسجد پر بھارتی حکومت کے اقدامات نے بھارتی جمہوریت اور سیکولرازم کی حقیقت کھول کر رکھ دی ۔ بھارت میں اقلیتوں کو کسی قسم کا مذہبی تحفظ حاصل نہیں۔ بھارت ایک ہندو ریاست ہے جو صرف ہندو ازم کے مفادات کا تحفظ کرتی ہے۔ ہندوؤں کا جب اورجیسے دل چاہتا ہے اقلیتوں کے حقوق پامال کرتے ہیں ۔ خاص طور پر مسلمانوں پر کشمیر اور بھارت کے دیگر حصوں میں عرصہ حیات تنگ کیا ہوا ہے ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔

حکومت پاکستان نے بابری مسجد پر دیے گئے بھارتی عدالتی فیصلوں کی مذمت کی، بھارتی حکومت پر زور دیا کہ وہ اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کرے اور ہندو انتہا پسندی کو روکے مگر کیا یہ صرف پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ وہ بھارت میں مسلمانوں کے حقوق کی پامالی اور ان کی عبادت گاہوں کا تقدس پامال ہونے پر آواز اٹھائے یا عالم اسلام اور انسانی حقوق کی تنظیموں کا بھی کوئی فرض بنتا ہے کہ وہ بھارت کو اس ظلم و ستم سے باز رکھنے میں اپنا کردار ادا کریں.

اقلیتوں کی عبادت گاہوں کا تحفظ ہر ملک کی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ بھارتی حکومت اب بھی اپنی ہٹ دھرمی اور نا انصافی کی روش پر قائم ہے، اس کا سب سے بڑا ثبوت کشمیرمیں مسلمانوں کی حالت زار ہے۔ آج جب بابری مسجد کی شہادت کو اٹھائیس سال گزر چکے ہیں ، یہ سوال ہنوز اپنی جگہ موجود ہے کہ بھارت میں اقلیتوں کا مستقبل کیا ہے؟

کب تک اسی طرح ان پر ظلم کا سلسلہ جاری رہے گا ؟ ہندو انتہاپسند کب تک اپنی من مانیاں کرتے رہیں گے؟ کب تک انصاف کا خون ہوتا رہے گا اور دنیا خاموش تماشائی بنی رہے گی؟ آخر کب تک؟؟


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں