جب ٹرمپ نے یروشلم کو اسرائیل کا دار الحکومت تسلیم کیا، اس موقع پر لکھی گئی تحریر
تزئین حسن :
چند برس قبل پی ٹی وی پر کسی کامیڈین کا ایک خاکہ دیکھا تھا جس کی کہانی کچھ یوں تھی کہ گاؤں کے کسی کسان کا بیٹا دبئی چلا جاتا ہے. درہم کما کر گاؤں میں خوب بڑا گھر بنواتا ہے اور باپ سے کہتا ہے کہ وڈیرے کے بیٹی سے شادی کروں گا.
قصہ مختصر باپ بیٹا سر پر پگڑی باندھ کر وڈیرے کے گھر جاتے ہیں. جو ان کی درخواست سنتے ہی اپنے آدمیوں کو ان کی دھنائی کا حکم دیتا ہے. جب وڈیرے کے بندے مارتے مارتے تھک جاتے ہیں تو بیٹا ہمت کر کے اپنی مٹی میں لت پت پگڑی اٹھاتا ہے اور سر پر رکھ کر وڈیرے سے پوچھتا ہے:
” تو پھر میں آپ کی طرف سے انکار ہی سمجھوں؟ “ ایسا لگتا ہے کہ اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل اور پھرجنرل اسمبلی میں امریکا کی عزت افزائی کے بعد بھی صورتحال کچھ ایسی ہی ہے.
تفصیلات کے مطابق سلامتی کونسل کے بعد امریکا کی واضح دھمکیوں کے باوجود اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بھی ٹرمپ کے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا بیان مسترد کر دیا. چند روز قبل اقوام متحدہ کی 15 رکنی سلامتی کونسل میں ٹرمپ کے بیان کے خلاف مصر کی قرارداد کے حق میں چودہ ووٹ ڈالے گئے اور اس طرح باقی تمام ممبروں نے سلامتی کونسل کی تاریخ میں پہلی مرتبہ امریکا کو تنہا کر دیا.
ایوان میں اکیلے ووٹ دیتے ہوئے اقوام متحدہ میں امریکی مندوب نکّی ہیلے کی شکل دیکھنے کے قابل تھی. فرانس، برطانیہ ، جاپان یہاں تک کہ یوکرائن جیسے امریکی اتحادی بھی اس فیصلے میں امریکا کے خلاف تھے. فیصلے کے بعد نکّی کا کہنا تھا کہ آج سیکورٹی کونسل میں ہم نے جو کچھ دیکھا ” وہ توہین ہے اور ہم سے بھلایا نہ جائے گا.“
ان کا انداز کچھ ایسا تھا جیسے محلے کے بچوں سے پٹنے کے بعد پٹنے والا بچہ پیٹنے والوں کو دھمکی دی کہ ایک ایک کا نام ابا کو بتاؤں گا. یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ امریکی مندوب ہی نہیں ان کا انداز گفتگو بھی ہو بہو امریکی صدر کی نمائندگی کرتا ہے.
مگر نکّی اور انکے ابّا اتنے نکّے ہیں کہ اسکے بعد بھی بات انہیں سمجھ نہیں آئی. چناچہ جمعرات کو جنرل اسمبلی کے ہنگامی اجلاس میں اس مسئلے پر قرارداد پیش ہونے سے قبل نکّی نے ایک خط کے ذریعے 180 ممبر ممالک کو یاد دھانی کروائی کہ ہم امریکا کے خلاف ووٹ ڈالنے والے ملکوں کے نام نوٹ کر رہے ہیں. یہی نہیں انکا یہ بھی کہنا تھا کہ "ان ناموں کو وہ ٹرمپ کو رپورٹ کریں گی.”
نکّی کی دھمکی کا سب سے زیادہ دلچسپ جواب لاطینی امریکا کے بظاہر ایک غیر معروف ملک بولیویا نے دیا، جس کے یو این مندوب کا کہنا تھا کہ ” پہلا نام جو اسے [نکّی ] کو لکھنا چاہیے وہ بولیویا کا ہے۔“ یاد رہے کہ بولیویا اس وقت سلامتی کونسل کے پندرہ ممبران میں شامل ہے
برطانوی اخبار گارڈین کے مطابق انہوں نے یہ بھی کہا ” میں چاہو گی کے آپ کو معلوم ہو کہ [امریکی] صدر اس ووٹ کو ذاتی معاملہ سمجھتے ہیں.“ نکی ہیلے نے اس پر بس نہیں کیا، انہوں نے مزید کہا :” امریکی صدر اس ووٹ کا بہت احتیاط سے جائزہ لے رہے ہیں اور انھوں نے مجھ سے درخواست کی ہے کہ میں انہیں رپورٹ کروں کہ ہمارے خلاف کس نے ووٹ دیا ہے.“
اس پر بھی بس نہیں ہوئی تو قرارداد سے ایک دن پہلے بدھ کو ٹرمپ نے براہ راست امریکا کے خلاف ووٹ ڈالنے والوں کو امداد بند کرنے کی دھمکی دی. ٹرمپ کا کہنا تھا کہ دنیا کی اقوام امریکا کا فائدہ اٹھاتی ہے،
” ہم سے سینکڑوں ملین بلکہ بلین ڈالر لیتی ہے اور اس کے بعد ہمارے خلاف ووٹ ڈالتی ہے.“
ٹرمپ کے غیظ و غضب کے جواب میں ترکی کے وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ” دنیا اب تبدیل ہو چکی ہے، میں طاقتور ہوں اس لئے میں صحیح ہوں،“ اب نہیں چلے گا.
امریکا کے اس واضح دباؤ بلکہ ڈھٹائی اور بد معاشی کے بعد بھی امریکا اور اسرائیل کے خلاف یہ قرارداد بھاری اکثریت سے منظور ہو گئی. تفصیلات کے مطابق 128 ملکوں نے قرار داد کے حق میں جبکہ صرف نو ملکوں نے ٹرمپ کے حق میں ووٹ ڈالا ۔
جن میں گویٹے مالا، ہونڈرس، پالاؤ، میکرو نیشیا، نارو، سولومن آئی لینڈ، مارشل آئی لینڈ اور ٹوگو جیسے نامی گرامی ملک شامل ہیں. یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ان تمام ممالک کی مجموئی آبادی دو لاکھ نفوس پر مشتمل ہے. پاکستان، سعودی عرب یہاں تک کہ بھارت نے بھی اپنے ووٹ کو اسرائیل اور امریکا کے خلاف استعمال کیا.
اطلاعات کے مطابق اب بھی امریکی صدر کھنبا نوچ رہے ہیں جن کا کہنا ہے کہ امریکی فیصلے کے خلاف جانے والوں کی امداد بند کر دی جائے گی. اگر ایسا ہوا تو بہت اچھا ہے کہ یہ بات بھی سامنے آ جائے کہ تیسری دنیا کے کرپٹ حکمرانوں کو امریکی امداد خود امریکا کی بیساکھی ہے. یہ وہ لاٹھی ہے جس کے بغیر چلنا امریکا کے لئے ممکن نہیں.
مگر ٹرمپ اس حقیقت کو نظر انداز کر دیتے ہیں کہ امریکا ہر سال 42 بلین کی جو امداد دیتا ہے اس کا بڑا حصہ اسرائیل کو جاتا ہے. اس کے بعد مصر اور افغانستان کا نمبر آتا ہے. باقی دنیا کو مونگ پھلی ہی ملتی ہے مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ اس موقع پر یہ دونوں ممالک بھی امریکا کے ساتھ کھڑے نہیں ہوئے.
اس معاملے میں او آئی سی کے کردار کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا جس نے ماضی کے برعکس بروقت اور متحدہ ایکشن لیا اور اس میں اردگان جیسے قد آور عالمی رہنماؤں کے کردار کو بھی سراہا جانا چاہیے. مگر جاننے والے جانتے ہیں کہ امریکی صدر ٹرمپ کے بیانات کے ساتھ ساتھ یو این میں امریکی مندوب کے نخوت بھرے رویے نے بھی اقوام عالم کو ان کے خلاف ووٹ دینے پر مجبور کیا. نکّی ہیلے اقوام متحدہ کے اجلاسوں میں اپنے آپ کو باس سمجھتی آئی ہیں اور اس کا بہت بھونڈا اظہار بھی کرتی رہی ہیں.
اسرائیل کو تو جو کرنا ہے وہ پھر بھی کرے گا لیکن اس سارے معاملے میں امریکا نے اپنی عزت گنوائی. ٹرمپ دوسرے امریکی صدور کے مقابلے میں خبروں میں رہنے کے فن کے حوالے سے معروف ہیں لیکن اقوام متحدہ میں امریکا کی اس تازہ عزت افزائی سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ امریکا اقوام عالم میں اپنا رعب اور دبدبہ کھو رہا ہے اور امریکی صدر اب بھی ” آپ کی طرف سے انکار ہی سمجھوں“ کی تفسیر بنے ہوئے ہیں.
ایک تبصرہ برائے “” ایک ایک کا نام ابا کو بتائوں گا “”
Very informative article
Thanks for sharing