عبید اللہ عابد :
عمران خان کی ٹیم کے اکثر ارکان اپوزیشن کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کھڑے ہوچکے ہیں اور منت ترلوں پر اتر آئے ہیں۔ ان کے بیانات سے محسوس ہورہاہے کہ وہ اپوزیشن تحریک سے خوفزدہ ہیں۔
وزیراعظم عمران خان کہتے ہیں کہ کورونا پھیل رہا ہے لیکن اپوزیشن کو جلسوں کی پڑی ہوئی ہے۔ پی ڈی ایم جان بوجھ کر لوگوں کی زندگی خطرے میں ڈال رہی ہے۔ کورونا وائرس خطرناک حد تک پھیل رہا ہے، ایسے میں پی ڈی ایم کو جلسے بند کردینے چاہئیں۔ واضح رہے کہ عمران خان نے یہ بیان 22 نومبر کو دیا۔
جس روز وزیراعظم یہ بات کررہے تھے، اسی روز گورنر پنجاب چودھری محمد سرور اور مشیر وزیراعلیٰ پنجاب ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان گورنر ہائوس میں لاہور اور سیالکوٹ الیون بنا کر میچ کھیل رہے تھے۔ وہاں نہ صرف دونوں کے ساتھ پروٹوکول عملہ ، تحریک انصاف کے لوگ اور طالبات کی ایک بڑی تعداد گورنرہائوس، لاہور کے لان میں جمع تھی اور میچ سے محظوظ ہورہی تھی۔ کیا چودھری سرور اور فردوس عاشق اعوان کو خبر نہ تھی کہ وہ لوگوں اور بچوں کو اکٹھا کرکے میچ کھیل رہے ہیں، اپنی اور ان کی جانیں خطرے میں ڈال رہے ہیں؟
وزیراعظم کے بیان کے ایک ہفتہ بعد یعنی 29 نومبر کو وفاقی وزیر اسد عمر نے سکھر میں ٹینٹ کے نیچے یوتھ ونگ کے ایک بڑے اجتماع سے خطاب کیا۔ یہ وہی اسد عمر ہیں جو کورونا کے خلاف حکمت عملی وضع کرنے والی کمیٹی کے اجلاس کی صدارت کرتے رہتے ہیں۔ وہ ایک طرف ملک میں اجتماعات پر پابندی کی باتیں کرتے تھے، تعلیمی ادارے بند کرنے کی بات کرتے تھے لیکن خود اجتماعات سے خطاب کرتے ہیں۔ ایسے میں اگر بعض حلقے کورونا کے خلاف حکومتی دوہائی کو سیاسی قرار دیتے ہیں تو غلط نہیں کرتے۔
اب جبکہ اپوزیشن جماعتوں نے حکومت کی طرف سے جلسوں پر عائد پابندی کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے اور تمام تر رکاوٹوں کے باوجود اپوزیشن جلسےکررہی ہے، تو حکومتی ٹیم کے کئی ارکان نے اپوزیشنکے سامنے ہاتھ جوڑ دیے ہیں کہ پلیز ! رہنے دو جلسے، ہمیں حکومت کرنے دو ۔۔۔۔۔
اپنی آخری سیاسی اننگ کھیلنے والے شیخ رشید کہتے ہیں:
” اپوزیشن ووٹرز کو کورونا میں دھکے دے رہی ہے، اپوزیشن خطے اور دنیا کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے دور اندیشی سے کام لے۔ اپوزیشن کے رہنماء میڈیا پر بیانات دیکر بھی بات کرسکتے ہیں ۔ قوم کو فیصلہ کرنا ہے کہ اب اس نے کورونا وائرس کی سیاسی خودکشی کرنی ہے یا ٹی وی پر اپوزیشن کو سننا ہے ۔ “
پنجاب کے وزیرِاعلیٰ سردار عثمان بزدار کہتے ہیں کہ کورونا وائرس کی وباء کے دوران عوام کی جانوں کو خطرے میں ڈال کر اجتماع کرنا سیاسی حماقت ہے۔
گورنر پنجاب چودھری سرور نے کہا ہے موجودہ صورتحال میں اپوزیشن کا جلسے جلوسوں پر اصرار خود غرضی ہے۔ اپوزیشن کو عوام کی صحت سے نہیں کھیلنا چاہیے۔ کورونا وبا کے پیش نظر اپوزیشن کو اپنے رویے پر نظرثانی کرنی چاہیے۔
یہ سب بیانات حکومتی ٹیم کی بے بسی کو ظاہر کررہے ہیں۔ عدلیہ کی طرف سے انکار کے بعد حکومت نے علما کو استعمال کی کوشش کی ہے۔
صدرمملکت ڈاکٹر عارف علوی نے علما کانفرنس منعقد کی۔ اس کانفرنس میں علما سے کہا گیا کہ وہ لوگوں کو سمجھائیں، دوسرے الفاظ میں انھیں اپوزیشن کے جلسوں میں شریک ہونے سے روکیں ۔ ہاں ! حکومت اجتماعات منعقد کرے تو صرف ان اجتماعات میں شریک ہوں۔
حکومت کی دو عملی ملک کا سب سے بڑا مسئلہ بن چکی ہے، مجھے کہنے میں کوئی جھجھک نہیں کہ حکومت کورونا کے خلاف جدوجہد میں مخلص نہیں ہے۔ اگر وہ مخلص ہوتی تو سب سے پہلے وہ خود یعنی ہر حکومتی فرد اور اس کے بعد تحریک انصاف کے تمام ذمہ دار ایس پی اوز پر عمل کرتے، وہ اجتماعات نہ کرتے، تمام حکومتی مشینری ایس پی اوز پر عمل درآمد کرتی تو پھر عوام سمجھتی کہ ہاں ! حکومت مخلص ہے۔ پھر اپوزیشن پر اخلاقی دبائو بڑھتا ، وہ بھی جلسے نہ کرتی لیکن حکومتی افراد جلسے کریں لیکن اپوزیشن نہ کرے، اسے کون سنجیدہ رویہ قرار دے سکتا ہے؟
یہ حکومتی دو عملی ہی ہے جس کی وجہ سے اب حکومت کی مدد کو کوئی بھی نہیں آرہا۔ کوئی دلیل اپوزیشن کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن رہی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھی گزشتہ روز ملک میں سیاسی اجتماعات پر پابندی عائد کرنے سے صاف انکار کردیاہے۔
عدالت نے کہا ہے ” پارلیمنٹ ہے ، ایگزیکٹو ہے، سوسائٹی اپنی ذمے داری نہیں پوری کر رہی تو عدالت کیوں مداخلت کرے؟ “ اور یہی وجہ ہے کہ اب حکومت کو خود اپوزیشن کی منت سماجت کرنا پڑ رہی ہے کہ
” نہ کرو جلسے، ہمیں حکومت کرنے دو۔“