سائرہ فاروق :
میں نے بلاگ سپاٹ پر کام شروع کیا تو ٹیکنیکل سائیڈ کی جانکاری نہ ہونے کے برابر تھی چنانچہ میں نےکچھ مرد و خواتین سے اس سلسلے میں بات کی ، خواتین کا رسپانس سرد ہی رہا جبکہ مرد حضرات نے اس حوالے سے جو رسپانس دیا وہ مثبت اور منفی دونوں ہی طرح کا تھا ۔
اگر آسان الفاظ میں کہوں تو صرف چند مرد حضرات ہی ایسے تھے جو ٹو دا پوائنٹ بات کرتے رہے مگر زیادہ تر مردوں نے میرے پوچھنے پر فری ہونا اپنا حق سمجھنا شروع کر دیا۔ دراصل یہ ہمارے سماج کی وہ ذہنیت ہے جس کے مطابق عورت صرف ایک جنس ہے یا ایک پروڈکٹ، اس سے زیادہ وہ اسے اہمیت دینا ہی نہیں چاہتے ـ
آخر دل بہلانے والی اس مخلوق کو صرف سیکسی ہونا ہی زیب دیتا ہے، سوچتا ہوا ذہن اور عملی میدان میں اترتی عورت انھیں اپنے مقابل پسند ہی نہیں ۔ ایشیائی مردوں کو سیکس کے علاوہ سوچتے ہوئے دقت کیوں ہوتی ہے یہ سمجھ سے بالاتر ہے ـ
ان کی حیرتیں تب عروج پر ہوتی ہیں جب وہ ایک یا دو بار بات کر لیتے ہیں تو یہ سوچتے ہیں کہ یہ انباکس معاشقے شروع کیوں نہیں کر رہی؟ یہ اپنے کام کے حوالے سے ہی کیوں انباکس کرتی ہے؟ یہ ویسے حال پوچھنے کیوں نہیں آتی؟
صرف سوال پوچھتی لڑکی ایک دم سے ایسی بے رنگ تتلی لگنے لگتی ہے جس کے سارے رنگ اڑ گئے ہوں ـ پھر یہ اس سے بات کرنا اپنی توہین سمجھتے ہیں ـ
میرے سوال تھے :
ایس ای او کے بارے بتائیں
سائٹ میپ کا پیج کیسے بنتا ہے؟
ایچ ٹی ایم ایل کیا ہے؟
سرچ کونسول کسے کہتے ہیں؟
کی ورڈز کے بارے میں بتا ئیں۔
ان کے جواب تھے :
آپ کا پیارا نام کیا ہے؟
آپ کی عمر کیا ہے؟
آج سے میں تمہارا دوست ہوں.
کیا تمہیں میرا میسج کرنا برا لگتا ہے؟
تم بات کیوں نہیں کرتیں؟
اتنے نخرے کیوں کرتی ہو؟
کیا میں تمہیں میسج نہ کروں؟
اکثر ان سوالات کو نظرانداز کرنا پڑتا یا بے حد اصرار کرنے پر مروتاً کہنا پڑتا کہ ” نہیں برا لگتا “ تو بندہ مزید چوڑا ہو جاتا ـ
میں پوچھتی : ” سائٹ میپ کیسے تشکیل دیا جاتا ہے؟ “
تو وہ کہتا : ” کچھ کھاؤ گی؟ “
پھر برداشت کی بھی حد ہوتی ہے جو بالآخر ختم ہو جاتی ہے۔
بلاگ سپاٹ کی اس فیلڈ میں اکثریت مرد اسی رویے کے ساتھ سامنے آئے ـ بہت کم تھے جنہوں نے نہ صرف حوصلہ افزائی کی بلکہ احسن انداز میں سمجھایا بھی مگر ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر تھی۔
میں جہاں کسی بلاگ گروپ میں ٹیکنیکل بات کرتے ہوئے کسی شخص کے کمنٹ کو دیکھتی تو فوراً ان باکس میں جاتی ، جہاں مجھے لگتا کہ کال پر بات سمجھنا آسان ہے وہاں میں نے خود کال بھی کی ۔
لیکن جہاں مجھے لگتا کہ کال مناسب نہیں اور ٹیکسٹ کے ذریعے بات سمجھنے میں ہی عافیت ہے تو اگلا کال کرنے کے لیے مچلنا شروع کر دیتا اور پوچھے گئے ہر سوال کو نظرانداز کر دیتاـ
یہاں سوال اٹھتا ہے کہ آپ ایسوں سے بات ہی کیوں کرتی تھیں؟
تو جواب یہ ہے کہ ہمارے ہاں کوئی ٹیکنیکل ادارے تو ہیں نہیں جہاں پر آپ یہ سب سیکھیں ـ
دوسرا آپ یوٹیوب جتنا بھی سرچ کر لیں آپ جب تک کسی استاد یا ماہر سے رابطہ نہیں کرتے آپ کو ٹیکنیکل چیزیں باآسانی سمجھ نہیں آ سکتیں ـ
یہ مجبوری ہے اس میں اپنی چوائس کا کوئی دخل نہیں ـ
میرے بلاگ سپاٹ کے اس سفر میں مختلف مزاجوں سے بالمشافہ ملاقات ہوئی یہ فسٹ ہینڈ نالج تھا،جس سے میں نے بہت سیکھا لہذا ان ہوس زدہ دماغوں کو یہ پیغام اس بلاگ کے ذریعے دینا چاہتی ہوں کہ
باز آ جائیں ، دوسرے کو اتنا بچہ مت سمجھیں۔
ہوس کی آڑ میں دوستی دوستی مت کھیلیں…
اس کھیل میں لازمی نہیں کہ دوسرا فریق بھی دلچسپی لے ـ
لہذا یہ جو ذہن آپ کے پاس اپنی حاجت لے کر آیا ہے، ہوسکتا ہے یہ عشق و محبت کے مرحلے کسی ایک شخص کے ساتھ عبور کر چکا ہو اور مزید کی اسے حاجت نہ ہو ۔
اسے وہ جبیں نہ سمجھا جائے جو ہر بت کے آگے جھک جاتی ہے
ہو سکتا ہے یہ دل دوستی عشق محبت کے علاوہ بات کرنا چاہتا ہو یا جسے صرف اپنے کام سے کام رکھنے کی عادت ہو وہ یقیناً دوسرے کا دماغ بھی ٹھکانے لگانا جانتا ہے، سو ہر لڑکی تر نوالہ نہیں کہ جسے آپ ہر وقت نگلنے کے لئے تیار رہتے ہیں۔
جب عورت سیکس سے بالاتر ہو کر بات کر سکتی ہے تو آپ کیوں نہیں؟
یہ سارے دائرے بات چیت ہوس کے گرد ہی گھومے یہ ضروری تو نہیں ۔
صاحب آپ اپنی ذہنی گندگی کو کہیں اور کیوں نہیں دھو لیتے؟
آخر مردانہ ذہنیت بدلتی کیوں نہیں؟
یہ سوچتے کیوں نہیں کہ عورت بھی ایک دماغ رکھتی ہے ـ وہ بھی سوچ سکتی ہے ـ وہ بھی آپ کی طرح ایک مکمل انسان ہے ـ مسئلے اس کے ساتھ بھی ہیں جو معشوقیوں کی فہرست میں نہیں آتے ـ
لیکن بدقسمتی سے وہ اپنے مسائل آپ کے پاس لے کر آتی ہے تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اسے آپ سے کوئی عشق ہو گیا ہے ـ
آپ اسے ریپر میں لپٹی ٹافی سے ہٹ کر کیوں نہیں سوچتے؟
( محترمہ سائرہ فاروق ایک ایسی مصنفہ ہیں جن کے قلم سے تاثیر ٹپکتی ہے۔ ایسے حساس موضوعات پر لکھتی ہیں، جن پر کوئی دوسرا لکھنے کی ہمت نہیں کرتا، اور وہ اس خوبصورت انداز میں لکھتی ہیں کہ کوئی دوسرا کیا لکھے گا۔ ان کا سوشل چینج کے نام سے ایک بلاگ بھی ہے۔ )