یہ عراقی خاتون غانیہ غنیم محمد ہیں، نو بچوں کی ماں ہیں اور موصل کی رہنے والی ہیں. ان کا شہر نو ماہ تک عراقی فوج اور داعش کے عسکریت پسندوں کے درمیان میدان جنگ بنارہا. جب داعش والے شکست کھاکر یہاں سے بھاگے تو غانیہ اور موصل کے دیگر باسیوں کو واپس آنے کا موقع ملا. واپس آئے تو دیکھا کہ پورا شہر ملبے کا ڈھیر بنا ہوا ہے، خاتون ان دنوں اپنے تباہ شدہ گھر میں ہیں لیکن انھیں سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ گھر کی بحالی کہاں سے شروع کریں.
جس روز وہ واپس آئیں تو اردگرد کے دیگر اہالیان موصل غانیہ سے ملنے آپہنچے. اس لمحہ یہ عرب خاتون انھیں چائے کا ایک کپ پیش کرنے کے قابل نہ تھیں. وہ کہہ رہی تھیں کہ
"میں اپنے مہمانوں کے لئے کیسے کچھ پکائوں؟ لیکن یہ شرم کا مقام ہے کہ میں انھیں چائے کا ایک کپ بھی پیش نہ کرسکوں. مجھے کچھ پتہ نہیں ہے کہ میرا گھر اپنی سابقہ حالت میں کب واپس آئے گا!”
موصل والے شکوہ کناں ہیں کہ عراقی حکومت گھروں کی بحالی میں مکمل مدد دینے کے تمام تر وعدوں کے باوجود کچھ نہیں کررہی ہے.
غانیہ کہتی ہیں:” کوئی بھی میری مدد نہیں کررہا ہے، میں کیسے اپنے گھر کی تعمیر نو کروں گی؟