ثاقب محمود عباسی :
سیاست میں موروثیت کا مجھ سے بڑا شاید ہی کوٸی ناقدہو تاہم چند معروضی باتیں ضرور پیشِ نظر رہنی چاہیٸں۔
اول ۔ جمہوریت اور حقیقی جمہوریت کی پہلی سیڑھی سول سپرمیسی ہے ۔ یہ سیڑھی چڑھے بغیر موروثیت سے پاک حقیقی جمہوریت کی تمنا نرا آٸیڈیل ازم ہے۔
سول سپرمیسی اس لیے ضروری ہے کہ ترقی کا براہ راست تعلق سویلین قیادت کی پالیسی سازی اور فیصلہ سازی سے ہوتاہے۔ دنیا کی کسی قوم نے بھی ملٹری فیصلہ سازوں و پالیسی سازوں کی بدولت ترقی نہیں کی۔۔۔
دوم ۔ سیاسی جما عتوں میں موروثیت کی وجہ ہماری ذہنی پستی و خوئے غلامی ہے ۔ صدیوں تک بادشاہت اور پھر غلامی کے زیر اثر یہ ہمارے کلچر میں رچ بس گٸی ہے۔ اب اگر باپ کے بعد بیٹی یا بیٹے کو کسی قابل سنیٸر لیڈر سے زیادہ پذیرائی مل رہی ہو تو آخر کیوں کر ایسا فیصلہ نہ کیا جائے جس سے اقتدار و اختیار گھر کی لونڈی بھی رہے اور پارٹی بھی مضبوط ہو ؟
سیاست طاقت کے حصول کا نام ہے ۔ اس لیے یہاں فیصلے مثالیت پسندانہ نہیں حقیقت پسندانہ ہوتے ہیں ۔
سوم ۔ اگر عوام باپ کے بعد بیٹی یا بیٹے کو پسند کرتے اور ان کے ساتھ چلتے ، انہیں ووٹ کرتے اور اقتدار میں لاتے تو اس میں کوٸی براٸی نہیں کہ عوام کی مرضی فیصلہ کن ہوتی ہے ۔ پبلک Will اہم ہے اور اس کی قدر کی جانی چاہیے۔ عوام کا معیارِ انتخاب بدلے بغیر ان پہ اپنی مرضی ٹھونسی جائے تو وہ آمریت کی نٸی شکل تو ہوسکتی ہے ‘ جمہوریت ہرگز نہیں ہوسکتی۔
چہارم ۔ کرنے کا کام یہاں کچھ اور ہے، پڑھی لکھی مڈل اور لوٸر مڈل کلاس کو سیاسی تعلیم اور شعور سے بہرہ ور کیا جائے ۔ انہیں باقاعدہ فنِ سیاست سکھایا جائے ۔ انہی میں سے عام آدمی کی قیادت تیار کی جائے، ایسے چند ہزار لوگ جو ہر حلقے میں عوامی عصبیت کی بنیاد پہ عام آدمی کی نماٸندگی کے لیے کھڑے ہوں ۔
پنجم ۔ ذہنی غلاموں کو نہیں البتہ ملک و قوم اوراپنے بچوں کا بہتر مستقبل دیکھنے کے متمنی صاحبانِ علم و دانش کو عوام کے معیارِ انتخاب کو بدلنے کے لیے اپنی کوششیں بروئے کار لانی چاہئیے ۔ مجھے لگتا ہے کہ ہمارا دانشور طبقہ بھی تعلیم و تربیت سے بتدریج تبدیلی لانے پہ یقین نہیں رکھتا، ان کے پاس عوام پہ اثر انداز ہونے کا کوئی پلان سرے سے ہی نہیں ہوتا ۔ اندر سے دراصل یہ بھی چاہتے ہیں کہ ان کا بولا اور لکھا ایک دن میں ہی حقیقت بن جائے۔ صدیوں سالوں کی مسافتیں گھنٹوں منٹوں میں کٹ جاٸٕیں۔اب ایسا تو ہونے سے رہا، ارتقا کے عمل کو وقت چاہیے ہوتاہے۔
ششم ۔ عمران خان سے لاکھ اختلافات سہی مگر وہ شخصی و خاندانی عصبیت کو شکست دینے والا پہلا لیڈر تو ضرور ہے آخری ہر گز نہیں ۔ شہری حلقوں میں ، بلکہ اب تو اکثر قصبوں اور دیہاتوں میں بھی موروثیت کے خلاف طاقتور آوازیں بلند ہونا شروع ہوگئی ہیں ۔ بغاوت کی اور مزاحمت کی طاقتیں پہلے سے ہزاروں گنا طاقتور ہوچکی ہیں۔ موروثیت کا تیاپانچہ ہونے میں بس ایک اور نسل کا وقت لگے گا ۔ اگلی نسل یہ بار اٹھانے سے انکار کردے گی۔
ہفتم ۔ پارٹیوں کی قومی قیادت موروثی ہونا مجبوری ہوسکتی ہے مگر گراس روٹ لیول پہ عام آدمی کو نمائندگی کا حق ملنا چاہیے ۔ گلی ، یونین کونسل ، شہر اور ضلع کی سطح سے موروثیت کے خاتمے کے لیے آواز اٹھائیں ۔ ہر پارٹی کے لوگ ہر جگہ اپنا حق بحیثت عام آدمی منوائیں اور عام آدمی کی نمائندگی کے لیے عام آدمی کو اپنا لیڈر منتخب کریں۔
ہشتم ۔ پارٹیوں کے حقیقی ورکرز اپنی قیادتوں کو پریشرائز کرکے پارٹیوں میں جمہوریت لانے کےلیے آواز بلند کریں ، لابنگ کریں، پریشر بلڈ کریں اور پارٹیوں کے اندر جمہوریت لانے کی لیے بھرپور جدوجہد کریں۔
نہم ۔ عوام کا اعتماد عوامی طاقت پہ بنائیں اور تعمیر کرتے جائیں ۔ اللہ کے بعد طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں ، اس بیانیے کو عوام کے لاشعور میں اتارے بغیر جمہوریت آسکتی ہے نا ہی موروثیت سے چھٹکارہ ممکن ہے۔
دہم ۔ ابنِ خلدون کے سینکڑوں سال پرانے تصور ” شخصی و خاندانی عصبیت “ کی بیخ کنی کے لیے صدیوں تک بادشاہت اور غلامی کا شکار رہنے والی قوم کے اعتقادات و تصورات کو تعلیم و تربیت کے مسلسل ، مربوط اور ہمہ گیر پروگرام سے بدلاجائے ۔ اس مقصد کے لیے جمہوریت کو سکولز کی سطح سے نہ صرف پڑھانا شروع کیاجائے بلکہ سٹوڈنٹس کونسل کے انتخاب میں برت کے بھی دکھایاجائے۔
یازدھم ۔ جمہوریت کی خامیوں کا علاج مزید جمہوریت میں ہے ۔ شعور و آگہی اور عوامی بیداری سے اگر برطانوی تاج گھٹنے ٹیکنے پہ مجبور ہوسکتا ہے تو پاکستان میں لولی لنگڑی جمہوریت کو اصلی و حقیقی جمہوریت میں بھی بدلاجاسکتاہے۔
مریم نواز کے بعد آصفہ بھٹو کی سیاست میں انٹری پاکستانی سیاست کے لیے خوش آئیند ہے ۔ اس کی وجہ آصفہ کا تعلق زرداری بھٹو فیملی سے ہونا نہیں بلکہ ایک خاتون ہونا ہے ۔ پاکستانی سیاست کے مسائل کے حل ہونے کی ایک بڑی صورت بڑے پیمانے پر خواتین کی سیاست میں براہ راست شرکت سے مشروط ہے۔
(زیرطبع کتاب ”سیاست ، فنِ جہانبانی “ سے چند اقتباسات)