تیل پیدا کرنے اور برآمد کرنے والے ملکوں کی طاقتور عالمی تنظیم ’’اوپیک ‘‘ کا اب تیل کی بین الاقوامی مارکٹ پر ویسا کنٹرول نہیں رہ گیا جیسا پہلے کبھی رہا کرتا تھا کیونکہ 2019 ء اور اس کے بعد سے صرف تین افراد امریکہ کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ ، روس کے صدر ولادیمیر پوٹن اور سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان کے اقدام یا ایک ٹوئٹر مسیج تیل کی قیمتوں کا تعین کریں گے ۔ اوپیک اب اپنے لئے ایک مشترکہ مقصد تلاش کرنے کی جدوجہد میں مصروف ہے۔
امریکا، روس اور سعودی عرب تیل کی عالمی سپلائی پر اپنا تسلط اور غلبہ قائم کرچکے ہیں ۔ کیونکہ اوپیک کے رکن 15 ممالک کے مقابلے میں تین ملک کہیں زیادہ تیل پیدا کرتے ہیں۔ یہ تینوں ممالک ریکارڈ شرح پر تیل پیدا کررہے ہیں اور آئندہ سال پیداوار میں مزید اضافہ کرسکتے ہیں اگرچہ وہ ایسا کرنا نہیں چاہتے تاہم انھیں مجبورا ایسا کرنا پڑے گا۔
سعودی عرب ، روس اور امریکہ نے 2017 ء سے جاری تیل کی پیداوار میں تخفیف سے نمٹنے کیلئے اپنے پاس تیل کی یومیہ پیداوار میں اضافہ کیا تھا جس کے نتیجہ میں تیل کی آسمان کو چھوتی ہوئی قیمتوں میں معمولی کمی ہوئی تھی لیکن ایران کے خلاف امریکی پابندیوں کے آغاز اور ایران سے تیل کی خرید میں بعض ممالک کو استثنیٰ کے باوجود آئندہ تین ماہ کے دوران بین الاقوامی منڈی میں تیل کی سربراہی میں قلت کے اندیشے ہیں۔
تیل کی قیمتوں میں کمی کے رجحان کے دوران میں سعودی عرب نے آئندہ ماہ سے یومیہ 500,000 بیرل کی کٹوتی کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور تیل پیدا کرنے والے دیگر ملکوں کو خبردار کیا ہے کہ اکتوبر کی پیداوار کی سطح میں یومیہ ایک ملین بیرل کی کٹوتی کرنا ہوگی۔ لیکن سعودی وارننگ پر پوٹن نے نرم گرم ردعمل کااظہار کیا جبکہ ٹرمپ نے ٹوئیٹر کے ذریعہ فوری اس خواہش کو مسترد کردیا ۔ یادرہے کہ محمد بن سلمان کو اپنے پرعزم منصوبوں پر عمل درآمد کے لئے تیل کی دولت درکار ہے ۔ بین الاقوامی مالیاتی ادارہ اور ( آئی ایم ایف ) نے کہا ہے کہ سعودی بجٹ کو متوازن رکھنے 373.3 ڈالر فی بیرل تیل کی فروخت کی ضرورت ہوگی لیکن پرنٹ کی اس سے پانچ ڈالر فی بیرل کم ہے ۔ چنانچہ محمد بن سلمان کو اس ضمن میں پوٹن اور ٹرمپ سے مزید چیلنجوں کا سامنا کرنا ہوگا ۔