تقسیم ہند، 1947 ، فسادات کے بعد لاشیں اکٹھی کی جارہی ہیں

ہندوستان سے پاکستان، ہجرت کی خونچکاں داستان ( چھٹی قسط )

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

قربان انجم :

ہندوستان سے پاکستان، ہجرت کی خونچکاں داستان ( پہلی قسط )

ہندوستان سے پاکستان، ہجرت کی خونچکاں داستان ( دوسری قسط )

ہندوستان سے پاکستان، ہجرت کی خونچکاں داستان ( تیسری قسط )

ہندوستان سے پاکستان، ہجرت کی خونچکاں داستان ( چوتھی قسط )

ہندوستان سے پاکستان، ہجرت کی خونچکاں داستان ( پانچویں قسط )

جس اسلحہ کی تربیت ہمیں دی جاتی تھی اس میں کسی نوعیت کا جدید اسلحہ شامل نہیں تھا بلکہ وہی اپنے گاﺅں کے لوہار کی بھٹی میں تیار کردہ تلوار اور برچھی اور آتش بازی کے ماہروں سے حاصل کردہ پٹاخے تھے لیکن اس کے ساتھ ہی اس انتہائی اہم حقیقت کا اظہار بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ورزش اور اسلحہ کی تربیت نے ہمیں جسمانی مضبوطی کے ساتھ ساتھ نظم و ضبط کا پابند بننا بھی سکھایا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہمارے جذبہ ایمانی کو جلا بخشنے والی تقریروں اور حفیظ جالندھری کے شاہنامہ کے اجتماعی مطالعہ نے ہمیں اس قابل بنایا کہ اسلحہ جدید ہو یا قدیم بلکہ اسلحہ کا وجود تک بھی نہ ہو تو ایک بندہ مومن اپنی آزادی، عزت اور ایمان کے تحفظ کے لئے توپ و تفنگ کے مقابلے میں ڈٹ جاتاہے۔

یہی وہ جذبہ تھا جس نے ہمیں مسلح فوجی دستوں کے مقابلے میں جواں مردی کے ساتھ صف آراءہونے کی ہمت دی۔ مسلح دستے ہمارے غیرمسلح نوجوانوں کے مقابلے میں یوں دم دبا کر بھاگتے دیکھے گئے جیسے وہ ہر قسم کے اسلحہ سے محروم ہوں اور ہم سب انتہائی جدید اسلحہ سے لیس۔

ان میں گھڑسوار بھی ہوتے تھے اور دستی بموں سے لے کر بھاری بھرکم اسلحہ اٹھائے ہوئے جغادری قسم کے وحشی حملہ آور بھی ہوتے تھے لیکن جب ان کا سامنا کیا جاتا تو وہ اپنے گھوڑوں کو ایڑ لگا کر یوں بھاگتے جیسے ان کا مقابلہ اپنے سے کئی گنا زیادہ فوج سے ہے اور فوج بھی ایسی جس کے پاس حملہ آوروں کے مقابلے میں کہیں زیادہ بہتر اور جدید تر اسلحہ ہے۔

میں نے اس صورت حال کے مظاہر اور مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھے ہوتے تو زندگی کی یہ انتہائی اہم اور خوشگوار یادیں آج تک میرے ذہن میں اس طرح محفوظ نہ ہوتیں۔

جن دو معرکوں کا ذکر اس سے پہلے کرچکا ہوں ان میں پہلا معرکہ ’ دوا کھری ‘ کا ہے ۔ دواکھری ہمارے گاﺅں سے ڈیڑھ دو میل کے فاصلے پر واقع تھا۔ 16اگست کو شام کے وقت ہمارے ذرائع خبر رسانی نے اس گاﺅں پر سکھوں کے حملے کی اطلاع دی ۔ ہم اپنی اپنی پلاٹونوں سمیت اپنے لئے مخصوص مقامات پر لائن اپ ہوگئے۔

حوالدار عبدالحق نے مجھے اس ڈیوٹی پر مامور کیا کہ میں اپنی پلٹن لے کر فی الفور دوا کھری پر حملہ آوروں سے نبردآزما ہونے کے لئے موقع پر پہنچ جاﺅں۔ میں نے تکبیر کے نعروں کی گونج میں اپنے ڈپٹی کمانڈر مسٹر اصغر کو نصیحت کی کہ وہ دواکھری پہنچنے کے بعد مشرق کی جانب سے حملہ آوروں کو للکارے تاکہ وہ شمال کی طرف سے مغرب کی جانب بھاگنے پر مجبور ہوجائیں۔

جدھر میں گیارہ نوجوانوں کو لے کر اس طرح مورچہ بند ہوگیا کہ دشمن کو قریب آنے تک ہماری موجودگی کا علم نہ ہوسکا۔ میری یہ جنگی حکمت عملی کامیاب رہی۔ حملہ آور ڈرے سہمے بدکے ہوئے سراسیمگی کے عالم میں بھاگے بھاگے ہمارے قریب آ پہنچے۔

ہمیں دیکھ کر دشمنوں کے سرغنہ کو یہ دھوکا ہوا کہ ہم سکھوں کے قریبی گاﺅں ” بگالی پور اورڈھا “ سے ان کی مدد کے لئے آئے ہیں، اس دھوکا کی کوئی اور وجہ بھی ہوسکتی ہے لیکن ایک اہم وجہ یہ تھی کہ میں نے ” الحرب الخدعة “ کے اصول پر عمل کرتے ہوئے سر پر اکالیوں کے مخصوص رنگ کی پگڑی باندھ رکھی تھی۔

یہاں اس امر کی وضاحت کردوں کہ دفاع کے موقع پر میں اپنا آہنی خول پگڑی کے اوپر باندھتا تھا اور ایسی صورت میں جس کا سامنا دواکھری میں کرنا پڑا، زرد رنگ کی پگڑی آہنی خود کے اوپر باندھتا تھا چنانچہ مجھے احساس ہوا کہ میرا مدمقابل دھوکے میں آگیا ہے ، پھر بھی میں نے اسے خبردار کیا اور للکارا تو اس نے مقابلہ کرنے کی بجائے دونوں ہاتھ اوپر اٹھا دئیے۔

اس کا ایک خالی ہاتھ تھا اور دوسرے ہاتھ میں کرپان تھی اور وہ سراپا خوفزدہ تھا لیکن میں نے اسے کسی رعایت کا مستحق نہ سمجھا اس لئے کہ میرے کانوں میں دواکھری کے لوگوں کے چیخ پکار کی آوازیں آرہی تھیں اور حملہ آوروں کے خوف سے بھاگنے والے اس گاﺅں کے مکینوں کو اس عالم میں قطار در قطار دیکھ رہاتھا کہ عورتیں اپنے شیر خوار بچوں کو گود میں اٹھائے اور مرد اپنے اپنے حقے سنبھالے پناہ کی تلاش میں سرگرداں تھے۔

میں نے حملہ آوروں کے سرغنہ کو للکارنے کے ساتھ ہی حوالدار عبدالحق کی تربیت کے مطابق 45 درجے کا زاویہ بناتے ہوئے تکبیر کا نعرہ بلند کرکے پوری قوت سے اپنی برچھی اس کے سینے میں پیوست کردی جس سے وہ لڑھک کر گرگیا۔ میرے ساتھی اور ماموں زاد بھائی اقبال نے تلوار کے وار سے اس کا سرتن سے جدا کردیا۔

اب ہم دوسروں کی طرف لپکے اور جو کچھ جس کے لئے ممکن ہوا حملہ آوروں کی پسپائی کے لئے تیز رفتاری کے ساتھ کر گزرے۔ جلدی تو ہمیں ویسے بھی ہونی چاہئے تھی کہ اس قسم کی معرکہ آرائی میں تاخیر کی گنجائش نہیں ہوتی لیکن دوسری طرف چونکہ پولیس کی آمد کی اطلاع مل چکی تھی اس لئے ہمیں چھپ چھپا کر واپس اپنے گاﺅں بھی پہنچنا تھا۔

چند ہی لمحوں میں اپنی ڈیوٹی سے فارغ ہوکر ہمارے دونوں گروپ ازسرنو صف بندی کرچکے تھے ، باہمی مشورہ کے بعد ہم نے واپسی کا فیصلہ کیا ، اس لئے کہ حملہ پوری طرح پسپا کیا جا چکا تھا اور پولیس بھی متاثرہ گاﺅں میں داخل ہونے والی تھی۔ ہم ایک ایک ، دو دو کرکے مختلف راستوں سے اپنے گاﺅں پہنچ گئے۔

میرا سامنا سب سے پہلے اپنے بھائی چودھری قدرت علی سے ہوا۔ ان کا سوال تھا کہ
سب لوگ خیریت سے واپس آگئے ہیں؟
میں نے کہا کہ حملہ آوروں میں سے تو کچھ لوگ ہماری برچھیوں اور تلواروں کا نشانہ بنے ہیں ، الحمدللہ ہمارے نوجوان سب کے سب خیروعافیت سے واپس آگئے ہیں۔ بھائی صاحب نے مجھے خاموش رہنے کی ہدایت کی اور سیدھا گھر جانے کے لئے کہا ۔

گھر پہنچا تو گھر کے بیرونی دروازے میں ، میں نے اپنی والدہ کو منتظر پایا۔ انھوں نے میری برچھی کو دیکھتے ہی اسے اپنے ہاتھ میں لے لیا اور مجھے کپڑے تبدیل کرنے کو کہا۔ ادھر میں کپڑے تبدیل کررہا تھا اور میری والدہ برچھی کا پھل گھر کی اس واحد پختہ جگہ سے رگڑ رگڑ کر صاف کررہی تھی جو دیہاتی گھروں میں گھڑے رکھنے کے لئے بنائی جاتی تھی۔

میرے سارے گھر میں یہی وہ حصہ تھا جسے سیمنٹ سے پختہ کیا گیا تھا۔ اپنی والدہ سے دعائیں لینے کے لئے میں نے انھیں اپنی دواکھری کی کامیابیوں سے آگاہ کیا جس پر والدہ خوش تو ہوئیں لیکن خوش ہونے سے زیادہ انھوں نے میری اس اطلاع پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ ہمارے تمام نوجوان دواکھری کا معرکہ سر کرنے کے بعد بخیریت واپس آگئے ہیں۔

یہ تو تھا گھر میں واپسی کا مرحلہ لیکن گھر سے روانگی کا منظر بھی اس لحاظ سے قابل ذکر ہے کہ اس معرکہ کے لئے خود والدہ محترمہ نے مجھے رخصت کیا تھا۔ میں ان کے قریب ہی بیٹھا تھا کہ خطرے کی وسل کی آواز سنائی دی۔ یہ وسل یکے بعد دیگرے تین دفعہ سننے میں آیا۔

ہماری تربیت کے مطابق جس کا مطلب یہ تھا کہ کہیں پر حملہ ہوچکا ہے۔ جس کے مقابلے کے لئے بلا تاخیر صف آرا ہونا ہے۔ خطرے کے اس الارم سے خود کارکن ہی نہیں عام دیہاتی بھی واقف تھے چنانچہ والدہ محترمہ کو بھی پیش آمدہ صورت حال کا صحیح صحیح اندازہ ہوچکا تھا۔ والدہ نے مجھے دودھ کا چھنا بھر کردیا اور ان ولولہ انگیز الفاظ سے رخصت کیا:
” بیٹا ! عزت اور ایمان کی خاطر جان کی بازی بھی لگانی پڑے تو پرواہ نہیں کرنی “۔

والدہ کی ہدایت کے مطابق کپڑے تبدیل کرنے کے بعد میں گھر سے باہر نکلا تو پولیس والے لاشیں اٹھائے گاﺅں کے باہر چودھری غلام قادر نمبردار اور دوسرے لوگوں سے شکوہ کررہے تھے کہ آپ کے لڑکوں نے دواکھری میں جاکر ان لوگوں کو قتل کیا ہے۔

پولیس کے انچارج ایک اے ایس آئی جو اتفاق سے مسلمان بھی تھے ، انھیں لوگ میر صاحب کے نام سے پکارتے تھے، پتلے دبلے غصیلے سے آدمی تھے، خاصی گرمی جھاڑ رہے تھے۔ میں چونکہ لاہور سے گیا ہوا تھا اور پڑھے لکھے نوجوانوں میں شمار ہوتا تھا، گاﺅں والوں نے مجھے اس تھانیدار سے گفتگو کرنے کے لئے اپنی نمائندگی کا فریضہ سونپا چنانچہ میں نے ملی جلی اردو انگریزی میں میر صاحب سے مخاطب ہو کر کہا کہ ہماری اطلاع تو یہ ہے کہ دواکھری پر حملہ سکھوں نے کیا ہے۔ ہوسکتاہے کہ گاﺅں والوں کے ہاتھوں کچھ حملہ آور مارے گئے ہوں۔ جب آپ خود کہتے ہیں کہ یہ لاشیں آپ دواکھری سے لائے ہیں تو آپ کو علم ہونا چاہئے کہ دواکھری میں سکھوں کا ایک بھی گھر نہیں ہے۔ ان لاشوں سے نظر آتا ہے کہ یہ لوگ حملہ آور تھے اور پھر یہ شکایت کہاں تک بجا ہے کہ ان کے ساتھ کوئی زیادتی ہوئی ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ انھوں نے اپنی زیادتی کی سزا خود بھگتی ہے۔

میر صاحب کا ایک ہی اصرار تھا کہ اس گاﺅں ( بیرچھا) سے کچھ نوجوان دواکھری گئے ہیں۔ یہ لاشیں انہی کے ” کارنامے “ کا نتیجہ ہیں۔ بہرحال وہ اپنی بات پر مصر رہے اور نمبردار سے کہا کہ اپنا آدمی دیں جو ان لاشوں کے ہمراہ تھانہ تک ہمارے ساتھ جائے۔

ہر شخص لاشوں کے ساتھ جانے سے کنی کترا رہا تھا لیکن نمبردار کے کہنے پر گاﺅں کا چوکیدار ان کے ساتھ ہولیا جو اپنے ” منصب “ کے اعتبار سے حکم عدولی کی جرات نہیں کرسکتا تھا، دوسرے اسے کسی قسم کی گرفت کا بھی چنداں خطرہ نہیں تھا۔ اس کے ساتھ ہی دواکھری کے معرکے کا ڈراپ سین ہوا۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں