اردو زبان

اردو۔۔۔۔۔۔ آنے والی نسلوں کو یہ زبان بھی سیکھنے دیں

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

تسلیم صدیقی :

” اردو ہماری قومی زبان ہے “ یہ جملہ بہت بار پڑھا ، سنا اور سمجھنے کی کوشش بھی کی ۔
ارے ! گھبرائے مت ! آج یہاں مجھے یہ نہیں بتانا کہ جو قومیں اپنی زبان کو اہمیت نہیں دیتیں وہ تباہ ہو جاتی ہیں ، وہ غلام ذہنیت کی مالک ہوتی ہیں یا ایسی کون کون سی قومیں ہیں جو آج بھی اپنی زبان کے ساتھ ترقی کے زینے طے کر رہی ہیں۔۔۔۔۔ اور نہ ہی یہ سمجھاؤں گی کہ انگریزی کیوں ضروری ہے؟

میرا تو نقطہ نظر ہی کچھ اور ہے ۔ چھوڑدیں اس بات کو کہ اردو کہاں سے آئی ؟۔۔۔۔ کیوں یہ ہماری قومی زبان ہے ؟ صرف چند لمحوں کے لیے صرف اتنا ذہن میں رکھیں کہ اردو بھی ایک زبان ہے ، دوسروں سے گفتگو کا ایک ذریعہ ہے ۔ اس زبان میں بھی کچھ معلومات مل سکتی ہیں ۔۔۔۔۔۔ یا تھوڑا سا علم اس زبان سے بھی حاصل ہو سکتا ہے۔

مجھے نہایت ہی افسوس ہوتا ہے جب ایک والدہ سکول میں آکر شکایت کرتی ہیں کہ اس کے بچے کی جماعت میں بچے ایک دوسرے سے انگریزی کے بجائے اردو میں بات کرتے ہیں ، جب ایک والد بھڑکتے ہوئے اسکول فون کرتا ہے اور کہتا ہے کہ کیافائدہ اس کے اتنا فیس بھرنے کا، اگر اس کا بچہ فر فر انگریزی نہیں بول سکتا یا جب ایک والدہ کہتی ہیں آپ کی انگریزی کی استانی کا تو ” برٹش ایکسنٹ “ ہی نہیں ہے ۔

جب صبح کی اسمبلی میں پرنسپل فرماتی / فرماتے ہیں کہ اگر بچے سکول میں اردو میں بات کرتے نظر آئے تو جرمانہ عائد کیا جائے گا یا جب ایک ایسا بچہ جس کی سات پشتوں میں کسی نے انگریزی نہ پڑھی ہو گی، اپنی ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں کہتا ہے ” آ ئی ڈونٹ نو اردو “ کیونکہ بھئی انگریزی اسکول میں انگریزی بولنا بہت ضروری ہونے کے ساتھ ساتھ اردو نہ آنے کی اہمیت بھی اجاگر کرتا ہے ۔ اگر کہہ دیا اردو بھی بول سکتے ہیں تو ملک کے دوسرے درجے کے شہری ہی نہ کہلائے جائیں!!!!!

چھوڑئیے صاحب ! مت دیں قومی زبان کو عزت (ہم نے قومی خزانوں کی پرواہ نہ کی یہ تو پھر ایک زبان ہے)، کیجیے انگریزی کی اہمیت پہ تقاریر ۔۔۔۔۔۔ مگر رکیے ! کیا واقعی ذہانت کا معیار صرف انگریزی کے پیمانے سے ماپا جائے گا؟ کیا ہر بچہ انگریزوں کے ملک میں جا کے انگریزی بول کے اپنی ذہانت کا لوہا منوائے گا؟

چلیں اتنا ہی بتا دیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایپل کو سیب کہنے سے ایپل کی قیمت کم ہو جائے گی ؟ یا فرفر انگریزی بولنے سے زندگی کے ہر میدان میں کامیابی مل جائے گی؟ ( ایسا ہے تو کسی انگریز کے بچے کو ناکامی کا منہ ہی نہ دیکھنا پڑے) یا بچوں کے آپس میں اردو بول لینے سے فیس ضائع اور انگریزی میں بات کرنے سے فیس سود مند ثابت ہو گی؟؟

خدارا یہ مت سمجھیں کہ میں انگریزی کے خلاف ہوں ،
انگریزی سیکھئے، آج کل کی مقبول زبان ہے، علم کا بہت بڑا ذخیرہ جمع ہے اس زبان میں، ضرور سیکھیں۔ وقت کی ضرورت ہے، مگر خدا کےلیے اپنے بچے کی صلاحیتوں کو تو مت روکیے،ان کے زبان سیکھنے کے ہنر کو مت دبائیے۔

انگریزی ہی کی جدید تحقیق نے یہ ثابت کیا ہے کہ بچہ ایک سے سات سال کی عمر تک ایک وقت میں پانچ مختلف زبانیں سیکھ سکتا ہے ، جب تحقیق یہ کہتی ہے کہ بچہ ایک وقت میں کئی زبانیں سیکھ سکتا ہے تو خدارا! اس کی اس صلاحیتوں کو تو مت دبائیے، اسے سیکھنے دیں۔ صرف ایک زبان سمجھ کر ہی سیکھنے دیں، جیسے ان اسکولوں میں جرمن، چینی یا اس جیسی دوسری زبانیں سکھائی یا پڑھائی جاتی ہیں (اور کبھی جو بچے ان زبانوں میں بات کرتے ملیں تو پرنسپل مسکرا کے گزریں !!!!) اس جتنی نہ سہی اس سے تھوڑی کم ہی اہمیت دے دیجئے، زبان ہی ہے نا ! سیکھ بھی لی تو کہیں نہ کہیں تو کام آ ہی جائے گی۔

ورنہ سوچئے ! انگریزی سے نا واقف داد ا نے ” چشمہ “ مانگا اور پوتا سمجھنے سے قاصر ہوا تو ۔۔۔۔۔۔۔ سبزی والا ” کورینڈر “ نہ سمجھ پایا تو۔۔۔۔۔۔۔۔ ٹیکسی والے کو بات سمجھ ہی نہ آئی (کریم ،اُوبر کی سہولت نا ہونے کی صورت میں ) تو۔۔۔۔۔۔۔۔ دور کہیں پہاڑوں میں مصیبت کا سامنا کرنا پڑا تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ارے نہیں ! نہیں ! دل پہ مت لیجئے ! ہم بھی جانتے ہیں دنیا ” گلوبل ولیج “ بن چکی ہے، یہ بات ہم تک بھی پہنچی ہے مگر کیا پتا اس دن ہواؤں کے دوش پر سفر کرتے سگنل آپ تک نہ پہنچے تو۔۔۔

ان ساری باتوں سے ہٹ کے ! یقین جانیے ! اگلے دس سالوں میں بھی پاکستان میں بیشتر لوگ انگریزی سے اتنا ہی دور ہو ں گے جتنا آج ہیں ۔ اس ملک کے نامی گرامی انگریزی سکول بھی مکمل انگریز نہیں نکال پا رہے تو دور کہیں کھیتوں کی پگڈنڈیوں کے پاس بنے سرکاری انگلش میڈیم سکول میں بیٹھے میٹرک پاس پینتیس برس سے ملازمت کرتے ماسٹر عبدالغفور کے بس کی بات بھی نہیں ہے۔

پورا ملک ” کوّا چلا ہنس کی چال “ کے مصداق ہو چکا ہے۔ آدھا تیتر آدھا بٹیر بنے ہم انگریزی بول نہیں پاتے اور اردو لکھنا نہیں چاہتے۔ اور آپ کے بچے ملک سے باہر جائیں نا جائیں، گھروں سے باہر ضرور نکلیں گے ، ٹھیلے والے سے خریداری بھی کریں گے اور چھابڑی والے سے بھنی دال بھی کھائیں گے، ٹیکسی پر سفر بھی کریں گے اور سبزی والے سے دھنیا بھی لائیں گے ۔۔۔۔۔۔

اس سب کے لیے اتنی سی التماس ہے کہ آنے والی نسلوں کو یہ زبان بھی سیکھنے دیں، ذہانت کو کسی ایک زبان کا محتاج مت کیجئے، ذہنوں کو مفلوج کرنے کے بجائے خود رو پودوں کی طرح پھلنے پھولنے دیں، یاد رکھیے ! ایک سے زیادہ زبانیں کبھی بھی شکست کا باعث نہیں بنتیں، معیار زندگی کو بلند کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی سوچوں کو بھی وسعت دیجیئے ۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں