قربان انجم :
ہندوستان سے پاکستان، ہجرت کی خونچکاں داستان ( پہلی قسط )
ہندوستان سے پاکستان، ہجرت کی خونچکاں داستان ( دوسری قسط )
ہندوستان سے پاکستان، ہجرت کی خونچکاں داستان ( تیسری قسط )
ہندوستان سے پاکستان، ہجرت کی خونچکاں داستان ( چوتھی قسط )
برچھی کا ذکر آیا تو یہ بھی عرض کردوں کہ میرے اسلحہ میں یہی ایک برچھی تھی جو میرے ساتھ جالندھر کے کیمپ تک آئی۔ یہاں مجھے اس برچھی کی جدائی برداشت کرنا پڑی، اس لئے کہ فوجی ٹرک میں بیٹھنے سے پہلے ہمیں ایسی ہر چیز سے محروم کردیا گیا تھا۔
میں جس دوسرے اسلحہ سے مسلح ہوکر حملہ آوروں سے دو دو ہاتھ کرتا رہا تھا اس میں ایک تلوار تھی، ایک دیسی پٹاخوں سے بھرا ہوا ڈول جو میرے بائیں کندھے پر لٹکا تھا۔ دائیں کندھے سے پانچ سیل والی بہت بڑی بیٹری اور اس کے ساتھ ہی، سینے کو روئی دار بنڈی سے ڈھانپنے کے بعد، ترازو کے ایک پلڑے کو زرہ بکتر کے قائمقام کے طور پر باندھا۔ سر پر ایک فولاد خول بھی تھا جو صرف ہم چند نوجوانوں کو میسر تھا۔
میرا سارے کا سارا اسلحہ میری اہلیہ نے مجھے تیار کرتے اپنے ہاتھ سے زیب تن کیا تھا۔ یہاں یہ بھی عرض کردوں کہ میری اہلیہ پر 18اگست کے اس حملہ میں جو گزری، وہ اپنی جگہ انتہائی کرب انگیز داستان ہے۔
ہوا یوں کہ ٹھیک پانچ بجے شام جب سائرن کی آواز کے ساتھ ہی پٹیالہ کے فوجی علاقے کے دوسرے سکھوں کے ہمراہ گاؤں کے چاروں طرف یکدم نمودار ہوئے تو ہم سمجھ گئے کہ گزشتہ چند روز سے جس خوفناک حملہ کی اطلاعات ہمیں مل رہی تھیں اس کا آغاز ہوچکا ہے۔ میں اس وقت اپنے ماموں کی چھت پر سے یہ سارا منظر دیکھ رہا تھا۔
ہم نے بھی اپنے انداز میں دفاعی تیاریوں کے اعلانات کر دئیے۔ جیسا کہ پہلے عرض کرچکا ہوں میری اہلیہ نے مجھے اسلحہ بند کیا اور خود اپنے والد کے گھر…… جو میرے ماموں کا گھر تھا…… دفاعی تیاریوں میں مصروف ہوگئی۔ حملہ آور چونکہ غیرمعمولی تعداد میں تھے اس لئے انھوں نے بیک وقت گاؤں کی گلیوں میں گھروں میں اور باہر کھلے میدان میں فائرنگ شروع کردی۔ جو ان کی زد میں آتا اس پر فائر کھول دیتے۔
جگہ جگہ ہمارے نوجوانوں کی ٹولیاں بھی ان کے مدمقابل ڈٹ گئیں۔ ادھر ہمارے ماموں کے گھر جس وقت وحشی حملہ آور داخل ہوئے، میری اہلیہ اپنے ننھے منے تایا زاد بھائی کو ہاتھوں میں لئے کھڑی تھی۔ ایک دردندہ صفت حملہ آور نے آتے ہی کہا کہ اس بچے کو پھینک دو، میری اہلیہ نے انکار کیا تو اس نے برچھی کا وار کرکے بچے کو شدید زخمی کردیا۔ میری اہلیہ کے دونوں ہاتھ بھی بری طرح زخمی ہوگئے۔اب وہ بھاگنے لگی۔
اس حملہ آور نے جو گھوڑے پر سوار تھا میری اہلیہ پر ایک اور وار کرنے کی کوشش کی۔ اتنے میں میری اہلیہ کے والد محترم اور میرے بہادر ماموں جان جو ہمارے مورچے سے فارغ ہونے کے بعد گھر پہنچ چکے تھے، انھوں نے حملہ آور کے گھوڑے کی پچھلی ٹانگ پر اپنی برچھی سے ایسا وار کیا کہ گھوڑا لڑکھڑانے لگا۔
اس کے بعد گھوڑے اور اس کے سوار پر کیا گزری، اس کا تو ہمیں علم نہیں ہوسکا تاہم میرے ماموں جان تائید ایزدی سے اپنی بیٹی کو اس وحشی انسان کی دست برد سے بچانے میں کامیاب ہوگئے لیکن کون نہیں جانتا کہ ہماری بہت سی بیٹیاں اور مائیں قتل کردی گئیں، اغوا کرلی گئیں، زخمی حالت میں ویرانوں اور بیابانوں میں پھینک دی گئیں۔
آج جب میں یہ سطور سپرد قلم کررہا ہوں، ان اذیت ناک لمحوں کو بیتے کم و بیش 45 سال گزر چکے ہیں (جناب مصطفیٰ صادق مرحوم کا یہ مضمون 1991 میں شائع ہوا) اور اسی مشرقی پنجاب میں جہاں ہم پر ظلم توڑے گئے، آئے دن قتل و غارت گری اور دہشت و بربریت کی ایسی لرزہ خیز وارداتیں رونما ہورہی ہیں جن کا علم ہونے پر ہر شریف انسان کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔
ہندو سکھوں کے ہاتھوں اور سکھ ہندوؤں کے ہاتھوں ظلم وستم کا نشانہ بن رہے ہیں۔ اسے مکافات عمل کہیے یا کوئی بھی دوسرا نام دیجئے، میرے نزدیک دہشت گردی اور تشدد پسندی کا ارتکاب جو بھی کرے اسے ظالم ہی کہا جائے گا اور جو اس کا نشانہ بنے وہ بہرحال مظلوم قرار پائے گا اور یہ حقیقت بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ ظلم و جبر کبھی کسی کو راس نہیں آتا۔ ظلم کے دن ہمیشہ تھوڑے ہوتے ہیں لیکن ظالم کو اس کا احساس بالعموم وقت گزرنے کے بعد ہی ہوتا ہے۔
اپنے بیتے لمحوں کا ذکر کرتے کرتے مشرقی پنجاب کے موجودہ حالات سر راہے ہی نوک قلم پر آگئے لیکن اس سرزمین سے، اس علاقے کے کھیتوں اور کھلیانوں سے ہمیں جو جذباتی تعلق ہے کہ ہمارے آباؤ اجداد کی قبریں 47ء کے فسادات میں ہلاک و زخمی ہونے والے ہمارے عزیزوں کی آہیں اور کراہیں آج بھی ہمارے ذہنوں کو پریشان کئے دے رہی ہیں، اس لئے قدرتی طور پر اس علاقہ میں پیش آنے والے واقعات سے ہمیں دلچسپی ہے۔
میں نے جہاں اپنے بعض بزرگوں اور عزیزوں کا ذکر کیا ہے، ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس نوجوان کو بھی خراج تحسین پیش کروں جس نے اپنے گاؤں کے ایک سو پچیس جانبازوں کو عسکری تربیت دینے کے لئے شبانہ روز محنت کی، یہ نوجوان آج کہاں ہوگا، اس کے لواحقین کس بستی اور کس علاقے میں آباد ہوں گے،
افسوس مجھے اس کا علم نہیں لیکن جس کی تربیت نے اپنے گاؤں کے نوجوانوں کو حملہ آوروں کے مقابلے میں جرات و عزیمت کا ثبوت دیتے ہوئے مردانہ وار ڈٹ جانے کے قابل بنایا، میں اسے کبھی فراموش نہیں کرسکتا۔ سیاست دانوں میں، علما ء میں، اہل قلم میں، کسی کا کوئی بھی آئیڈیل ہو، اس دور کے نوجوانوں میں فوج سے ریٹائر ہونے والا حوالدار عبدالحق ہی میرا آئیڈیل ہے جس سے تربیت حاصل کرنے کا اعزاز مجھے بھی حاصل ہے۔
اس مرحلے پر اپنے تعارف کے تکلف سے دور رہتے ہوئے، اتنا ضرور بتانا چاہوں گا کہ میں جس گاؤں سے تعلق رکھتا ہوں اور جس گاؤں میں عبدالحق سے لے کر چودھری محمد بوٹا، چودھری غلام علی، بابا محمد جمیل اور لالہ نور محمد جیسی شخصیتوں کو جنم دیا اور پالا پوسا اسی گاؤں کی ایک شخصیت خواجہ دل محمد بھی تھے۔ خواجہ صاحب اسلامیہ ہائی سکول میں سیکنڈ ہیڈ ماسٹر تھے اور اکثرو بیشتر قائمقام ہیڈماسٹر کے فرائض سرانجام دیتے تھے۔
اس سکول کے ہیڈماسٹر مرزا محمد بیگ بدخشانی استادوں میں سے بہترین استاد ہونے کے ساتھ ساتھ ایسے فرشتہ سیرت انسان تھے کہ ان کے حسن اخلاق کے اثرات نے بعض اساتذہ اور طلبہ کو انسانیت کا بہترین نمونہ بنانے میں غیر معمولی کردار ادا کیا۔
خواجہ دل محمد جن کے نام کے ساتھ ”سمرا“ بھی لکھا جاتا تھا بھی اپنے ہیڈماسٹر سے بے حد متاثر تھے۔ میں نے سب سے پہلے انہی کے ہاتھوں میں مولانا مودودی کا رسالہ ترجمان القرآن دیکھا۔ یہ 1940ء، 41ء کی بات ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ دونوں حضرات مولانا مودودی سے بھی خاصے مانوس و متاثر تھے۔ خواجہ دل محمد سمرا تحریک پاکستان کے ابتدائی دور میں اپنے گاؤں کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو تحریک سے وابستہ کرنے میں غیرمعمولی دلچسپی لیا کرتے تھے۔
میں طالب علمی سے فارغ ہونے کے بعد جب ملازمت کے سلسلے میں لاہور چلا آیا تو اس کے بعد جب بھی گاؤں جانے کا موقع ملا میں اپنے محترم استاد خواجہ دل محمد سمرا سے ضرور ملاقات کرتا اور سیاسی صورت حال پر تبادلہ خیال کے ساتھ ساتھ اپنے علاقہ بالخصوص اپنے گاؤں میں تحریک کے حق میں فضا ہموار کرنے کے لئے منصوبہ بندی میں تعاون بھی کرتا۔
گاؤں کے جو نوجوان خواجہ دل محمد سمرا کے زیادہ قریب رہے، ان میں میرا اس دور میں آئیڈیل نوجوان عبدالحق بھی تھا جس نے شروع ہی سے نوجوانوں کی عسکری تربیت کی ضرورت کا احساس دلایا چنانچہ گاؤں بھر سے ایک سو پچیس نوجوانوں کو منتخب کرکے انھیں فوجی اصطلاح میں پانچ پلاٹونوں میں تقسیم کردیا گیا۔ ہر پلٹن کا ایک کمانڈر ہوتا تھا اور ایک ڈپٹی کمانڈر۔ حوالدار عبدالحق خود کمانڈر انچیف تھا۔
مجھے بھی ایک پلاٹون کا کمانڈر بننے کا شرف حاصل ہوا۔ ہمارے گاؤں میں چونکہ غیرمسلم بھی آباد تھے اور خصوصیت کے ساتھ گاؤں کے ایک حصہ میں سکھوں کی آبادی تھی اس لئے ہم اپنی عسکری تربیت کو رازداری سے جاری رکھے ہوئے تھے چنانچہ بعض زمینداروں سے درخواست کرکے ہم نے ان کے کماد کے کھیتوں میں چند مرلے جگہ سے کماد کاٹ دیا اور اس خالی جگہ میں چھپ کر ہمیں ورزشبھی کرائی جاتی تھی اور اسلحہ کے استعمال کی تربیت بھی دی جاتی تھی (جاری ہے)