زارا مظہر :
ہم اپنے بڑوں سے سنتے تھے لڑکیوں کی سولہ برس کی بالی عمریا بڑی نازک ہوتی ہے۔ اسی عمر میں رنگ اچھے لگتے ہیں، کلیوں پہ بھنورے منڈلاتے ہیں ، لڑکیاں بولائی بولائی پھرتی ہیں ، پاؤں رکھتی کہیں ہیں پڑتا کہیں ہے۔ چلیں تو تتلی کی اڑان سا گمان ہوتا ہے۔ وہمی ماؤں کو لگتا ہے اڑ ہی جائے گی سو نصیحتوں کی قینچی سے پَر تراشتی رہتی ہیں ۔ بیٹھ جائیں تو کلی یا ادھ کھلا ، نیم باز ، پھول۔
ماؤں کو وہم ستاتے ہیں ۔ راتوں کو اٹھ اٹھ کر بہانے سے بچیوں کے کمروں کے گرد منڈلاتی اور جھانکتی پھرتی ہیں ۔ کبھی کمبل ٹھیک کرنے کے بہانے سے اپنی گل بکاؤلی کو چیک کرتی ہیں ۔ کبھی دودھ کا گلاس دینے کے بہانے تو کبھی کتابیں سیدھی کرنے کے بہانے سب الٹ پلٹ دیتی ہیں۔ کمرے میں پھیلی نامحسوس خوشبو سونگھتی پھرتی ہیں اور اپنی ہی نیندیں اڑائے رکھتی ہیں ۔
آخر کیوں خواتین عمر کو لے کر اتنی حساس ہوتی ہیں کہ بڑا ہونا ہی نہیں چاہتیں۔ ہو جائیں تو لگنا نہیں چاہتیں لگنے لگ جائیں تو مانتی نہیں۔ آ ئینے پہ آ ئینہ توڑ ڈالتی ہیں کہ اتنے ، سچے ، جھوٹ کیوں بولتا ہے۔ ساتھ جوان اولاد چل رہی ہے مگر کسی خاتون کو آ نٹی کہنا گالی دینے کے برابر سمجھا جاتا ہے ۔
لڑکی ہو یا خاتون اس صنف کی ہر عمر ہی خطرناک اور نازک ہوتی ہے ۔ اور خواتین سے عمر پوچھنا یا صرف قیاس ہی کرنا بھی بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنے کے برابر ہے۔ سولہ برس تک ہر لڑکی جلدی جلدی بڑی ہونا چاہتی ہے ۔ پہلے پہلے ماؤں کے اونچی ایڑی والے جوتے پہن کر ٹک ٹک کرتی ہے۔ پھر ایڑیاں اونچی کر کے خوشی خوشی بتاتی ہے کہ میں بڑی ہوں ، کوئی چھوٹی کہہ دے تو برا مان جاتی ہے مگر بس سولہ برس تک۔
پھر اس کی عمر کو اچانک ایسی نظر لگتی ہے کہ سترہ کی کہلوانا نہیں چاہتی۔ اسکول ختم ہو گیا ، کالج میں آ گئی مگر عمرِ شریف کی سوئی سولہ ہی پر اٹکی رہتی ہے وہ پکے ثبوتوں کے ساتھ ۔ سہیلیوں میں بیٹھ کر بڑے دھڑلے سے دعویٰ کرتی ہے میں نے پرائمری سیکشن میں دو دفعہ ڈبل پرموشن لی۔ اس کا ڈبل فائدہ اٹھاتی ہیں۔
ایک تو غیر معمولی آ ئی کیو لیول کا دوسرا کم عمری کا۔ یونیورسٹی جانے تک بمشکل بیس کی ہو جاتی ہے اور چار سالہ بیچلرز کے دوران بیس تک کے ہندسے سے محبت کرتی رہتی ہے۔ بھاری بھرکم پروفیشنل ڈگری تک بیس کی ہی رہتی ہے۔ شادی ہونے تک بھی بیس سال کی ہی رہتی ہے۔ فیملی بنا رہی ہے، دو تین بچے ہو گئے تین تین برس کے وقفے سے مگر اب عمرِ مبارک کا کلینڈر چوبیس کے ہندسے سے آ گے نہیں بڑھ کر دے رہا ، جام ہوگیا وہیں پر۔
بچے پرائمری لیول میں جانے لگتے ہیں تب کہیں جاکر ایک برس کا دھکا لگتا ہے اور پچیس کے ہندسے پر اوندھے منہ جا گرتا ہے۔ اب کوئی دھکا کوئی ٹانک عمر کو چھبیس تک نہیں لے جا سکتا ۔ یادداشت ذرا ذرا ساتھ چھوڑنے لگتی ہے۔ ایک دن اچانک منہ سے صحیح عمر پینتیس سال نکل جاتی ہے جس پر دیورانی ، جیٹھانی یا نند یا کوئی قریبی پڑوسن منہ میں انگلی داب لیتی ہیں ۔
اگرچہ یہ سن کر بھی سچ تسلیم نہیں کیا جاتا کہ ضرور چالیس کی ہوں گی۔ بس ! اب معزز خاتون بڑی مشکل سے پینتیس فرض کرتی ہیں خود کو۔ اس وقت اسے شدید کرب سے گزرنا پڑتا ہے اس کی ذہنی حالت اتنی خراب ہو جاتی ہے کہ کسی سیریس مرض میں مبتلا ہو کر بےہوشی کی حالت میں بھی عمر کم کرنے کے چکر میں عزرائیل کو دہائی دے کر مہلت حاصل کرتی پائی گئی ہے ۔
فرض کر لیتے ہیں پہلی اولاد کی شادی کے وقت خاتون کی عمر پینتالیس برس تھی جو آ خری اولاد کی شادی تک پینتالیس ہی رہتی ہے ۔ اب اس کی سعی کچھ کم ہو جاتی ہے کیونکہ یادداشت میں کمی کے باعث اسے پینتالیس کے آ گے کی گنتی بھول چکی ہوتی ہے اور وہ یاد کرنا بھی نہیں چاہتی بلکہ مرتے دم تک پینتالیس برس کی ہی رہتی ہے۔
پینتالیس برس کی نانی دادی بڑی پرکشش لگتی ہے اور صحت مند بھی ہو تو کیا کہنے ۔۔۔۔ صنفِ کرخت بے چاری مشکل میں رہتی ہے ، کیا کہہ کر مخاطب کیا جائے کہ سامنے والی خاتون برا نہ مان جائے۔ اس سلسلے میں سب سے زیادہ زِک دکاندار حضرات کو اٹھانی پڑتی ہے۔ جب ہم والدہ کی انگلی تھام کر کبھی کبھار بازار جایا کرتے تھے تو دکاندار حضرات ہر خاتون کو باجی جی اور خالہ جی کہہ کر کام چلایا کرتے تھے جو ذرا بڑی محسوس ہوتیں انہیں ماں جی کہہ لیتے مگر تب بھی بہت سے ناخوشگوار ردِ عمل سامنے آ تے رہتے تھے۔ ( ماسی ہوگی یا ماں ہوں گی تیری ماں ، میرے تو ابھی چھوٹے چھوٹے بچے ہیں یا گھر میں ماں بہن نہیں ہے ؟ )
اسکول کالج میں تھے تو دکاندار آ پی ، آ نٹی کہہ کر اپنا کام چلانے لگے مگر مسئلہ جوں کا توں رہا آ پی کہلائی جانے والی تو برداشت کر لیتیں مگر آ نٹیز کی جانب سے ردِعمل بڑا ناگہانی ہوتا بنا خریداری کیئے احتجاجاً واک آ ؤٹ کر جاتیں ۔ ( دکاندار سوچتے رہ جاتے کیا نام لے کر بلاؤں اب اگر معلوم ہوتا تو شاید۔ ) برابر کی دکان والا جو ذرا نبض شناس ہوتا فوراً دکھتی رگ پکڑ کر آ واز لگاتا کیا چاہیئے چھوٹی آ پی ؟
اور چھوٹی آ پی اپنا دکھ چھپاتی ، دل سنبھالتی رندھے گلے کے ساتھ بغیر قیمت کم کروائے مہنگا سودا ہنسی خوشی لے کر چلتی بنتی۔ گاہک ہاتھ سے جاتے دیکھ کر اور بِکری کم ہونے پر پہلے والے دکاندار نے سر پکڑ کر دِنوں کی کاوش سےایک مفاہمتی راستہ نکال لیا ہر عمر کی عورت کو میڈم کہہ کر مخاطب کرنے لگا۔ چاہے سولہ برس کی بچی ہو یا ستر برس کی اماں جی کسی کو اعتراض نہیں ہوتا۔
پہلے بھی دکاندار میڈم کہہ کر مخاطب کرتے تھے مگر اسے جو سچ مچ کہیں کی میڈم ہوتی تھیں ۔ دیکھا دیکھی پورے بازار میں ہر شاپنگ مال میں ، پبلک پلیسز میں لفظ میڈم اور میم مقبولیت کی سیڑھیاں طے کر گیا۔ اب خواتین کے پاس اعتراض کرنے کا اور عمر کو لے کر روٹھنے کا بہانا ختم ہوگیا ۔ سو ہر دکاندار کے پاس رش ہوتا ہے سودا بھی خوب خوب بکتا ہے۔