ڈاکٹر خولہ علوی :
” سعودی حکومت نے یکم نومبر 2020ء سے غیر ملکی مسلمانوں کو دوبارہ عمرہ کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ اور اب عمرہ کرنے کے لیے لوگ مسجد حرام میں پہنچ رہے ہیں۔“ نوید صاحب نے آفس سے واپس آنے کے بعد اپنی بیوی ماریہ کو بتایا۔
” کتنی خوشی کی خبر ہے! اگر ہمیں بھی اب جلدی حج یا عمرہ کرنے کے لیے جانے کا موقع مل جائے تو ہماری کتنی خوش قسمتی ہوگی! کیا اس وقت ہمارے لیے یہ ممکن ہو سکتا ہے؟ “ ماریہ کا چہرہ یہ خبر سن کر کھل اٹھا اور اس نے فوراً نوید صاحب سے عمرہ کے لیے جانے کا سوال پوچھا۔
” جی بالکل۔ اس وقت عمرے کے لیے ممکن ہو سکتا ہے لیکن حج کے لیے کافی مشکل لگ رہا ہے۔ اب اگر اللہ کا حکم ہوا تو ہم ضرور حج یا عمرہ کے لیے جائیں گے ان شاء اللہ۔ لیکن ابھی بہت زیادہ احتیاطی تدابیر کی ضرورت ہے۔ “ نوید صاحب بولے۔
” ہم لوگ احتیاطی اقدامات کا مکمل خیال رکھیں گے۔ ان شاءاللہ۔ عمرہ کے لیے جاتے ہوئے کون کون سی احتیاطی تدابیر کا خیال رکھا جا رہا ہے؟ “ ماریہ نے مزید پوچھا۔
” ذرائع ابلاغ کے مطابق عمرہ کے لیے آنے والے ان غیر ملکی مسلمان زائرین کو سعودی عرب آمد پر دیگر ایس او پیز کے ساتھ ساتھ، تین روز کے لیے آئسولیشن (خود ساختہ تنہائی) میں بھی رہنا پڑتا ہے تاکہ کورونا وائرس بیماری کا کنٹرول ممکن ہوسکے۔ تین روزہ آئسولیشن کے بعد وہ مسجد حرام میں جا سکتے ہیں۔
زائرین کے لیے گروپوں کی صورت میں عمرہ کرنا اور اس دوران ماسک پہننا، ایک دوسرے سے مناسب فاصلہ رکھنا ضروری ہے۔
کووڈ 19 کی حفاظتی تدابیر کے تحت خانہ کعبہ کو چھونے یا استلام کرنے (یعنی حجر اسود کو بوسہ دینے) پر پابندی عائد کی گئی ہے۔“ نوید صاحب نے بتایا۔
” کوئی بات نہیں۔ اگر اللہ تعالی کا حکم یہی ہے تو استلام نہیں کریں گے۔ باقی جو اللہ کی مرضی۔“ ماریہ نے کہا۔
” چلیں۔ پھر آپ عمرے پر جانے کی تیاری کریں۔“نوید صاحب نے خوشی سے کہا۔
” واقعی۔“ ماریہ پرجوش ہوگئی۔
” جی واقعی۔“ نوید صاحب مسکرانے لگے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” ماریہ! کیا آپ گھر میں ہیں؟ میرا ابھی آپ کی طرف آنے کا ارادہ بن رہا ہے۔“ موبائل فون کی مسلسل وائبریشن پر ماریہ نے ریموٹ کنٹرول سے LCD کی آواز کم کی اور موبائل اٹھا کر دیکھا تو دوسری طرف اس کی سہیلی جویریہ تھی جو سلام دعا کے بعد اس سے گھر میں اس کی موجودگی کے بارے میں پوچھ رہی تھی۔
” جی! میں گھر میں ہوں۔ آپ آجائیں۔“
ماریہ نے جواب دیا۔
” آپ فون نہیں اٹھا رہی تھیں تو میں پریشان ہو گئی تھی کہ آج اتوار کی چھٹی ہے تو آپ گھر میں ہیں یا کہیں گئی ہوئی ہیں۔“
” میں انٹرنیٹ پر حج بیت اللہ دیکھ رہی تھی۔ اس لیے موبائل سائلینٹ پر لگایا ہوا تھا۔“
” ٹھیک ہے۔ میں ابھی کچھ دیر تک آپ کے گھر آ رہی ہوں۔ میرے میاں کو آپ کے گھر کی سائیڈ پر کچھ کام ہے۔اس لیے وہ خود ٹھہر نہیں سکیں گے لیکن وہ مجھے آپ کے گھر چھوڑ کر چلے جائیں گے۔ ہم آدھے گھنٹے میں پہنچ جائیں گے ان شاءاللہ۔“ جویریہ نے فون کرنے کا مقصد بیان کیا۔
” جی۔آپ ضرور آئیں۔“ ماریہ نے انہیں خوش آمدید کہا۔
جویریہ اپنے دونوں بچوں کے ساتھ کچھ دیر بعد ماریہ کے گھر پہنچ گئی۔ ماریہ اس سے مل کر خوش تھی۔ مہمان بچے بہت پرجوش تھے اور میزبان خاندان کے بچوں کی بابت دریافت کر رہے تھے۔
” وہ ابھی کچھ دیر میں اپنے چاچو کے گھر سے واپس آجائیں گے۔ آپ تسلی سے کچھ کھا پی لیں اور پھر کچھ دیر کھیل بھی لیں۔“ ماریہ نے انہیں تسلی دی۔
پھر اس نے انہیں کھیلنے کے لیے ان کی عمر کے حساب سے چند کھلونے بھی دے دیے۔ بچے کھانے پینے اور پھر کھیلنےکے دھیان لگ گئے۔
” ماریہ! آپ انٹرنیٹ پر حج بیت اللہ کب سے دیکھ رہی ہیں؟“ جویریہ نے پوچھا۔
” میں تقریباً ایک گھنٹہ پہلے کام کاج سے فارغ ہوئی ہوں۔ بچے ناشتہ کے بعد اپنے ابو جان کے ساتھ چاچو کے گھر چلے گئے تھے۔ اس کے بعد میں نے حج بیت اللہ دیکھنا شروع کیا۔ حرم میں دوبارہ عمرہ کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ میرا دل چاہتا ہے کہ ہم لوگ اب جلد سے جلد عمرہ یا حج کرنے کے لیے جائیں۔ حج کی ویڈیو دیکھ کر حرم کی یادیں تازہ ہوگئیں لیکن اس سال کووڈ 19 کی وجہ سے حرم میں حاجیوں کی تعداد اتنی کم تھی کہ دیکھ کر میرے دل کو تکلیف ہو رہی تھی۔“ ماریہ نے جواب دیا۔
” واقعی! اس سال حاجیوں کی تعداد بہت کم تھی۔“ جویریہ دھیرے سے بولی۔
” حرم کی بے رونقی دیکھ کر میرا دل اداس سا ہو جاتا اور رونا آجاتاتھا۔ لیکن پھر خیال آتا تھا کہ اداس نہیں ہونا چاہیے۔ بلکہ اسے اللہ کی رضا سمجھ کر قبول کر لینا چاہیے۔ پھر یہ بھی تو اللہ تعالیٰ کا فضل وکرم ہے کہ اس سال فریضہ حج کی ادائیگی میں تعطل (gap) نہیں آیا۔ الحمد للّٰہ۔“ ماریہ نے اپنی سوچ واضح کی۔
” زہے نصیب! یہ کتنے خوش قسمت لوگ تھے جو حج کے لیے منتخب ہوئے تھے۔“ جویریہ چنیدہ حاجیوں پر رشک کرتے ہوئے بولی۔
” بالکل! ان کی خوش قسمتی کے کیا کہنے!“ ماریہ نے بھیگی آواز سے اس کی تائید کی۔
” چند سال پہلےجب ہم نے حج کیا تھا تو حاجیوں کی تعداد تقریباً پچیس لاکھ تھی جو پوری دنیا کے مختلف اسلامی ممالک سے مکہ مکرمہ میں حج کی ادائیگی کے لیے آئے ہوئے تھے۔“ ماریہ نے چند سال پہلے کیے گئے حج کی یادیں تازہ کیں۔
اسے حرم کی یادیں بہت ستاتی تھیں۔ (خصوصاً ایام حج میں) احرام باندھنا اور تلبیہ پکارنا، بیت اللہ کا طواف، آب زم زم کثرت سے پینا، صفا و مروہ کی سعی، گھنٹوں بیت اللہ کو دیکھتے رہنا، پھر مناسک حج کی ادائیگی، خیموں کے شہر منی میں قیام، مزدلفہ میں رات گزارنا، میدان عرفات میں وقوف کرنا، رمی جمرات وغیرہ کی یادوں کی لہریں اس کے قدموں سے لپٹ لپٹ جاتی تھیں۔ آج حج کی ویڈیو دیکھ کر اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے تھے اور وہ اللہ سے دوبارہ اپنے گھر بلانے کی دعائیں کررہی تھی۔
(لبیک اللہم لبیک۔ لبیک لا شریک لک لبیک۔ ان الحمد و النعمۃ لک و الملک۔ لا شریک لک۔) حاجیوں کی تلبیہ پڑھنے کی پر شوق و پرسوز آوازیں اس کے دل کی تڑپ بن رہی تھیں۔
اتفاق سے اس وقت گھر میں کوئی اور فرد بھی موجود نہ تھا، اس لیے اسے رونے کی بھی پوری آزادی حاصل تھی۔ اس نے اپنا موبائل بھی سائیلنٹ پر لگایا ہوا تھا مگر پہلے جویریہ کی مسلسل کال کی وائبریشن اور پھر کچھ دیر بعد اس کی آمد اسے حال میں لے آئی تھی۔
تقریباً آدھے گھنٹے کے بعد جویریہ ماریہ کے گھر پہنچ گئی۔ اس کے کچھ دیر بعد ماریہ کے بچے بھی گھر واپس آ گئے۔ تب تک ماریہ جویریہ اور اس کے بچوں کی خاطر تواضع سے فارغ ہوچکی تھی۔ بچے جویریہ آنٹی کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور ان کے پاس بیٹھ گئے۔ سلام دعا اور حال وغیرہ پوچھنے کے بعد دوبارہ حج کے موضوع پر گفتگو شروع ہو گئی۔
” اس سال تو کووڈ 19 کی عالمی وبائی بیماری کے پیش نظر یہ خدشہ تک لاحق ہو گیا تھا کہ کہیں فریضہ حج کی ادائیگی میں تعطل (gap) نہ آجائے۔“ جویریہ نے چند ماہ پیشتر کی صورت حال بیان کی۔
” بالکل! اس سے پہلے حرم میں عمرہ پر وقتی پابندی عائد کر دی گئی تھی اور زمینی منزل پر مطاف کو طواف کے لیے بند کر دیا گیا تھا۔ تو ذہنوں میں اس خیال کا آنا فطری چیز تھی۔“ ماریہ نے اس کی تائید کی۔
” اس سال صرف سعودی عرب میں رہائش پذیر کل 10,000 خوش نصیب لوگوں کو حج کی سعادت نصیب ہوئی تھی۔ جن میں سے 3000 مقامی سعودی لوگ تھے۔ جبکہ باقی 7000 حاجیوں کا تعلق دیگر مختلف اسلامی ممالک سے تھا اور وہ اپنے ممالک کے نمائندہ عازمین حج منتخب ہوئے ہیں۔“ ماریہ نے سال رواں کی صورتحال بیان کی۔
” کیا تب صرف مردوں کو حج کرنے کی اجازت ملی تھی؟“ ماریہ کے بڑے بیٹے تیمور نے سوال پوچھا۔ ساتھ اس نے LCD آن کردی۔ تلبیہ پڑھتے حاجیوں کی آواز کانوں میں رس گھولنے لگی۔
” ارے نہیں! عورتیں بھی مردوں کے ساتھ حج میں شامل تھیں۔ کیا آپ نے LCD پر حجاج کرام کودھیان سے نہیں دیکھا؟“ ماریہ کی آواز میں حیرت تھی۔
” سوری! میں نے اس بات کا خیال نہیں کیا تھا۔ واقعی مرد اور عورتیں دونوں نے حج کیا تھا۔“ تیمور نے LCD پر حاجیوں کو دیکھتے ہوئے قدرے خجالت سے کہا۔
” امی جان! یہ لوگ حج کے لیے کیسے منتخب ہوئے تھے؟“ تیمور نے پوچھا۔
” دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ سب وہ خوش قسمت لوگ تھے جنہیں پہلی بار حج کرنے کی سعادت نصیب ہوئی تھی۔ اور ان کی عمریں 20 سال سے پچاس سال تک کے درمیان تھیں۔ سعودی عرب کی وزارت حج وعمرہ نے الیکٹرانک قرعہ اندازی کے ذریعے ان کا انتخاب کیا تھا۔
اور احتیاطی تدابیر کے پیش نظر ان سب لوگوں کا باقاعدہ میڈیکل چیک اپ کیا تھا اور ان کا صحت مند ثابت ہونے کے بعد ان کا انتخاب فائنل ہوا تھا۔“ ماریہ نے مزید معلومات فراہم کیں۔
” اچھا! ان سب کے ٹیسٹ یہ چیک کرنے کے لیے ہوئے تھے کہ کہیں ان کو کرونا وائرس کی بیماری تو نہیں تھی؟ “ تیمور نے ہنستے ہوئے کہا۔
” جی ہاں! لیکن اس سے پہلے بھی ہمیشہ حاجیوں کے مختلف ٹیسٹ ہوتے تھے اور صرف ایسے حاجیوں کو حج کے لیے جانے کی اجازت ہوتی تھی جنہیں کوئی متعدی بیماری نہ ہو۔اس سال کورونا بیماری کے ڈر کی وجہ سے ٹیسٹوں میں زیادہ سختی رہی تھی۔“ جویریہ نے بھی مسکرا کر جواب دیا۔
” وزیر مذہبی امور ڈاکٹر محمد صالح نے اعلان کیا تھا کہ ’ اس سال سعودی عرب میں مقیم مختلف ممالک کے نمائندہ شہریوں کو الیکٹرانک قرعہ اندازی کے ذریعے حج کے لیے منتخب کیا گیا ہے۔‘ ماریہ نے مزید معلومات میں اضافہ کیا۔
” جی ہاں! کووڈ 19 کی بیماری عموماً 50 سال سے زائد عمر کے لوگوں کو متاثر کرتی ہے تو پچاس سال سے کم عمر لوگوں کو حج کی اجازت ملی تھی۔“ تیمور نے کہا۔
” اس سال متوقع حاجیوں کی حج کی امیدیں پوری نہیں ہو سکی تھیں تو ان کے دلوں میں بہت زیادہ حسرت رہ گئی ہوگی۔“ جویریہ بولی۔
” جی ہاں! خصوصاًجب بینکوں اور ٹریولنگ ایجنسیوں نے حج کی درخواست جمع کروانے والوں کو جب پیسے واپس کر دیے تھے تو پھر متوقع حاجیوں کی امیدیں دم توڑ گئی تھیں۔ پوری دنیا سے ہر سال تقریباً پچیس تیس لاکھ کی تعداد میں لوگ حج کی بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کرنے کے لیے سفر کرکے حرم میں پہنچتے تھے۔ گزشتہ سال 2019ء میں تقریباً 25 لاکھ لوگوں نے حج ادا کیا تھا۔ پاکستان سے اس سال ایک لاکھ 80 ہزار لوگوں نے حج کی ادائیگی کے لیے جانا تھا لیکن کورونا وائرس کی بیماری سے پیدا شدہ حالات کی وجہ سے وہ لوگ حج کرنے سے محروم رہ گئے تھے۔ “ ماریہ نے تفصیل سے بیان کیا۔
” میرے جیٹھ اور جھٹانی نے بھی حج کے لیے درخواستیں جمع کروائی ہوئی تھیں۔ لیکن جب بینکوں نے پیسے واپس کردیے اور اس سال حج کرنے کی توقعات بالکل ختم ہو گئیں تو وہ لوگ بہت پریشان ہو گئے تھے۔ ان کی حالت ایسی ہو گئی تھی جیسے ان پر آسمان ٹوٹ پڑا ہو لیکن انہوں نے اپنے آپ کو سنبھال لیا تھا۔ تقریباً سارے عزیز و اقارب نے ان سے افسوس کیا تھا۔ انہوں نے کئی برسوں سے حج کی نیت کررکھی تھی لیکن وسائل کی کمی کی وجہ سے وہ جا نہیں پاتے تھے۔ اس سال انہوں نے بڑی کوشش سے پیسے پورے کرکے حج کے لیے درخواستیں دی تھیں اور پیسے جمع کروائے تھے۔لیکن افسوس! ان کی قسمت میں اس سال حج کرنا نہیں لکھا ہوا تھا۔“ جویریہ نے اپنا آنکھوں دیکھا حال بیان کیا۔
” اللہ اپنے گھر اور حرم کی رونقیں بحال کرے۔ وزارت حج و عمرہ کی طرف سے حاجیوں کے لیے سخت ہدایات تھیں کہ وہ سماجی فاصلہ (Social distance) اور دیگر احتیاطی تدابیر (SOPs) پر عمل پیرا ہوں۔“ ماریہ نے آگاہ کیا۔
” مسجد الحرام اور مسجد نبوی میں عازمین حج کے داخلے اور اخراج کے لیے واکنگ ٹریکس بنائے گئے تھے جو LCD پر ابھی بھی واضح طور پر دیکھے جاسکتے ہیں۔ اسی طرح خانہ کعبہ میں مطاف میں فاصلے پر گول دائرے بنائے گئے تھے اور عازمین کو صرف ان کے مطابق چلنے پھرنے، بیٹھنے اور عبادت کرنے کی اجازت تھی۔ اسی طرح باقی تمام جگہوں پر بھی احتیاطی تدابیر کا مکمل خیال رکھا گیا تھا۔“ جویریہ نے اضافہ کیا۔
” اللہ تعالی! آپ ہم سب کو اس سال اپنے گھر کی زیارت نصیب فرمادیں۔“ تیمور نے ہاتھ اٹھا کر دعا مانگی۔
” مناسکِ حج کی ادائیگی کا طریقہ سیکھنے کے لیے حضرت ابراہیم اور اسماعیل نے ایک دعا مانگی تھی۔ یہ دعا بیت اللہ کی زیارت کے لیے بھی مجرب ہے۔ میں آپ کو وہ قرآنی دعا یاد کروا دوں گی۔ آپ صبح و شام اور ہر نماز کے بعد اللہ تعالیٰ سے یہ دعا ضرور مانگا کریں۔ سورۃ البقرہ میں اللہ تعالی نے یہ دعا بیان فرمائی ہے:
( وارنا مناسکنا وتب علینا انک انت التواب الرحیم ) (البقرۃ2 : 128)
ترجمہ: ” اور ہمیں ہمارے حج کے طریقے سکھا دے اور ہم پر توجہ فرما۔ یقیناً آپ ہی بہت زیادہ توبہ قبول کرنے والے اور رحم کرنے والے ہیں۔“
ماریہ نے دعا اور اس کا ترجمہ بیان کیا۔
” آمین ثم آمین۔“ سب نے بے ساختہ کہا۔
ایک تبصرہ برائے “پھر سوئے حرم لے چل یا رب !”
ماشاء اللہ بہت خوب تحریر ہے.پڑھ کر دل میں دوبارہ امنگ پیدا ہو گئی ہے. اللہ تعالٰی ہم سب کو اپنے گھر کی زیارت سے فیض یاب فرمائے. آمین ثم آمین