گلگت بلتستان

گلگت بلتستان: 1947 ء سے 2020 ء تک کیا کچھ ہوا؟ ایک دلچسپ کہانی

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

دانش ارشاد :

وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے یکم نومبر 2020 ء کو گلگت بلتستان کو عبوری آئینی صوبہ بنا نے کا اعلان کیا ہے جبکہ انتخابی مہم کے دوران چئیرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری گلگت بلتستان کو مکمل صوبہ بنانے کے وعدے کرتے رہے ہیں۔

پاکستان کی پارلیمنٹ نے آج تک گلگت بلتستان میں نظام حکومت چلانے کیلئے کوئی قانون سازی نہیں کی، یہی وجہ ہے کہ تقسیم برصغیر سے اب تک گلگت بلتستان میں کوئی مستقل نظام حکومت قائم نہ ہو سکا، نتیجتاً یہاں بڑے پیمانے پر احساس محرومی پایا جاتا ہے۔

گلگت بلتستان کا نظام 1947ء سے اب تک کیسے چلتا رہا؟
اس پر مختصر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ گلگت یکم نومبر 1947ء کو آزاد ہوا اور بلتستان کے علاقے 14 اگست 1948ء تک آزاد ہوئے تاہم یکم نومبر1947ء سے 16 نومبر 1947 ء تک گلگت کی حیثیت آزاد ریاست کی رہی۔ پھر سولہ نومبر کو شمالی مغربی سرحدی صوبہ (جس کا آج نام خیبر پختونخوا ہے) کے انتظام میں لایا گیا اور سردار عالم خان کو گلگت میں پولیٹیکل ایجنٹ مقرر کیا گیا۔ اس کے ساتھ یہاں ایف سی آر (فرنٹئیر کرائم ریگولیشن)کا نفاذ کیا گیا۔ ایک سال بعد بلتستان (سکردو اور دیگر نئے آزاد ہونے والے علاقوں) کو بھی اسی سیٹ اپ میں شامل کیا گیا۔

ایف سی آر کے نفاذ کے ڈیڑھ سال بعد 28 اپریل 1949ء کو آزاد حکومت ریاست جموں کشمیر اور فیڈریشن آف پاکستان کے درمیان کراچی میں ایک معاہدے (جسے معاہدہ کراچی کہا جاتا ہے) کے ذریعے اس علاقے کی پرانی حیثیت بحال کرتے ہوئے صوبہ سرحد(خیبر پختونخوا) کے انتظام سے نکال کر متنازع ریاست جموں کشمیر کا حصہ قرار دیا گیا۔ اس کے باوجود اسے آزاد کشمیر سے الگ رکھا گیا اور ایف سی آر برقرار رہا۔

یہ نظام حکمرانی 1971ء تک چلتا رہا اس دورانیے میں ایوب خان نے1960ء میں بی ڈی (Basic Democratic) نظام کے تحت انتخابات کروائے لیکن مقامی حکومت کچھ کام نہ کر سکی۔1971ء میں ذوالفقار علی بھٹو نے شمالی علاقہ جات (گلگت بلتستان) سے ایف سی آر کو ختم کیا اور صرف پولیٹیکل ایجنٹ کو باقی رکھا۔ اس کے ساتھ ہی بھٹو نے نادرن ایریا ایڈوائزری کونسل قائم کی جو چار سال تک رہی اور پھر1975ء میں بھٹو نے نادرن ایریا ایڈوائزری کونسل کو نادرن ایریاز کونسل میں تبدیل کیا جس کے آٹھ ممبرز گلگت بلتستان کے عوام منتخب کرتے تھے اور آٹھ وفاق کی جانب سے مقرر کردہ ہوتے۔

اس کونسل کا چیف ایگزیکٹو وزیر امور کشمیر و شمالی علاقہ جات کو مقرر کیا گیا تھا۔ بھٹو کی حکومت ختم ہونے کے بعد جب ضیاالحق کا مارشل لا آیا تو نادرن ایریاز کو E زون قرار دیا اور 1981ء میں پاکستان سیٹزن شپ ایکٹ کا نفاذ نادرن ایریاز تک وسیع کر دیا گیا۔

1993 ء میں آزاد جموں کشمیر ہائی کورٹ نے آزاد حکومت کو حکم دیا کہ آزاد حکومت پاکستان سے کیے گئے معاہدہ کراچی منسوخ کر کے گلگت بلتستان کا انتظام سنبھالے،آزاد جموں کشمیر اسمبلی میں گلگت بلتستان کو نمائندگی دی جائے اور سرکاری ملازمتوں میں ان کیلئے کوٹہ مختص کیا جائے۔ تاہم آزاد حکومت نے عملدرآمد کے بجائے آزاد جموں کے اس وقت کے وزیراعظم سردار عبدالقیوم خان اور فیڈریشن آف پاکستان نے فیصلے کو سپریم کورٹ آف آزاد جموں و کشمیر میں چیلنج کیا۔ جس پر سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ آزاد جموں و کشمیر کے عبوری آئین ایکٹ 74 ء میں گلگت بلتستان کی جگہ موجود نہیں اس لئے ایسا نہیں ہو سکتا اور نہ ہی آزاد کشمیر ہائی کورٹ ریاست پاکستان کے خلاف کسی ریفرنس کی سماعت کر سکتی ہے۔

1994میں بے نظیر نے پہلی مرتبہ گورننس آرڈر دیا جس کے مطابق عدالتی اصلاحات اور دیگر تبدیلیاں ممکن ہو سکیں۔ اس آرڈر کے تحت عدالتی نظام میں بہتری لا نے کی غرض سے چیف کورٹ کا قیام عمل میں لایا گیا اور اس کے ساتھ ڈپٹی چیف ایگزیکٹیو کا عہدہ متعارف کروایا گیا۔اس آرڈر کے مطابق چیف ایگزیکٹیو نادرن ایریاز وزیر امور کشمیر و شمالی علاقہ جات تھا اور ڈپٹی چیف ایگزیکٹیو کے پاس صرف وہی اختیارات ہوتے جو اسے چیف ایگزیکٹو تفویظ کرتا تھا۔ اس کے علاوہ کسی قسم کے اختیارات کی تشریح اس گورننس آرڈر میں نہیں تھی۔

1994میں شمالی علاقہ جات کے حوالے سے دوسری اہم پیش رفت یہ ہوئی۔ شمالی علاقہ جات کی آئینی حیثیت اور حقوق سے متعلق الجہاد ٹرسٹ نامی تنظیم سپریم کورٹ آف پاکستان میں درخواست دائر کی جس میں موقف اپنایا گیا تھا کہ شمالی علاقہ جات کے عوام کے بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ کیا جائے۔ یہاں کے عوام کا حق حکمرانی بحال کرتے ہوئے پارلیمنٹ میں نمائندگی دی جائے یا پھر علاقہ کے باشندگان کو حق رائے دہی کے آزادانہ استعمال کے ذریعے اپنی اسمبلی قائم کرنے، اپنے علاقے کا نظم و نسق خود سنبھالنے اور اپنے معاملات خود طے کرنے سے نہ روکا جائے۔ جب تک حقوق نہیں دئے جاتے اس وقت تک ٹیکس وصول نہ کیا جائے اور اگر شمالی علاقہ جات پاکستان کا حصہ نہیں ہیں تو سرحد قائم کی جائے اور مداخلت بند کی جائے۔

جس پر 1999میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے پانچ رکنی بنچ نے فیصلہ دیتے ہوئے لکھا کہ شمالی علاقہ جات کے عوام چونکہ تمام قانونی دستاویزات پاکستان کی استعمال کرتے ہیں اس لئے ان کو پاکستان کا شہری مانا جائے۔ وہ ٹیکس دیتے ہیں اس لئے ان کو مکمل آئینی و سیاسی حقوق حاصل ہیں جو پاکستان کے دوسرے شہریوں کو حاصل ہیں۔ تاہم پارلیمنٹ یہ فیصلہ کرے کہ وہاں کیا نظام حکومت ہونا چاہئیے اور چھ ماہ میں قانون سازی کر کے اصلاحات لائی جائیں۔

اس فیصلے کے بعد نواز شریف حکومت نے نادرن ایریا ایڈوائزری کونسل کو قانون ساز کونسل کا درجہ دیا جسے 47 مقامی اسبجیکٹس میں قانون سازی کے اختیارات حاصل تھے۔ یہ تمام اسبجیکٹ میونسیپلٹی طرزکے تھے۔ اس قانون ساز کونسل کو چلانے کیلئے پہلی مرتبہ اسپیکر کا عہدہ متعارف کروایا گیا۔(خیال رہے کہ 1975سے 1999 تک نادرن ایریاز کونسل کے اجلاس وزیر امور کشمیر و شمالی علاقہ جات کی زیر صدرات ہوتے تھے)۔

نواز شریف حکومت کے بعد جنرل (ر) مشرف نے ان اصلاحات کو جاری رکھتے ہوئے نومبر 1999ء اور پھر 2004 ء میں قانون ساز کونسل کے انتخابات کروائے اور 2005ء کورٹ آف اپیل قائم کی گئی جسے2007 ء میں چیف اپیلٹ کورٹ کا درجہ دیا گیا۔ یہ عدالت تین ججز پر مشتمل ہے جس کا چیف جج غیر مقامی (گلگت بلتستان سے باہر) ہوتا ہے۔ اس کے بعد دسمبر 2007میں قانون ساز کونسل کو قانون ساز اسمبلی کا درجہ دیا۔ان اصلاحات کے باوجود نظام پر وزارت امور کشمیر و شمالی علاقہ جات کا تسلط برقرار رہا اور وزیر امور کشمیر اس نظام کے چئیرمین بنا دیا گیا۔

دو سال کے مختصر عرصہ بعد 2009ء میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے گلگت بلتستان میں آزاد کشمیر کے سیٹ اپ سے ملتا جلتا سیٹ اپ لایا جس میں گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے ساتھ گلگت بلتستان کونسل بھی متعارف کروائی گئی اور پہلی مرتبہ گلگت بلتستان کو نام ملا اور سرکاری طور پر شمالی علاقہ جات کے بجائے گلگت بلتستان کہا اور لکھا جانے لگا اس کے ساتھ گلگت بلتستان کا یوم آزادی یکم نومبر کو سرکاری طور پر بنایا گیا (اس سے قبل گلگت کا یوم آزادی یکم نومبر جبکہ سکردو میں یوم آزادی 14 اگست کو منایا جاتا رہا ہے)۔

اس نظام کے تحت گلگت بلتستان میں قانون سازی کے ختمی اختیارات وزیر اعظم پاکستان کے پاس تھے۔2009 ء کے حکم نامے میں پہلی مرتبہ گلگت بلتستان میں وزیر اور وزارت کے الفاظ متعارف کروائے گئے(اس سے قبل گلگت بلتستان میں مشیر یا ایڈوائزر ہوتے تھے جن کو چیف ایگزیکٹو نامزد کرتا تھا اور وزیر امور کشمیر منظوری دیتا تھا)۔ اس حکم نامے کے مطابق گلگت بلتستان کا ڈومیسائل رکھنے والا شخص ہی گلگت بلتستان کا شہری کہلاتا ہے اور گلگت بلتستان میں پاکستان سیٹزن شپ ایکٹ پر عملدرآمد ختم ہو گیا تھا۔ اس نظام میں عدلیہ کے ججز کی تقرری کا اختیار وفاقی وزیر امور کشمیر کے پاس تھا۔

اس نظام کو نو سال بعد گلگت بلتستان آرڈر 2018 کے ذریعے نیا نظام دیا گیا ہے جس میں وہاں کے عوام کو امید تھی کہ گلگت بلتستان کو اندرونی طور پر قانون سازی کے اختیارات ملے لیکن اس حکم نامے کے مطابق گلگت بلتستان کے تمام اختیارات کا منبع وزیراعظم پاکستان ہی رہے۔ اس آرڈر کو گلگت بلتستان سپریم اپیلٹ کورٹ میں چیلنج کیا گیا اور فاضل عدالت نے 2018 کے حکم نامے کو کالعدم قرار دیدیا تھا اور گلگت بلتستان بار کونسل نے حقوق کے حصول کیلئے سپریم کورٹ آف پاکستان میں درخواست دائر کی جس پر فیصلہ دیتے ہوئے 17 جنوری 2019 کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سات رکنی بنچ نے فیصلہ دیا جس میں وفاق کی جانب سے تجویز کردہ گلگت بلتستان آرڈر 2019 بھی شامل ہے۔

عدالت عظمیٰ نے وفاقی حکومت کی مشاورت سے 109صفحات پر مشتمل نیا حکم نامہ (آرڈر 2019ء) دو ہفتے میں نافذ کرنے کی ہدایت بھی جاری کی تھی۔ عدالت نے اس حکم نامے میں 1999 کے عدالتی فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے مزید لکھا کہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے عوام کوحقوق دیے جائیں۔ وفاقی حکومت نے آرڈر 2019 کے ابتدائیہ میں لکھا گیا کہ گلگت بلتستان کو مسئلہ کشمیر کے حل تک عبوری صوبے کا درجہ دینا چاہتے ہیں جس کیلئے کافی وقت درکار ہے تاہم جی بی کو دوسرے صوبوں کے برابر حقوق فراہم کرنے کیلئے آرڈر 2019 عبوری طور پر نافذ کیا جائے گا۔

سپریم کورٹ نے آرڈر 2019 کے نفاذ کیلئے وفاقی حکومت کو دو ہفتے کا وقت دیا تھا جس پر وفاقی حکومت نے وقت بڑھانے کی درخواست کی اور فروغ نسیم کی سربراہی میں کمیٹی قائم کی تاکہ آرڈر 2019ء کو بہتر کر کے پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے۔ تاہم 30 اپریل 2020 وفاقی حکومت نے عدالت میں ایک اور درخواست دی جس میں کہا گیا کہ 23 جون 2020 ء کو گلگت بلتستان حکومت کی مدت پوری ہو رہی ہے اور حکومت تاحال آرڈر 2019 کے مطابق قانون سازی نہیں کر سکی اس لئے گلگت بلتستان میں نگران حکومت کے قیام اور انتخابات کا انعقاد کروانے کیلئے آرڈر 2019 میں ترمیم کی اجازت دی جائے۔

اس پر عدالت عظمیٰ نے پاکستان الیکشن ایکٹ 2017 ء کو گلگت بلتستان تک توسیع دینے کے احکامات دیے اور آرڈر2019 ء کے تحت نگران حکومت کے قیام کا حکم دیا۔ جس پر وزیر اعظم پاکستان نے گلگت بلتستان آرڈر 2019 کی دفعہ256/5 کے تحت نگران حکومت کا قیام عمل میں لایا۔

اب وزیر اعظم کی جانب سے سپریم کورٹ کے حکم نامے کے عین مطابق عبوری آئینی صوبے کا اعلان کیا گیا جس کیلئے پارلیمنٹ سے منظوری کے بعد آئین میں ترمیم کی جائے گی۔ اس نظام کے تحت گلگت بلتستان کو پارلیمنٹ آف پاکستان میں نمائندگی کے ساتھ وفاق کے تمام آئینی اور مالیاتی اداروں میں نمائندگی دی جائے گی۔

یہ پہلا موقع ہو گا جب گلگت بلتستان میں پارلیمنٹ میں قانون سازی کے بعد اصلاحات لائی جائیں گی،اس سے قبل تمام اصلاحات صدارتی حکم نامے کے تحت لائی جاتی رہی ہیں۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں