یہودیت سے اسلام کی جانب سفر کرنے والی سعید روح ’ مریم جمیلہ ‘ کی داستان
ڈاکٹر میمونہ حمزہ :
پیگی بڑی عجیب بچی تھی، کمزور، لاغر، اور ڈرپوک ! ذرا سی اونچی آواز سے گھبرا اٹھتی، مگر بولتی تو اس کے ذہن کی پٹاری سے ایسے ایسے سوال برآمد ہوتے کہ جواب دینے والا انگشت بدنداں رہ جاتا۔ جس نے پاؤں پاؤں چلنا شروع کیا تو اس کے قدم کمزوری سے بڑھ کر خوف سے لڑکھڑاتے تھے، اور وہ تھامنے والے ہاتھ پر اپنی گرفت مضبوط کر دیتی، گویا ساتھ ہی چمٹ جانا چاہتی ہو۔ گھر سے باہر پہلے سکول میں داخلہ لیا تو وہ بچوں کے گروپ میں بھی تنہا تھی، جیسے اسے کسی نے بل فائٹ کے اکھاڑے میں اتار دیا ہو، وہ سراسیمہ سی رہتی۔ چھے برس کی عمر میں اس کا پہلا کھیل جہاں وہ گھنٹوں کھیل سکتی تھی، ایک کھلونا گھر تھا۔
دس برس میں اس کا پہلا شکوہ گھر کی دیواروں سے ٹکرایا اور سب کو حیران کر گیا، اس کا کہنا تھا کہ’’ ہمارے گھر میں روحانیت کی کمی ہے‘‘۔ اس کمی کو نہ تو اس سے چھے برس بڑی بہن نے محسوس کیا تھا نہ کسی اور فرد نے، لیکن اس کے احتجاج نے مکینوں کو سوچنے پر ضرور ابھارا تھا کہ وہ کیا کمی ہے جس سے ان کی لاڈلی کو ادھورے پن کا احساس جاگ گیا ہے، اور وہ کیا کمی ہے جس نے اس کے لڑکپن کو بے چین بنا دیا ہے۔
بارہ برس کی عمر میں اسے دنیا کو دیکھنے کا شوق چرایا، وہ دنیا کے مشہور و معروف مقامات کی سیر سے اپنی پیاس نہ بجھانا چاہتی تھی، بلکہ وہ تو مختلف ملکوں کے لوگوں کی بودوباش دیکھنا چاہتی تھی، اور پھر جو ملک اسے پسند آ جائے اس میں اپنا گھر بنا لینے کی خواہش اس کے دل میں ایک کونپل کی مانند نشونما پا رہی تھی۔
وہ مشرق میں عربوں کے پاس جانا چاہتی تھی، ان کے گھروں اور اس میں اسلام کی عمل داری دیکھنا اور انہیں کچھ سمجھانا بھی اس کے خوابوں کا ایک حصّہ تھا۔ اگر یہودیوں کے عیسائیوں جیسا بن جانے پر اسے گلہ تھا تو عربوں کے اسلام سے دور ہونے کا شکوہ بھی تھا۔ اس نے پینٹنگز شروع کی تو وہ عربوں کے حقیقی کلچر کو نمایاں کر رہی تھیں، ایک خاموش سا پیغام تھا، تمہارے یہی گھر بہت اچھے ہیں، اپنے گھر نہ بدلو۔
اس کی بہن ’’ بے ٹی ‘‘ دور دراز کالج میں گئی تو اسے گھر کے کمرے میں ملکیت کا احساس ہوا، خوشی سے اس کا روم روم جھوم گیا:
’’اب یہ بیڈ روم صرف میرا ہے، اور اب میں اسے جتنا مرضی گندا کر سکتی ہوں‘‘۔ اگرچہ ڈیڈی کی ڈانٹ بھی سننا پڑتی ہے۔ اسے فلموں سے دلچسپی تھی نہ ڈراموں سے، وہ زندگی کے حقیقی کرداروں کو سوچتی اور اسی تخیل میں رنگ بھرتی۔ اسی لڑکپن میں اس نے ایک تصوراتی گاؤں کو حقیقی ماڈل میں ڈھالا، اور پندرہ خاندانوں پر مشتمل اسکیمو گاؤں بنا نے کی کوشش کی، مگر تکمیل سے پہلے ہی اکتا گئی، تو ممی نے سارا ماڈل غریب بچوں کو کھیلنے کے لئے دے دیا۔
وہ اپنی سہیلی کے ساتھ گھر گھر کھیلتی، اور اس کا پسندیدہ کردار’’ عرب انگلش لیڈی‘‘ تھا، جس میں وہ عرب صحرائی سردار بنتی، پھٹی ہوئی چادر اوڑھ کر اونٹ پر سوار ہوتی اور خیمے میں رہتی، جس میں اس کی کئی بیویاں ہوتیں ۔ سکول میں انگریزی کلچر اور ادب کا نام ہے جبکہ وہ اپنے اصل سے جڑنا چاہتی ہے، یہودیوں کے اداس چہرے اسے مغموم کرتے ہیں ، اور عبرانی شاعر کی نظمیں اس کے اندر غم بکھیر دیتی ہیں،
اسے بے عمل یہودیوں سے گلہ ہے، جو جدت کی تلاش میں اپنے دین سے منافقت برت رہے ہیں، وہ فیصلہ کرتی ہے کہ وہ ایک قدامت پسند یہودی بنے گی۔ وہ نقلی مذہب سے بیزار ہو گئی اور اصل کی تلاش میں نکل آئی۔اصلی کرداروں کو تلاشا تو عرب کا ہیرو عبد القادر الجزائری اپنے پورے قد کے ساتھ اس کے سامنے آکھڑا ہوا، اور کنانا کا تیرہ برس کا بدو لڑکا، جس نے اللہ کے نام پر ہتھیار اٹھائے تھے۔اس نے قلم اٹھایا اور خود ایک کہانی لکھنا شروع کی، جس کا ہیرو ایک عرب لڑکا تھا، جس کی ماں خدیجہ تھی اور باپ ملک وہاب!
اس کی یہی سرگرمیاں تھیں کہ بارہ برس کی عمر میں اس کے اپنے معاشرے کے تربیتی ادارے نے سمر کیمپ کے آخر میں اسے سائیکاٹرس کے پاس لے جانے کی تجویز دی، کیونکہ اس کی رقص میں دلچسپی نہیں ہے۔والدین اسے ’’سوشل گریسز‘‘ میں طاق کرنا چاہتے ہیں، مگر مخالف جنس، اور جسم کی نمائش دونوں ہی سے اسے کوئی رغبت نہیں۔ جوانی کے آغاز ہی میں وہ مخلوط معاشرے کے سوشل دباؤ پر اپنی ذات ہی کے دائرے میں سمٹ گئی، جبکہ ہر کھیل اور سرگرمی میں پارٹنر اہمیت اختیار کر گیا تھا۔
اس نے لائبریری میں پناہ ڈھونڈی۔ وہ اپنے ماحول میں کتنی اجنبی تھی، ہائی سکول کے جوان زندگی کے رنگوں کے دلدادہ تھے، ہر لڑکی جوانی کی حدود میں داخل ہوتے ہی اتنی بدل جاتی کہ وہ حیران رہ جاتی۔ شوخ وچنچل رویے اورڈیٹس، ڈانسز، پارٹیز اورکپڑے اور فلم سٹارزٹین ایجرز کی کل کائنات ہیں، اور وہ؟ ’’جاز اور پاپ میوزک‘‘ کی بے ہنگم آوازیں اسے بیمار کرنے لگیں۔
وہ سکول کی ٹاپر تو نہیں لیکن بہت سوں سے بہتر ہے، مگر اسی پچاسی فیصد نمبر لے کر بھی اجنبی سی اجنبی ہے۔ اس کی دلچسپی آرٹ میں ہے، وہ فلسطین کے ان عربوں کی پینٹنگز بناتی ہے، جنہیں عرب فلاحین کہا جاتا ہے۔ محنتی اور اپنے اصل سے جڑے ہوئے عرب اس کے دل کے ایک گوشے میں آ بسے ہیں، وہ انہیں ان کی زمین میں آباد دکھاتی ہے، ارضِ فلسطین جس کے وہ جائز وارث ہیں، جو ان کا اصلی گھر ہے۔
اس کے گھر میں اس کے خلاف محاذ کھل جاتا ہے، ممی تو ممی، ڈیڈی بھی ان عربوں کی نفرت میں بھرے ہوئے ہیں، اور جنگ عظیم میں یہودیوں کی ہزیمت کا الزام مسلمانوں پر ڈال دیتے ہیں، اس پر دباؤ اس وقت تک بڑھایا جاتا ہے جب تک وہ یہودیوں کے رب سے عہد کی تجدید نہیں کر لیتی۔ اس کے اندر سلگنے والی آگ اسے ایک مرتبہ پھر لائبریری کی جانب دھکیل دیتی ہے، اور وہ متعصب یہودیوں کے لٹریچر کو کھنگالتی ہوئی ، عرب اور اسلام کے بارے میں اصل کتابوں تک پہنچ جاتی ہے۔جہاں مسلمانوں کے گھروں کی ثقافت اور ان کے عورتوں اور بیٹیوں سے عمدہ سلوک کی داستانیں اسے تصویر کا دوسرا رخ بھی دکھا دیتی ہیں۔
بیٹیوں سے محبت اور ان کی چاہت کو وہ تعصب کی عینک اتار کر پڑھتی ہے اور سرشار ہو جاتی ہے۔ ہائی سکول میں انگریزی کی استانی اسے ’’ نافرمانبردار‘‘ کہہ کر مسلسل فیل کئے دیتی ہے، اور صاف لکھائی کے نمبر ہی تمام رزلٹ پر حاوی ہو جاتے ہیں۔ ارد گرد مغرور اور حسن پرست ساتھی ہیں، ان کے رویوں کی سفاکی ہے کہ ایک سفید فام، موٹا لڑکا اپنے بیڈ روم میں لٹک کر اس بنا پر خود کشی کر لیتا ہے کہ اس کے دانوں بھرے چہرے کی بنا پر کوئی اس سے دوستی نہیں کرتا، اور ایک خستہ حال طالبہ معاشرتی بائیکاٹ کی بنا پر سکول چھوڑ دیتی ہے اور ملازمت اختیار کر لیتی ہے۔ سکول میں کلاس میں طالب علموں کی تقسیم نسل، قومیت اور معاش کی بنیاد پر ہے۔ اور اسی بنیاد پر مختلف مضامین پڑھنے کی اجازت ملتی ہے۔
تعلیم کے انہیں مراحل میں اسے دہریہ استاد ڈاکٹر شوپ بھی ملتا ہے، جو باور کرواتا ہے کہ ’’ ایک خدا پر یقین رکھنا جلد ہی قدیم زمانے کی توہم پرستی سمجھی جائے گی، اور انسان جلد ہی اس قابل ہو جائیں گے کہ انسانی زندگی کو مصنوعی لیبارٹریوں میں تیار کر سکیں ‘‘۔ اوراپنی دہریت ہی کی بنا پر وہ نہ صرف اس کالج سے نکالا جاتا ہے بلکہ کوئی بھی کالج اس کے نظریات کی بنا پر اسے رکھنا گوارا نہیں کرتا اور وہ پاگل ہو جاتا ہے۔
پیگی کا باپ ایک مادہ پرست انسان ہے، اس کا بزنس پھیلتے پھیلتے لندن، روم اور پیرس کی حدود کو چھو رہا ہے، اور اسے بیمار بیٹی کو دیکھنے کی بھی فرصت نہیں۔ وہ گھر بیٹھ کر ہی اسائنمنٹس کرتی ہے، اور اس کے پاس تازہ ہوا کا جھونکا پھر وہی عرب بودو باش کا ناول ہے جسے وہ ایک بار پھاڑ بھی چکی ہے۔ ہائی سکول میں اس کے گروپ میں ایک عرب لڑکی بھی ہے، جو فلسطین کے موضوع پر گفتگو میں اسرائیل اور امریکہ کے بارے میں کسی اعتراض پر بری طرح ہلا ماری جاتی ہے، اور اسے معذرت پر مجبور کیا جاتا ہے۔ اور ایسا نہ کرنے پر اس کا معاشرتی بائیکاٹ کر دیا جاتا ہے۔
وہ بھی ایک تقریب میں فلسطینیوں کے لئے انسانی حقوق کی آواز بلند کرنا چاہتی ہے تو اسے زبردستی خاموش کروا دیا جاتا ہے۔ امریکی معاشرے کی روایت کے مطابق پیگی کو آئندہ تعلیمی مراحل میں باپ کی کفالت کی سہولت حاصل نہیں، اسی لئے وہ اپنے کالج کے تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لئے پلاسٹک فیکٹری میں معمولی ملازمت اختیار کر لیتی ہے، جس میں سستانے کو ایک منٹ بھی میسر نہیں، اس پر مستزاد وہ بس کا کرایہ بچانے کے لئے پیدل مارچ بھی کرتی ہے۔ وہ اپنی ساتھی ورکرز سے اپنے باپ کی معاشی حالت بیان نہیں کرتی، مبادا وہ احساسِ کمتری کا شکار ہوں۔
یونیورسٹی میں داخلہ اس کے لئے نئے چیلنجز لے کر آیا، وہ اس مادر علمی میں روح کو سیراب کرنے آئی تھی، مگر یہاں ہاؤ ہو بھی ہے، اور رت جگے بھی، کلچر کے نام پر مخلوط ڈانس پارٹیاں بھی! وہ چند روز میں اعصابی مریضہ بن جاتی ہے، کالج انتظامیہ اس کا ہاسٹل سے اخراج کر دیتی ہے، اور وہ دوبارہ اپنے گھر پہنچ جاتی ہے، مگر بے چینی زود افزوں ہو جاتی ہے، عارضی سکون کے لئے وہ کبھی آرٹ کی کلاسز جائن کرتی ہے، کبھی یہودی ربیوں کے گروہ میں شامل ہوتی ہے، جو انتہائی سرد مہر اور بد اخلاق ہیں، اور عربوں کے ازلی دشمن!
وہ بہائی تنظیم میں شمولیت اختیار کرتی ہے تو کبھی فرقہ سامریہ کے پیروکاروں کی جانب بڑھتی ہے، تھکاوٹ اور بے خوابی مزید بڑھ جاتی ہے، اور اس کا نروس بریک ڈاؤن ہو جاتا ہے۔ سمندر کی موجیں جب اسے اٹھا اٹھا کر پٹخ رہی ہوتی ہیں، اور ماں باہر جاتے ہوئے کچھ منگوانے کا پوچھتی ہے، تو وہ قرآن کا نسخہ منگوا لیتی ہے، یہ فیصلہ بالکل اچانک ہی ہوا ہے، شاید اس وجہ سے کہ اس نے قرآن پر تنقید تو بہت پڑھی تھی مگر کبھی اس کتاب کو نہ دیکھا تھا۔
اور جب وہ اس کے ہاتھ لگا تو وہ ساری رات اس کا مطالعہ کرتی رہی، اور بائبل سے اس کا موازنہ کرتی رہی۔اس ترجمے نے اسے تھکا کر رکھ دیا، اس کا ترجمہ کرنے والا خود اس کی حقانیت کا قائل نہ تھا، اور یہ ایک متعصب قلم سے لکھا ہوا ترجمہ تھا، ایمان کے احساس سے عاری!
پھر اس نے مارماڈوک پکتھال کا ترجمہ قرآن حاصل کر لیا، اور ایک مومن قلم کی سچائی کے بیان نے اس کے دل میں گھر کر لیا۔اور پھر قرآن اس کا مستقل ساتھی بن گیا، انیس برس کی عمر میں اس کی کو سکون ملنے لگا۔ اس کا دل ایمان سے بھرنے لگا، زندگی کا مقصد اس کے سامنے آشکار ہو رہا تھا، اس نے قرآن سے ’’ صبر‘‘ کا مفہوم جانا تھا۔
اس کے ممی اور ڈیڈی نے پچھلے تعلیمی ادارے کی رپورٹ پر اسے شدید ذہنی امراض کے ہسپتال میں داخل کروا دیا، جس نے اس ذہنی مریضہ کے علاج کے نام پر والدین سے رقم اینٹھنی شروع کر دی۔ اس کے چنگل سے نکلی تو اگلا ڈاکٹر سگمنڈ فرائیڈ کا پیروکار تھا، جس نے تحلیل نفسی کے ذریعے سے علاج شروع کر دیا، جس کے نزدیک اس کی بیماری کا سبب سفلی خواہشات کو دبانا اور انہیں تشنہ رکھنا ہے، اور اس کا حل ناچنا، گانا، آرٹ اور جنسی آسودگی پانا ہے۔ پیگی اسے اسلامی عقیدے اور کلچر کی سچائی بتانا چاہتی ہے ، جو ڈاکٹرکے خیال میں بے کار موضوع ہے۔
وہ یونیورسٹی سے نکال دی گئی تھی، اس نے مسلمانوں سے اپنے روابط بڑھائے، ان میں نو مسلم بھی تھے اور عرب بھی، اور دیگر ممالک کے بھی! پیگی کے گھر کے درو دیوار اس کے لئے اجنبی ہوتے جارہے تھے، ایک گھر میں رہتے ہوئے بھی والدین کے ساتھ میز پر بیٹھ کر کھانا کھانا اس کے لئے ممکن نہ رہا تھا، اس کی نیند اڑ چکی تھی، والدین اسے پھر نفسیاتی معالج کے پاس لے گئے، جس نے اسے کسی نفسیاتی ادارے میں داخل کروانے کی تجویز دی تھی، کیونکہ وہ ’’ شیزوفزینیا ‘‘ کا شکار ہو چکی تھی۔
یہ رپورٹ اس کے لئے اتنی مایوس کن تھی کہ اس نے خود کشی کا ارادہ کیا، مگر حضرت محمد ﷺ کی اس حدیث نے اس کے اٹھتے ہوئے قدم روک دیے کہ:
’’ جو بھی خود کشی کرے گا وہ ہمیشہ کے لئے جہنم میں رہے گا ‘‘۔اس کیفیت سے نکلنے کے لئے اس نے اس مہربان رب سے دعا کی جو شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔
معالج کی رپورٹ نے اس کے آزاد شہری ہونے کے حق کو چھین لیا تھا۔ اس نے بھاگ کر مسلمانوں کے گروہ کی جانب رجوع کیا، جنہوں نے اس کا گرم جوشی سے استقبال کیا، چند گھنٹے ان کے ساتھ گزار کر وہ کافی بہتر محسوس کرنے لگی، لیکن اپنے گھر کی اجنبی فضا میں اخبار کی ایک چھوٹی سی خبر پڑھ کر وہ بے چین ہو گئی، اسرائیل نے قبضے کے دوران کئی معصوم عورتوں، بچوں اور پرامن شہریوں کو تہہ تیغ کر ڈالا تھا،
والدین کو خبر کا سنانا گویا آسمان کا پھٹ جانا تھا، ان کی بیٹی نے ان کی زندگی اجیرن بنا دی تھی۔ وہ سیر کے بہانے اسے گاڑی پر گھماتے ہوئے ایک سرخ اینٹوں کی عمارت میں لے آئے، جہاں تشویش ناک ذہنی امراض میں مبتلا افراد داخل کئے جاتے ہیں۔ جو بظاہر چند ہفتوں کے لئے لائے جاتے ہیں ، مگر شاید کبھی واپس نہ جانے کے لئے۔
پیگی پر جن کاغذات پر دستخط کروائے جاتے ہیں ان کی سچائی کا کیا کہنا:
’’میں اپنی مرضی سے یہاں داخل ہو رہی ہوں‘‘۔
اگر دستخط نہ کروں تو عدالتی کاروائی، اور بھاگنا چاہوں تو پولیس کا تعاقب۔ بعد میں وہ ہر ملاقات پرممی ڈیڈی کی منتیں کرتی ہے کہ اسے یہاں سے نکال لیا جائے، مگر ان کی دلیل ہے کہ وہ یہ سب اس کی محبت اوربہتری میں کر رہے ہیں، اور وہ صحت یاب ہو کر ہی باہرنکلے گی،
کسی پر ذہنی مریض ہونے کا الزام لگا دینا کتنا توہین آمیز ہے، اسے پیگی ہی محسوس کر سکتی ہے۔
والدین کے جانے کے بعد وہ اپنے بیمار رویے کا جائزہ لیتی ہے، تو وہ در اصل اسلام کی حمایت ہے۔ اور اسی جرم میں یہ قید بھگت رہی ہے۔ اس کا والد بھیگی آنکھوں سے اسے باور کروا دیتا ہے کہ اب وہ ان کے ساتھ کبھی ایک گھر میں نہ رہ سکے گی۔ اور پھر اس کا غم غلط کرنے کو اسے ایک تحفہ ملتا ہے، اس قید خانے میں قرآن کا نسخہ اس کی عرب سہیلی نے بھجوایا ہے، جہاں گھنٹے دنوں کے برابر اور دن ہفتوں کے برابر اور ہفتے مہینوں کی مسافت لئے ہوتے ہیں۔ یہاں کبھی اسے برف کی سلوں پر بارہ سے پندرہ گھنٹے تک لٹایا جاتا ہے اور کبھی بجلی کے جھٹکے لگانا بھی علاج کا حصّہ ہے اگرچہ اس کی نوبت نہیں آئی۔
اس قید میں مریضوں کے خطوط تک سنسر ہوتے ہیں، اور انتظامیہ سے اچھے برتاؤ اور کچن کے کاموں میں مدد اور صفائی کی خدمات ادا کرنے پر سہولتیں ملتی ہیں، لیکن اتنی مشقت کے بعد بھی اچھا گریڈ ملنے کے بجائے اسے مستقل مریضوں کے حصّے میں بھیج دیا جاتا ہے جہاں پچاس پچاس برس سے مقیم مریض ہیں۔
ایسٹر کے موقع پر اسے بطور امتحان ایک ماہ کے لئے گھر بھیجنے کی رعایت ملتی ہے۔اور پیگی پورا مہینہ اپنے گھر میں سینت سینت کر قدم رکھتی ہے، مبادا کوئی حادثہ اسے پھر مینٹل ہاسپٹل نہ پہنچا دے۔اور والدین کی گواہی پر کہ اب وہ بہتر ہے اسے ہسپتال سے نجات مل جاتی ہے۔
وہ واشنگٹن چلی جاتی ہے، جہاں اسے نوکری تو نہیں ملتی، ہاں اسلام کے متعلق سوالات کے جوابات معلوم کرنے کی سعی بڑھ جاتی ہے۔ وہ ٹائپنگ سیکھتی ہے، مگر مطلوبہ مہارت حاصل نہیں کر پاتی کہ اس بنیاد پر ملازمت حاصل کر لے، البتہ اسی ہنر کو مختلف موضوعات پر لکھنے میں لگا دیتی ہے، اس کے مضامین مختلف اخبارات و جرائد میں چھپنے لگتے ہیں، والد خبر پا کر خوش ہوتے ہیں، کیونکہ یہ معاوضے کا ذریعہ بھی بن سکتا ہے۔
اس کے نہ صرف مسلمانوں سے روابط استوار ہو رہے ہیں بلکہ دین سیکھنے کا عمل بھی تیزی سے جاری ہے، مختلف علماء کرام سے رابطہ کرتے ہوئے وہ سب سے مخلص شخصیت سید مودودیؒ کو پاتی ہے، جو اسے اپنے ہاں آنے کی دعوت بھی دیتے ہیں۔ دوسری جانب راستے مسدود ہیں، اس کے والدین اسے بتا چکے ہیں کہ وہ اپنی علیحدہ رہائش کا بندو بست کر لے، کیونکہ رہن سہن اور سوچ کا فرق انہیں ایک مکان میں بھی رہنے نہ دے گا۔
اپنے گھر سے بے گھری کے بعد وہ کچھ عرصہ ہاسٹل میں قیام کرتی ہے، اور بالآخر اپنے اسلام کا اعلان کر دیتی ہے۔ شیخ داود احمد فیصل اسے کلمہ پڑھاتے ہیں اور مریم جمیلہ کا نام تجویز کرتے ہیں۔ مولانا مودودی ؒ سے خط و کتابت جاری ہے، اور جس بات نے مریم کو ہجرت کے فیصلے تک پہنچا دیا وہ اس کے سوا کیا ہے کہ مولانا نے اسے اپنے گھر اور اپنے خاندان کا ممبر بنا کر رکھنے کی یقین دہانی کروائی، جو مکان کی دیواریں نہیں ایک گھر کا تصور ہے۔
اپنے پیش رو نو مسلم محمد اسد کا اسلام قبول کرنے کو گھر واپس آنا قرار دینا اس کے دل میں کھب گیا تھا۔ کیا یہ مراجعت نہ تھی؟ روح کی مراجعت جو ہزاروں سال پیچھے مڑ کر بھی اپنے گھر کی تلاش میں مصروف رہی، اور جب اسے پا لیا تو اسے ایسا لگا جیسے اس کا آسمان کسی بھی دوسرے آسمان سے بڑھ کر گہری رنگت والا، بلند اور ستاروں بھرا ہے جس کے ستارے تاریک رات کے مسافروں کو بھٹکنے سے بچا کر سیدھی اور صاف شاہراہ کا پتا بتاتے ہیں۔ ایک ایسی دنیا سے روشناس کرواتے ہیں جو تن ہی نہیں ،من کو سیراب کرنے والی بھی ہے۔ جو فی الحقیقت گھر ہے، مکان اور گھر کے ہر معنی کو پوری طرح واضح کرنے والی!