عبید اللہ عابد :
وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ روز ایک بار پھر کہا کہ
” چاہے میری حکومت بھی چلی جائے پیسے واپس ملنے تک انہیں نہیں چھوڑوں گا۔ “
اس کا مطلب ہے کہ حکومت بھی جانتی ہے کہ وہ معرض خطر میں ہے۔ تحریک انصاف کے لوگ اس بیان کی جو بھی تشریح کریں ، بہرحال حکومت اور تحریک انصاف کے ذمہ داران کے چہروں، لہجوں اور بیانات سے پریشانی پوری طرح ٹپکتی ہے۔
دوسری طرف مسلم لیگ ن کے رہنمائوں کی گفتگوئوں میں بھی ایک عجب کیفیت نظر آتی ہے، وہ ایک طرف حکومت کی بے بسی کا مزہ لے رہے ہیں ، دوسری طرف سمجھ چکے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کا ان سے بات چیت کیے بغیر گزارہ نہیں۔ امر واقعہ بھی یہی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ان سے بات چیت کررہی ہے۔ اس لئے وہ مستقبل کی باتیں کر رہے ہیں۔ وہ اسٹبلشمنٹ کو روڈ میپ دے رہے ہیں کہ اسے اب حالات بہتر بنانے کے لئے سب سے پہلے کیا کرنا چاہئے۔
مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز شریف نے بھی گزشتہ روز مانا کہ اسٹیبلشمنٹ ان کے قریبی لوگوں سے رابطے میں ہے۔ وہ روڈ میپ دے رہی ہیں کہ عمران خان کو لانے والے ان سے استعفیٰ لیں،اس طرح بات چیت کا اگلا مرحلہ شروع ہوگا ، اگر ایسا نہیں کیا جائے گا تو پھر اپوزیشن جماعتیں تحریک عدم اعتماد لا سکتی ہے۔
ن لیگ کے رہنما واضح طور پر کہہ رہے ہیں کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مذاکرات کے لئے تیار ہے ، تاہم اس کے لئے دو شرائط ہیں :
اول : عمران خان کو ہٹایا جائے۔
دوم : اس کے بعد ایک عبوری سیٹ اپ لایا جائے جس میں فوج سمیت سب جماعتیں حتیٰ کہ ججز بھی بیٹھیں اور اس بات کا فیصلہ کریں کہ اب ملک کس طرح چلایا جائے گا۔
مسلم لیگ ن کا کہنا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے جو کچھ اس کے ساتھ کرنا تھا کرلیا، اب آگے چلے، ڈائیلاگ کرے۔ ن لیگ نظام کی تبدیلی کی بات کررہی ہے اور ایک ایسا سیاسی نظام چاہتی ہے جس میں فوج کا عمل دخل نہ ہو۔ کہا جاتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ بھی بحران پیدا ہونے سے پہلے معاملات بہتر کرنا چاہتی ہے، اسی لئے وہ مسلم لیگ ن سے رابطے کررہی ہے۔
کہا جارہا ہے کہ پس پردہ ہونے والی گفتگوئوں میں مثبت پیش رفت ہورہی ہے۔ اگرچہ ابھی ابتدائی مراحل ہیں تاہم ایک ایک قدم آگے کی طرف سفر طے کیا جارہا ہے۔ دونوں طرف سے کوشش ہورہی ہے کہ خلیج کم کی جائے اور ایک پل تعمیر کیا جائے۔
معروف صحافی اور انویسٹی گیٹو رپورٹر انصار عباسی کا بھی کہنا ہے کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کا حصہ سمجھی جانے والی جماعتوں کے ساتھ مبینہ طور پر رابطے کیے گئے ہیں تاکہ ’’تبدیلی‘‘ کو تبدیل کرنے کے آپشنز پر غور کیا جا سکے۔
باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ گزشتہ ہفتے کے دوران پس پردہ اہم مذاکرات ہوئے ہیں جو اگرچہ براہِ راست نہیں ہیں لیکن ’’حوصلہ افزا‘‘ ضرور ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ بالواسطہ مذاکرات پی ڈی ایم کی تین جماعتوں پیپلز پارٹی، نون لیگ اور جے یو آئی ف کے ساتھ کیے گئے۔ ان رابطوں میں پنجاب اور مرکز میں تبدیلی پر بات ہوئی۔
پی ڈی ایم کو اشارہ دیا گیا ہے کہ وہ پہلے مرحلے میں پنجاب میں تبدیلی لے آئے۔ پیپلزپارٹی اس تبدیلی کے حق میں ہے، مسلم لیگ قاف بھی اس حوالے سے پرجوش اور پی ڈی ایم کے ساتھ تعاون پر آمادہ ہے لیکن ن لیگ اس تبدیلی کے حق میں نہیں لیکن وہ اسے قطعی طور پر مسترد بھی نہیں کررہی ہے۔
اسی طرح پنجاب کے بعد مرکز میں بھی تبدیلی پر پس پردہ بات چیت چل رہی ہے۔ اس تبدیلی کے لئے احسن اقبال اور خواجہ آصف کے نام لئے جارہے ہیں یعنی ان ہائوس تبدیلی کے بعد انھیں وزیراعظم بنایا جاسکتا ہے۔
تیسری طرف مسلم لیگ ن کے مسلم لیگ ق کے ساتھ رابطے اہم مرحلے میں داخل ہوچکے ہیں۔ یہ دونوں گروہ طویل عرصہ سے آپس میں رابطے میں تھے، پہلے چھپ چھپ کے ملاقاتیں ہوتی تھیں، اب برسرعام ہو رہی ہیں۔آج مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ آصف نے کہا ہے کہ چودھری شجاعت حسین پاکستان کی سیاست کیلیے اہم ترین شخصیت ہیں ۔ جبکہ میاں نواز شریف نے خواجہ آصف کے ہاتھ چودھری شجاعت حسین کے لئے پھولوں کا گل دستہ بھجوایا ہے۔
اب حکومتی کیمپ کا جائزہ لیتے ہیں۔ یہ کیمپ کس حال میں ہے، اس کا اندازہ گزشتہ دنوں وزیراعظم کی طرف سے اتحادیوں کو دی جانے والی کھانے کی دعوت میں پیدا ہونی والی صورت حال سے بخوبی ہوسکتا ہے۔ وہاں پی ٹی آئی کی اتحادی جماعتیں وزیراعظم کو کھری کھری سنا رہی تھیں ۔ وہ حکومتی کارکردگی پر عدم اطمینان ظاہر کررہی تھیں ۔ اتحادیوں کا اچانک عدم اطمینان خواہ مخواہ ہی ہیدا نہیں ہوا۔ یہ ایک ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب تبدیلی کی ہوائیں چل رہی ہیں اور پی ڈی ایم جماعتیں انہیں محسوس بھی کر رہی ہیں۔
اس ساری صورت حال میں وزیراعظم ناراض سے ہیں۔ وہ اسٹیبلشمنٹ اور پی ڈی ایم کے درمیان رابطوں سے سخت بے چینی محسوس کررہے ہیں۔ اس تناظر میں پنڈی اور اسلام آباد کے درمیان فاصلے بڑھتے جارہے ہیں۔ کراچی والے معاملے پر فوج کی طرف سے انکوائری رپورٹ کے سامنے آنے سے بھی عمران خان حکومت خوش نہیں ہے، وہ اس میں اپنی سبکی محسوس کرتی ہے کہ اسے بتائے بغیر ہی انکوائری رپورٹ جاری کردی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت کی طرف سے اس رپورٹ پر تنقید کی گئی۔
اب جب کہ پنڈی اور اسلام آباد کے درمیان خلیج پیدا ہوچکی ہے تو نوازشریف اس صورت حال سے خوب فائدہ اٹھانے کی کوشش کررہے ہیں۔ وہ فوج کی اعلیٰ قیادت کے نام بار بار لے رہے ہیں بلکہ پہلے سے زیادہ شدت اور وضاحت کے ساتھ نام لیتے ہیں۔ نواز شریف جانتے ہیں کہ جب حکومت اور فوج ایک صفحہ پر نہ رہے تو اس کے کیا نتائج نکلتے ہیں۔
وزیراعظم عمران خان نے بھی اچانک حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو سپہ سالار کے عہدے سے برطرف کئے جانے کی باتیں شروع کردی ہیں۔ وہ بار بار اس تاریخی واقعے کا تذکرہ کرتے ہیں۔ بعض حلقے اس تاریخی تذکرے کو وزیراعظم کا آرمی چیف کے نام ایک ” پیغام “ قرار دے رہے ہیں۔ اگر وہ واقعی آرمی چیف کو یہ پیغام دے رہے ہیں تو پھر جان لیجئے کہ یہ پیغام دینے کا مشورہ دینے والے عمران خان کو ایک خطرناک صورت حال میں دھکیل چکے ہیں۔
بہرحال حکومت کے لئے معاملات اب ٹھیک نہیں ہیں ، وہ صفحہ پر اکیلی کھڑی ہے ، تنہا ہوچکی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ بھی چہار اطراف سے دبائو میں آچکی ہے، پی ڈی ایم بالخصوص مسلم لیگ ن پوری طرح کھیل پر حاوی نظر آ رہی ہے۔
ملکی سیاست ایک طویل عرصہ بعد نہایت دلچسپ مرحلے میں داخل ہوچکی ہے۔ آنے والے ایک دو ماہ واقعی بہت اہم ہیں۔