قربان انجم :
ہندوستان سے پاکستان ، ہجرت کی خونچکاں داستان ( پہلی قسط )
ہندوستان سے پاکستان ، ہجرت کی خونچکاں داستان ( دوسری قسط )
ہمارے قافلے میں رحمت اور اس کا بیٹا احمد بھی شامل تھے۔ یہ دونوں بہت دکھی تھے۔ رحمت نابینا تھا۔ احمد اسے پورے راستے اپنے کاندھوں پر اٹھا کر لایا۔ ان کے گھر کے تمام افراد شہید کردئیے گئے تھے اور بعض لڑکیاں لاپتہ ہوگئی تھیں۔احمد جب اپنے پیاروں کو یاد کرکے آنسو بہاتا تو ہم سب رو پڑتے تھے مگر اس کے باپ نے کمال صبر اور ضبط کا مظاہرہ کیا۔
دو لاوارث عورتیں بھی ہمارے ساتھ خیمے میں رہتی تھیں۔ والدہ محترمہ خورونوش کے متعلق ان کی ضروریات پہلے پوری کرتیں، بعد میں ہم بہن بھائیوں کی باری آتی۔ ان میں سے ایک کا بیٹا ریلوے ہیڈ کوارٹر لاہور میں ڈویژنل سپرنٹنڈنٹ تھا جس کا نام محمد اقبال تھا۔ جب ہم لاہور پہنچے تو ماموں جان چودھری قدرت علی نے محمد اقبال کا کھوج لگا کر اس کے پاس اس کی والدہ اور دوسری رشتہ دار خاتون کو پہنچایا۔ بچھڑے ہوئے خاندان کے ملاپ کا منظر بے حد رقت آمیز تھا۔
والد صاحب چودھری عطا الٰہی گاؤں پر حملے وقت لاہور میں تھے۔ یہاں وہ چند سال سے ملازمت کرتے تھے۔ انھیں کسی نے بتادیا کہ تمھارا سارا خاندان شہید ہوچکا ہے۔ والد صاحب کو قدرتی طور پر غیرمعمولی صدمہ پہنچا۔ چند روز انھوں نے اس طرح گزارے کہ حواس قابو میں نہ رہے تاہم جب گاؤں کے بعض دوسرے لوگ لاہور پہنچے تو انھوں نے بتایا کہ ان کے خاندان کے لوگ بفضلہ تعالیٰ صحیح سلامت ہیں۔
جس روز ہماری بہن بتول نے وفات پائی ، اس کی تدفین کے چند منٹ بعد والد صاحب اور ماموں جان مصطفیٰ صادق (بانی روزنامہ وفاق اور ضیاالحق دور کے وفاقی وزیراطلاعات و نشریات ) ہم سے واہگہ آملے۔
ماموں مصطفیٰ صادق مرحوم نے ” ہجرت کی خونچکاں داستان “ کے عنوان سے ایک مضمون لکھا جس پر انھیں تحریک پاکستان کے ایک مجاہد کی حیثیت سے گولڈمیڈل کا حق دار ٹھہرایا گیا۔ وہ مضمون من و عن قارئین کی نذر ہے:
” پاؤں سے خون رس رہا تھا، سر میں باریک باریک پھنسیاں، ذرا کھجلاؤں تو انگلیاں خون سے بھر جاتیں، کپڑے میلے کچیلے بلکہ گدلے، اس لئے کہ کم و بیش چھ ہفتے اس عالم میں گزر گئے تھے کہ یا تو بارش کی فراوانی کے باعث کیچڑ میں لت پت فرش نشینی میں شب و روز بسر ہورہے تھے اور یا پانی کی ایک بوند کو ترس رہے تھے۔
غلامی کا دور تو پہلے بھی دیکھا تھا لیکن 14اگست 1947ء سے غلامی کی جن زنجیروں نے ہمیں جکڑ لیا تھا، ان کا تصور بھی ہمارے ذہن میں نہیں تھا، اس لئے کہ ہمیں تو ضلع گورداسپور کے ساتھ ہی ضلع ہوشیار پورکے کچھ علاقوں کی آزادی کی نوید سنائی گئی تھی اور ہم انتہائی مشکل مرحلے سے گزرتے ہوئے 14اگست کو طلوع ہونے والی صبح کے انتظار میں تھے جو ہمارے لئے آزادی کا پیغام لے کر آنے والی تھی لیکن یہ تو معاملہ ہی الٹ ہوگیا۔
فسادات تو 14اگست سے پہلے ہی شروع ہوچکے تھے لیکن اس وقت تک مقابلہ ایک ایسی جنونی قوم کے انتہاپسند افراد سے تھا جس کے خبث باطن اور فتور نیت سے ہم بخوبی واقف تھے۔ ان کے اسی کردار کے باعث تو قائداعظم نے پوری قوم کو مسلم لیگ کے پلیٹ فارم پر جمع کرنے میں انتہائی سرعت کے ساتھ غیرمعمولی کامیابی حاصل کی تھی اور ہم ایسے کارکنوں نے گلی گلی، بستی بستی، قریہ قریہ اور شہر شہر، گھوم پھر کر قائداعظم کا یہی پیغام کلمہ گو مسلمانوں تک پہنچایا تھا کہ ہمیں انگریز کی غلامی سے آزاد ہوکر ایک علیحدہ وطن پاکستان کے حسین و جمیل دلکش دلربا نام سے …… بسانا ہے، آباد کرنا ہے جس میں ہمیں اللہ کے دین کا بول بالا کرنے کے لئے مکمل آزادی حاصل ہوگی۔ ہم ایک طرف انگریز کی غلامی کا قلاوہ گردنوں سے اتار پھینکیں گے اور دوسری طرف ہندو کے غلبہ سے آزاد ہوجائیں گے۔
لیکن یہ ہمارے ساتھ کیا ہوگیا، ہم تو کسی بہت بڑے فریب کا شکار ہوگئے، ہمارے ساتھ کون دھوکہ کرگیا، کہاں آزادی کا خواب دیکھا جا رہا تھا، کہاں غلامی کے شکنجے میں جکڑے گئے…… اور غلامی بھی ہندو ایسی پست ذہنیت رکھنے والی قوم کی اور ہندو بھی وہ جس کے مقابلے میں ہم اپنی آزادی کے لئے نبرد آزما تھے، بر سرپیکار تھے، اب تو اس کی آتش انتقام بھی بھڑک اٹھی۔
اس چال باز قوم نے سادہ لوح سکھوں کو گمراہ کیا۔ خود تو سامنے آنے کی ہمت نہ تھی، پٹیالہ کی سکھ فوجوں کو ہماری بستیوں پر اس حال میں حملہ آور ہونے کے لئے آمادہ کیا کہ ہم جتنا بھی مقابلہ کرتے، ہمیں اپنے گھروں سے بے گھر ہونا ہی تھا لیکن یہی تو نہیں، یہاں تو اور بھی بہت کچھ ہوا۔
آج میں اپنے بزرگ بابا محمد جمیل کو اپنی آنکھوں کے سامنے ایک ایسے کمرے میں تڑپتے ہوئے دیکھ رہا ہوں جس کو باہر سے مقفل کرکے نذرآتش کردیاگیا تھا جس میں کم و بیش تیس دوسرے افراد بھی تھے جن میں بچے بھی شامل تھے اور عورتیں بھی۔ظالموں نے خدا جانے توہین انسانیت کے لئے گھٹیا پن کا مظاہرہ، اس چھچھورے پن کا مظاہرہ، اس کمینہ پن، سفلہ پن کا مظاہرہ کس لئے کیا۔ ( جاری ہے )