عبید اللہ عابد :
آج عصر کے وقت اچانک ایک دھماکہ خیز خبر جاری ہوئی، پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق ایک انکوائری کے نتیجے میں خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی اور پاکستان رینجرز کے اُن اہلکاروں کے خلاف ایکشن لے لیا گیا ہے جنھوں نے بانی پاکستان کے مزار کی ’ بےحرمتی‘ کے واقعے پر ’ عوامی دباؤ ‘ کے تحت زیادہ ہی جوش کا مظاہرہ کرتے ہوئے خود اقدام اٹھانے کا فیصلہ کیا۔
آئی ایس پی آر کے مطابق ان تمام افسران کو اُن کی موجودہ ذمہ داریوں سے سبکدوش کرتے ہوئے اُن کے معاملات جی ایچ کیو کے سپرد کر دیے گئے ہیں۔
اس واقعے میں مسلم لیگ ن کے قائد ، سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی صاحبزادی اور پاکستان مسلم لیگ ن کی سئینئر نائب صدر مریم نوازشریف کے کمرے کا دروازہ توڑ کر ان کے شوہر کیپٹن ر صفدر کو گرفتار کیا گیا تھا۔
پولیس کیپٹن ر صفدر کے خلاف مزار قائد کی مبینہ بے حرمتی پر ایف آئی آر نہیں کاٹ رہی تھی، ایسے میں رینجرز اور خفیہ ایجنسی کے اہلکاروں نے صوبے کے اعلیٰ پولیس افسران کو ان کے گھروں سے ” اٹھایا “ ، اور انھیں کیپٹن ر صفدر کے خلاف ایف آئی آر کاٹنے پر مجبور کیا گیا۔
سندھ پولیس کے افسران نے اس بدسلوکی پر احتجاجاً چھٹی پر جانے کا فیصلہ کرلیا تاہم پاکستان پیپلزپارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری کی درخواست فیصلہ واپس لے لیا۔ بعدازاں پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے اس سارے واقعے کی تحقیقات کرنے کا فیصلہ کیا، جس کے نتیجے میں آج لئے گئے ایکشن کی تفصیلات جاری کردی گئیں۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان اور ان کی تحریک انصاف اس سارے واقعے کو کبھی سندھ پولیس کے کھاتے میں ڈالتی تھی، کبھی اس کے وقوع کی منکر ہوجاتی تھی اور کبھی وزیراعظم اسے کامیڈی قرار دیتے تھے۔ تاہم آج جب آئی ایس پی آر کی طرف سے بیان جاری ہوا تو حکمران جماعت کے رہنما میڈیا کا سامنا نہیں کر پارہے تھے۔
دوسری طرف سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام میں پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف نے کہا کہ
’کراچی واقعے کی انکوائری رپورٹ ایک کور اپ (حقائق کو چھپانا) ہے (جس کا مقصد) جونیئرز کو قربانی کا بکرا بنانا اور اصل مجرموں کو بچانا ہے۔ رپورٹ ریجیکٹڈ (انکوائری رپورٹ مسترد کی جاتی ہے)۔‘
لیکن معروف تجزیہ نگار سلیم صافی نے جنرل قمر جاوید باجوہ کے ایکشن،آئی ایس آئی اور سندھ رینجرز کے افسران کے خلاف کاروائی کو ایک تاریخی فیصلہ اور گیم چینجر اقدام قرار دیا، ان کا کہنا تھا کہ اس میں حکومت اور اپوزیشن کے لئے ایک پیغام پوشیدہ ہے کہ فوج کو جتنا بھی چاہے کسی جماعت سے جوڑا جائے، وہ پوری قوم کا ادارہ ہے جو سب کو ایک نظر سے دیکھتا ہے۔
ذرائع کےمطابق انکوائری میں آئی جی کااغواثابت نہیں ہوا لیکن نامناسب رویےکا ذکرہے۔ رینجر آفیسر سےمراد ڈی جی رینجرز نہیں بلکہ متعلقہ بریگیڈئیر ہیں جبکہ آئی ایس آئی آفیسر بھی بریگیڈیر رینک کے ہیں۔ سلیم صافی کا کہنا تھا کہ آرمی چیف نےقابل ستائش قدم اٹھای اہےجس سےریاستی اداروں کےاپنےدائرہ کارتک محدودرہنے میں مددملے گی۔
معروف تجزیہ نگار حامد میر کا کہنا تھا کہ کراچی واقعے کی انکوائری کے بعد ذمہ دار افسروں کی ٹرانسفر سے فوج نے اپنی غیر جانبداری ثابت کر دی۔ انھوں نے اپنی ٹویٹ میں کہا کہ عزت اور ذلت اللّٰہ کے ہاتھ میں ہوتی ہے انسانوں کے ہاتھوں میں نہیں۔
آئی جی سندھ کے ساتھ جو ہوا اس پر میں نے صرف ایک ٹوئٹ کی اور کچھ لوگوں نے مجھے غلط قرار دینے کے لئے تمام اخلاقی حدود عبور کر لیں آج وہ سب جھوٹے ثابت ہو گئے ان سب کے لئے میں ہدایت کی دعا کرتا ہوں۔
معروف تجزیہ کار اور کالم نگار جناب فاروق عادل اس فیصلے کے اثرات پر بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ فوج نے ایک بڑی جست لگا دی ہے۔ پی ڈی ایم اور خاص طور پر میاں نواز شریف کی طرف سے اختیار کیے گئے سخت مؤقف کے بعد فوج کی طرف سے یہ ایک بڑا قدم ہے جسے اعتماد سازی سے تعبیر کیا جانا چاہیے۔
ان کے مطابق نواز شریف کی پہلی تقریر کے بعد فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے کاکول اکیڈمی میں پاسنگ آؤٹ پریڈ سے خطاب کے موقع پر بھی اسی قسم کے اشارے دیے تھے لیکن وہ اشارے سیاسی درجہ حرارت میں کمی لانے میں ناکام رہے تھے لیکن ماضی کے مقابلے میں یہ ایک رپورٹ زیادہ بڑا قدم ہے۔
موجودہ ماحول میں پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری کی طرف سے اس کا خیر مقدم ایک بڑی پیش رفت ہے تاہم انھوں اس پیش رفت کو مزید اقدامات کے ساتھ منسلک کیا ہے اور کہا ہے کہ ہم توقع کرتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں حقیقی جمہوریت کے استحکام کے لیے بھی اقدامات کیے جائیں گے۔
اس کے باوجود کہ مسلم لیگ کی طرف سے بات چیت پر آمادگی کے اشارے سامنے آئے ہیں لیکن اس کے اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان بے اعتمادی اور تلخی جس سطح پر ہے، اس کے پیش نظر صرف یہی کہا جاسکتا ہے کہ یہ ایک ابتدا ہے۔
کیا یہ رپورٹ حزب اختلاف کی صفوں میں انتشار پیدا کرے گی؟
بلاول بھٹو زرداری کا ردعمل دیکھتے ہوئے اس کی توقع کم ہے لیکن اگر ایسا ہوا تو یہ بدقسمتی ہوگی۔
اس رپورٹ کا ایک دلچسپ پہلو اور بھی ہے۔ جی ایچ کیو نے آئی جی کے سلسلے میں حکومت سندھ کے الزامات تسلیم کر کے اُن لوگوں کے لیے مشکل پیدا کر دی ہے جو یہ تسلیم کرنے پر آمادہ ہی نہیں تھے کہ ایسا کچھ ہوا ہوگا۔ جناب فاروق عادل کہا کہنا ہے کہ اس واقعے میں بہت سے طبقات کے لیے بہت سے سبق ہیں۔