عبید اللہ عابد :
گزشتہ دنوں اپوزیشن کی تحریک کے مقابلے میں وزیراعظم عمران خان نے اپنے تمام اتحادیوں کو اکٹھا کرکے شو آف پاور کا فیصلہ کیا ، انھیں کھانے پر مدعو کیا تاہم یہ شو ناکام رہا، مسلم لیگ ق اور بلوچستان نیشنل پارٹی نے دعوت مسترد کردی۔ اسپیکرپنجاب اسمبلی چوہدری پرویزالہیٰ اوروفاقی وزیرطارق بشیر چیمہ سمیت مسلم لیگ (ق) کے کسی رہنما یا رکن قومی یا صوبائی اسمبلی نے شرکت نہ کی۔
ق لیگ سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر طارق بشیر چیمہ کا کہنا تھا کہ حکومت نے دو سال سے پوچھا تک نہیں ، تحفظات کاازالہ نہیں کیا، مشاورت میں شریک نہیں کیا، کسی فیصلے پر اعتمادمیں نہیں لیا، اب کھانے پرکیوں جائیں؟
انہوں نے کہا کہ چوہدری شجاعت بیمار رہے لیکن وزیر اعظم عمران خان نے رابطہ بھی نہیں کیا، وہ لاہور آتےہیں تو ق لیگ کو کسی معاملےمیں اعتماد میں نہیں لیتے۔
مسلم لیگ ق نے کہا کہ 2سال میں کسی بھی حوالےسے اُنہیں مشاورت میں شامل نہیں کیا گیا، یہاں تک کہ گندم کی قیمت مقرر کرنےکے لیے بھی کوئی رابطہ نہیں کیاگیا۔
ق لیگ کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نے کسانوں کے معاملات، لوکل باڈیزایکٹ اوراس سے جڑے اقدامات میں اعتماد میں نہیں لیا۔ ہمیں پیغام دینے کےلیے آنے والے وزرا بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ق لیگ سے زیادتی ہورہی ہے۔
اس موقع پر چودھری پرویزالٰہی کے فرزند چودھری مونس الہٰی کی ٹویٹ بھی کافی زیربحث آئی جس میں انھوں نے کہا تھا کہ ہمارا پی ٹی آئی سے اتحاد ووٹ کی حد تک ہے۔ ہمارے معاہدے میں عمران خان کے کھانے کھانا شامل نہیں ہیں۔
واضح رہے کہ وزیراعظم عمران خان کے اتحادی جماعتوں کے اعزاز میں ظہرانے میں بی این پی مینگل کے رہنما بھی شریک نہیں ہوئے۔ سردار اختر مینگل واضح طور پر حکومت سے علیحدگی اختیار کرچکے ہیں، وہ تو اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کے جلسوں میں شریک ہوتے ہیں۔
کھانے میں شریک ہونے والوں میں ایم کیو ایم ، مسلم لیگ فنکشنل ، شیخ رشید اور وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال تھے۔ اتحادیوں نے جس طرح وزیراعظم کے سامنے شکایات کے انبار لگائے ، اس سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ اتحادیوں کووزیراعظم کی کمزور پوزیشن کا اندازہ ہوچکا ہے، ویسے تو قاف لیگ اور بی این پی مینگل تحریک عدم اعتماد کی صورت میں اپوزیشن کے ساتھ مل جائیں توعمران خان اکثریت کھو بیٹھیں گے۔ ان کی حکومت اس وقت قاف لیگ اور مینگل کے ووٹوں پر کھڑی تھی۔
بہرحال اس نازک سورت حال کا فائدہ اتحادی خوب اٹھا رہے ہیں ۔ ذرائع کے مطابق اتحادیوں نے ترقیاتی فنڈز اور میگا پروجیکٹ نہ دینے پر تحفظات کا اظہار کیا جبکہ حلقے کے عوام کے مسائل حل نہ ہونے پر احتجاج کیا۔
عمران خان کے نظریے پر تحریک انصاف میں شامل ہونے والی فہمیدہ مرزا نے اندرونِ سندھ کو نظر انداز کرنے پر تحفظات ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اندرونِ سندھ میں وفاقی یا صوبائی حکومتوں نے کوئی میگا پروجیکٹ یا ترقیاتی کام نہیں کیئے۔ انھوں نے کہا کہ اندرونِ سندھ کے عوام کے ساتھ سوتیلوں جیسا سلوک کیا جا رہا ہے۔
اندرونِ سندھ کے عوام کو نظر اندار کرنے پر مسلم لیگ فنکشنل کی جانب سے بھی تحفظات کا اظہار کیا گیا۔پیرپگارا نے وزیرِ اعظم عمران خان سے کہا کہ ہم آپ کے اتحادی ہیں لیکن حکومت اس کا ثبوت نہیں دے رہی۔
ایم کیو ایم نے بھی وزیرِ اعظم عمران خان سے کراچی سے کیئے گئے وعدے پورے کرنے کا مطالبہ کر دیا۔ حتیٰ کہ وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال نے بھی وفاقی حکومت کی جانب سے وعدوں کی تکمیل نہ ہونے پر وزیرِ اعظم عمران خان سے شکایت کی۔
اس موقع پر وزیرِ اعظم عمران خان نے یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ اتحادیوں سے کیئے گئے تمام وعدوں کو پورا کیا جائے گا، میں نے آپ کے تحفظات سن لیے ہیں، جلد ان پر عمل درآمد ہوتا نظر آئے گا۔ ہم تمام لوگ پاکستان کو بہتر بنانے کے لیے یکجا ہیں، آپ کو نظر آ رہا ہے کہ اپوزیشن ملک کو نقصان پہنچانے پر تلی ہوئی ہے۔ اپوزیشن مجھے بلیک میل کرنے کی پوری کوشش کر رہی ہے، آپ سب کو معلوم ہے کہ میں بلیک میل نہیں ہونے والا۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ وزیراعظم عمران خان اس وقت خاصی کمزوری محسوس کررہے ہیں۔ ان کے حامی درست کہتے ہیں کہ ایک طرف گیارہ جماعتیں اور دوسری طرف ایک اکیلا عمران خان۔ تحریک انصاف کے کارکن کسی دوسرے ترنگ میں یہ بات کہتے ہیں لیکن یہ بات عمران خان ، تحریک انصاف کے لئے خطرناک ہے۔ بعض اتحادی واضح طور پر ان کے ساتھ نہیں ہیں اور جو ساتھ ہیں ، وہ بھی ان کے ساتھ کھڑے نظر نہیں آتے۔ ایم کیوایم سمیت تمام اتحادی ایسی پوزیشن پر کھڑے ہیں جہاں سے وہ کسی بھی وقت دوسرے پلڑے میں جاسکتے ہیں۔
مسلم لیگ ق ایک عرصہ سے حکومت سے دوری اختیار کئے ہوئے تھی۔ اس نے مولانا فضل الرحمن کے دھرنے کے وقت سے علیحدہ تشخص قائم کرلیا تھا۔ ایک عمومی تاثر ہے کہ وہ از خود فیصلے نہیں کرتی ۔ یہ دوری بھی اقتدار عطا کرنے والے حلقوں کی حمایت سے ہی اختیار کی ہو گی۔ عمران خان انھیں واپس لانا چاہتے ہیں تو اس کی انھیں بڑی قیمت ادا کرنا ہوگی۔
اخترمینگل بھی بار بار ناراضی کا اظہار کرتے تھے ، بالآخر وہ الگ ہوگئے۔ ظاہر ہے کہ اب انھیں اپوزیشن کے سٹیج سے واپس لانا ممکن نہیں۔
رہے کھانے میں شریک ہونے والے اتحادی، وہ بھی بڑی قیمت حاصل کئے بغیر نہیں ٹلیں گے۔ عمران خان اتحادیوں کی بلیک میلنگ یعنی اس طرز سیاست کا شکار ہوچکے ہیں جس پر وہ تنقید کیا کرتے تھے۔ جب عمران خان کے نظریے پر شامل ہونے والے لوگ بھی عمران خان کو رگید رہے ہوں اور چھوٹے چھوٹے اتحادی بھی عمران خان کے ساتھ واضح طور پر نہ کھڑے ہوں تو پھر سمجھ لینا چاہئے کہ ” قوت متحرکہ “ پلان بی کو شروع کرچکی ہے۔
اگر اتحادیوں کے پیچھے بھی کوئی ” قوت متحرکہ “ ہے تو عمران خان کے پاس اپنی حکومت بچانے کے دو ہی آپشنز ہیں،
اول : وہ اتحادیوں کو راضی کرنے کے لئے وہ سب کچھ کریں جو وہ چاہتے ہیں۔ اگر یہ راہ اختیار کی تو پھر اقتدار کی باقی ماندہ مدت میں یہی کام کرتے رہنا ہوگا۔ وہ بار بار قیمت مانگیں گے اور عمران خان کو بار بار ادا کرنا پڑے گی۔
دوم : مڈٹرم انتخابات ، دوسرا آپشن بہت بڑا رسک ہے، ہوسکتاہے کہ اگلے انتخابات میں وزیراعظم عمران خان کے پاس یہ سب کچھ نہ رہے جو اس وقت ہے۔