جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس مقبول باقر

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف کہانی کا اصل کردار کون؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

پاکستان کی سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف دائر کیے گیے صدارتی ریفرنس کے خلاف مقدمے کے فیصلے میں دو ججز کے لکھے گئے اختلافی نوٹ جاری کر دیے گئے ہیں۔

جسٹس مقبول باقر کا اختلافی نوٹ 68 صفحات اور جسٹس منصور علی شاہ کا اختلافی نوٹ 65 صفحات پر مشتمل ہے۔

خیال رہے کہ سپریم کورٹ نے ان دونوں ججز کے اختلافی نوٹ اس روز جاری کیے جس دن سپریم کورٹ کے جج جسٹس فیصل عرب کی ریٹائرمنٹ کے موقع پر فل کورٹ ریفرنس ہو رہا تھا۔

یاد رہے کہ رواں سال جون میں سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے ان کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں دائر ریفرنس کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔

صدارتی ریفرنس مسترد کرنے کا فیصلہ تو بینچ نے نو کے مقابلے میں ایک کی اکثریت کے ساتھ دیا تھا، تاہم بینچ کے سات ارکان نے یہ حکم بھی دیا تھا کہ ایف بی آر آئندہ دو ماہ میں ٹیکس کے معاملے کی تحقیقات مکمل کرے اور اس کی رپورٹ سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیجی جائے۔

اس معاملے کو ایف بی آر میں بھیجنے سے جن تین ججز نے اختلاف کیا ان میں جسٹس مقبول باقر، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی شامل ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے اختلافی نوٹ میں صدارتی ریفرنس کو بدنیتی پر مبنی قرار دیتے ہوئے کہا کہ صدر مملکت نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس بھیجنے سے پہلے دماغ استعمال نہیں کیا جبکہ جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ جس نے شکایت کنندہ عبد الوحید ڈوگر کو معلومات فراہم کیں وہی کہانی کا اصل کردار ہے۔

جسٹس مقبول باقر نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ ملکی سیاست کے مرکزی دھارے میں شامل کچھ سیاسی جماعتیں اور خفیہ ادارے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو رکاوٹ سمجھتے ہوئے ان کو راستے سے ہٹانا چاہتے تھے۔

جسٹس مقبول باقر نے اپنے اختلافی نوٹ میں کیا کہا؟

اس اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ صدرِ مملکت نے وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے سپریم کورٹ کے جج کے خلاف صدارتی ریفرنس بھیجنے کی تجویز کو خود سمجھ کر فیصلہ نہیں کیا اور اس بارے میں آزادانہ رائے حاصل کیے بغیر یہ معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل کو بھجوا دیا۔

جسٹس مقبول باقر نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا ہے کہ وزیر اعظم بھی کسی شخص کے انکم ٹیکس کے معاملات کی تفصیلات حاصل کرنے کے مجاز نہیں تو پھر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خاندان کی ٹیکس کی معلومات کیسے شکایت کنندہ کو فراہم کی گئیں۔

اُنھوں نے کہا کہ ابھی تک معلوم نہیں ہو سکا کہ عبدالوحید ڈوگر کو ٹیکس کی معلومات کیسے فراہم کی گئیں۔

جسٹس مقبول باقر نے اختلافی نوٹ میں کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر لگائے گئے الزامات بے بنیاد اور بدنیتی پر مبنی ہیں اور انھیں غیر قانونی طریقے سے عہدے سے ہٹانے کی کوشش کی گئی۔

اس اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ اثاثہ جات ریکوری یونٹ (اے آر یو) کے سربراہ شہزاد اکبر نے وحید ڈوگر کی معلومات سے بھی لاعلمی کا اظہار کیا اور شکایت کنندہ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی بیرون ملک جائیداد کے بارے میں اپنی تحقیقاتی رپورٹ یا خبر کسی اخبار میں شائع نہیں کی۔

اُنھوں نے کہا کہ کسی نے شکایت کنندہ کو معلومات فیڈ کیں جو کہانی کا اصل کردار ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ کے اختلافی نوٹ کے مندرجات

جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے اختلافی نوٹ میں وزیر اعظم کے معاونِ خصوصی شہزاد اکبر اور ایسیٹ ریکوری یونٹ کی ٹیم کے خلاف فوجداری کارروائی کرنے کی سفارش کی ہے اور یہ معاملہ چیف جسٹس کے سامنے رکھنے کا کہا ہے۔

اس کے علاوہ غیر قانونی طور پر معلومات دینے پر نادرا اور ایف بی آر حکام کے خلاف بھی کارروائی کرنے کے بارے میں کہا گیا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے اختلافی نوٹ میں کہا کہ جب صدارتی ریفرنس ہی بدنیتی پر مبنی ہے تو پھر ایف بی آر کو تحقیقات کرنے کی ہدایات دینے کی ضرورت نہیں تھی۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ایسیٹ ریکوری یونٹ کی تشکیل پر بھی سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ موجود حکومت نے جو دو بجٹ پیش کیے ہیں، اس میں اس ادارے کے لیے کوئی بجٹ یا گرانٹ مقرر نہیں کی گئی تو پھر یہ ادارہ کیسے کام کر رہا ہے۔

اس اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ کیسے اے آر یو کا سربراہ نادرا، ایف بی آر اور ایف آئی اے کو کسی کام کا حکم دے سکتا ہے جس کی تشکیل کے بارے میں ابھی تک یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ وہ کس قانون کے تحت بنایا گیا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے اختلافی نوٹ میں کہا کہ اے آر یو کے سربراہ نے، جو خود بھی بیرسٹر ہیں، وفاقی وزیر قانون کے زبانی احکامات پر سپریم کورٹ کے ایک جج کے خلاف اثاثوں کے تحقیقات شروع کردیں حالانکہ انھیں معلوم ہے کہ قانون میں زبانی احکامات کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس دائر کرنے کے حوالے سے وزیر قانون نے سمری وزیر اعظم کو بھجوائی جس میں کہا گیا کہ مذکورہ جج سپریم کورٹ کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ہیں اور وزیر اعظم نے اس سمری کی تصدیق اور اس میں لکھے گئے مندرجات کی تحقیقات کروائے بغیر اس کو صدر مملکت کے پاس بجھوا دیا جنھوں نے سپریم کورٹ کے جج کے خلاف شکایت سپریم جوڈیشل کونسل کو بجھوا دی۔

اس اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ صدر مملکت نے وزیر اعظم کی سمری کا اپنی سمجھ کے مطابق جائزہ لیے بغیر ہی اس معاملے کو سپریم جوڈیشل کونسل میں بھجوا دیا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے اختلافی نوٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ان کے اہلخانہ کی جاسوسی کے بارے میں لکھا ہے کہ کوئی بھی ایسا شخص جس کے بارے میں یہ شبہ ہو کہ وہ کسی ملک دشمن یا دہشت گردی کی وارداتوں میں ملوث ہوسکتا ہے تو اس کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے کے لیے بھی مستند ثبوت ہونے کے ساتھ ساتھ ہائی کورٹ کے جج کی اجازت لینی بھی ضروری ہے۔
(بشکریہ بی بی سی اردو)


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں