عفت بتول :
میرا ڈاکٹر صاحب سے وہی واسطہ ہے جو کسی بیٹی کا باپ سے ہوسکتا ہے۔ ان کے ساتھ کام کرنے والے تمام لوگوں سے ان کا رویہ بالکل ایک شفیق اور بارعب جیسا ہوتا تھا۔ وہ بیک وقت شفقت بھی فرماتے اور نصیحت بھی۔
میں بی اے کرنے کے بعد ان کی خدمت میں حاضر ہوئی اپنے چند مضامین لے کر، انھوں نے شاگردی میں لے لیا اور واللہ! حاشیہ تک درست کرایا۔ میرے ایک مضمون کی چار چار مرتبہ اصلاح کرتے اور ایک بار بھی جھنجھلاہٹ کا اظہار نہ کرتے۔ بڑی سے بڑی کوتاہی پر بھی بے حد نرمی سے کہتے:
”بیٹی! اتنی بار سکھایا، پھر بھی یوں لکھتی ہو!“
غیرضروری انگریزی بولنے پر بھی ناراض ہوتے تھے اور فوراً اس کوشش میں لگ جاتے اور تمام سٹاف ممبران کو اس کام پر لگا دیتے کہ انگریزی کا جو لفظ بولا گیا ہے، اس کا اردو لفظ تلاش کرو۔
ایک مرتبہ ایک مضمون موصول ہوا جس میں ” موڈ “ کا لفظ بار بار استعمال ہوا تھا، فوراً میٹنگ بلائی، ہمارے ایک تجربہ کار ساتھی احمد کامران صاحب نے بتایا ” موڈ کی جگہ یہاں ” ترنگ “ کا لفظ استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب فرماتے کہ انگریزی کی غلامی سے نجات نہ پائی تو ہم کبھی ذہنی طور پر آزاد نہیں ہو پائیں گے۔
انھیں دفتر میں نماز باجماعت نہ پڑھنے والے پر گرجتے ہوئے بھی دیکھا۔ وہ کہہ رہے تھے کہ
”میں تمھیں آواز دیتا ہوں تو فوراً حاضر ہوتے ہو تو اذان کی آواز سن کیوں نہیں؟“
دفتر میں کام کرنے والی خواتین جالی کے دوپٹے لے کر، باریک لباس پہن کر دفتر نہیں آسکتی تھیں۔ وہ منع کردیتے تھے۔ خوشبو لگا کر آنے سے بھی منع کرتے اور انداز ایسا تھا کہ ان کی بات کوئی ٹال نہیں سکتا تھا۔
ہمارا معمول تھا کہ مضامین کے عنوان مل کر تحریر کرتے تھے۔ ایک دفعہ ایک صاحب نے اپنے بارے میں لکھ کر بھیجا کہ کس طرح انھوں نے فالج جیسی بیماری کو ہرایا۔ اس مضمون کا عنوان تحریر کرنا تھا، میں نے اس مضمون کا عنوان لکھا:
”اور فالج مفلوج ہوگیا“
ڈاکٹر صاحب بے حد خوش ہوئے۔ انھوں نے اس عنوان پر مجھے انعام بھی دیا۔
سردی گرمی میں کارکنان کا خاص خیال رکھتے، ہر کمرے میں جا کر دیکھتے کہ کوئی کارکن کسی مشکل میں کام تو نہیں کررہا۔
ایک دفعہ میں اپنے کسی گھریلو مسئلے کے باعث پریشان تھی، مجھے بلا کر کہنے لگے” بیٹی کیا بات ہے، تم کچھ پریشان ہو چند دنوں سے؟“
میرا پہلا مضمون شائع ہوا تو وہ مجھ سے بہت زیادہ خوش تھے۔ ڈائجسٹ پکڑ کر سب کو دکھا رہے تھے۔
پنجاب یونیورسٹی میں خواتین کانفرنس تھی، وہ ہمارا دفتری کام نہیں تھا لیکن انھوں نے ہمیں بھیجا۔ اس روز بارش شروع ہوگئی، کوئی ڈرائیور دفتر میں موجود نہیں تھا، ہمیں خود گاڑی چلا کر چھوڑنے چلے گئے۔
وہ بہت بڑے آدمی تھے لیکن اتنے ہی عاجز بھی۔ چھوٹے سے چھوٹا کام کرنے میں عار محسوس نہیں کرتے تھے۔ جن دنوں میں پرچہ دوسرے شہروں میں بھیجا جاتا، ان دنوں کافی کام ہوتا تو خود رسالہ پیکٹوں میں ڈالنا شروع کر دیتے۔
ان کی باتوں میں پاکستان کی محبت چھلکتی تھی۔ اپنی تحریروں میں اور گفتگو میں پاکستان اور نظریہ پاکستان اور اردو زبان سے محبت کا درس دیتے رہتے۔
انھوں نے اردو کی عزت اور قدر کرنی سکھائی۔ اتنا درد شاید ہی کسی کے دل میں اپنی زبان کے بارے میں پایا جاتا ہوگا۔ اردو زبان کی خدمت پر مامور رہے۔ جس طرح کوئی سپاہی سرحدوں کی حفاظت کرتا ہے، انھوں نے اردو زبان کی حفاظت و ترویج کی۔
ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی کو سفر اور سفرنامے بے حد پسند تھے۔ مجھے کئی بار کتابوں کی خریداری کے لئے ساتھ لے جاتے اور کھلی آزادی دیتے کہ کوئی بھی کتاب خرید لوں۔
ہر روز چار بجے چائے پر ہماری ان سے ملاقات ہوتی۔”میٹنگ“ کا لفظ ان کے احترام میں نہیں لکھا۔ مجھے ایک دفعہ دو کیسٹس دیں اور کہا کہ انھیں کاغذ پر اتار لائیں، میں نے ساری رات لگا کر دونوں کیسٹس کو کاغذ پر اتار لیا تو کہنے لگے ”خواتین واقعی بہت محنتی ہوتی ہیں۔“
میں نے کہا: ”ڈاکٹر صاحب! مجھے خاتون تو نہ کہیں“ تو خوب قہقہہ لگا کر ہنسے۔
اردو ڈائجسٹ اپنی نوعیت کا واحد رسالہ ہے جس میں اس دور میں بھی صاف ستھرا ادب پڑھنے کو ملتا ہے۔ یہ سب ڈاکٹر صاحب کی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ اور ان کا لگایا ہوا پودا اب شجر سایہ دار بن چکا ہے۔ ان کے صاحبزادے انہی کے مقصد کو لے کر چل رہے ہیں۔
ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی کا بچھڑنا بہت بڑا نقصان ہے۔
سارے جہاں کی دھوپ میرے صحن میں آگئی
سایہ تھا جس شجر کا وہ مجھ پہ آ گرا
ایک تبصرہ برائے “میرے محسن، میرے استاد ( ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی )”
شکریہ عفت صاحبہ
ڈاکٹر صاحب پر کچھ زیادہ لکھیں تو اچھا ھو گا ھم ان کے بارے میں مذید جاننا چاہتے ہیں۔