رقیہ اکبر چودھری :
کچھ عرصے سے چند ایک دوستوں کی طرف سے میرے مضامین پر اعتراضات کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے کبھی فیس بک وال پر ، کبھی ان باکس اور کبھی مشترکہ دوستوں سے شکایات کی گئی ہیں۔ دوستوں کو اعتراض کہ میں موضوعات کا چنائو ان کی پسند کو مدنظر رکھ کر کیوں نہیں کرتی۔۔
یا جس موضوع پر وہ کبھی ” خامہ فرسائی “ کر چکے ، میں نے انہیں چھیڑنے کی جرات کیوں کی؟
یہ پرانا اور گھسا پٹا موضوع ہی کیوں چنا؟
اور بھی کئی اہم مسائل ہیں ان پہ بات کیوں نہیں کرتیں؟
وغیرہ وغیرہ ۔۔۔
تو دوستو عرض ہے کہ دوسرے اہم موضوعات پر لکھنے کیلئے آپ ہیں ناں۔
آپ کو وہ موضوعات پسند نہیں جن سے میں اپنی فیس بک وال سجاتی ہوں تو ہو سکتا ہے جو آپ کی وال پر لگتا ہے مجھے اس سے بھی زیادہ ناپسند ہو اور میں اسے غیر ضروری اور سطحی سے موضوعات سمجھتی ہوں۔۔۔
مگر میں آپ پہ اعتراض نہیں کرتی کیونکہ مجھے اس کا کوئی حق نہیں۔ ہاں آپ کی رائے سے اتفاق یا اختلاف کرنے کا حق مجھے بھی ہے اور آپ کو بھی لہذا دائرے میں رہ کر آپ بھی اپنی بات مجھ تک پہنچائیں میں بھی پہنچائوں گی۔
تحریر پبلک یا فرینڈز کے بیچ رکھنے کا مقصد بھی یہی ہوتا ہے کہ آپ اپنی رائے کھل کر دینے کا حق رکھتے ہیں۔
اور آپ پھر بھی میری لسٹ میں موجود ہیں تو اس کا مطلب یہی کہ میں شخصی آزادی کی قائل ہوں اور یہی توقع آپ سے بھی رکھتی ہوں۔
اب ہر شخص ہمارے مزاج اور سوچ کا ہو ، ضروری تو نہیں لیکن اگر کوئی صرف اپنے ہم مزاجوں کے جھرمٹ میں رہنے میں آسانی محسوس کرتا ہو تو اسے اس کا بھی پورا پورا حق حاصل ہے۔ البتہ میں اپنی حد تک
گل ہائے رنگ رنگ سے ہے زینت چمن۔۔ کی قائل ہوں یکسانیت سے جلد ہی اکتا جاتی ہوں ، اس لئے ہر مزاج اور سوچ کے لوگوں کے ساتھ مناسب فاصلے کے ساتھ تعلقات رکھتی ہوں۔
ہاں ! جس دن مجھے لگا کہ کسی کے ساتھ سوچ اور نظریات کا ٹکرائو اتنا شدید ہے کہ اب ساتھ چلنا ناممکن ہو گیا تو میں خاموشی سے ایک طرف ہو جائوں گی ،اپنی راہ بدل لوں گی مگر اس کا بھی واویلا نہیں مچائوں گی۔
کس نے اپنی وال کو کیسے استعمال کرنا ہے اس پہ صرف اس کا حق ہے یعنی
” ان کی وال ان کی مرضی “
آپ کو اگر ان کا انتخاب، تحریر ، اسلوب ، سوچ ،یا مزاج پسند نہیں تو پتلی گلی سے نکل جائیں بولے تو ” سٹک لیں “ مجھے ہرگز کوئی اعتراض نہ ہو گا۔
اب آپ اپنی آن لائن خریداری دکھائیں تو ضروری نہیں کہ میں بھی روز خریداری کرنے نکل جائوں اور واپس آ کر سارے شاپنگ بیگز فیس بک کی دیوار پہ لٹکا دوں۔۔ اپنے ڈیزائنر ، ملبوسات اور برینڈڈ پاپوش اگر مجھے دنیا کو دکھانے کا کوئی ارمان دل میں نہیں مچلتا تو آپ کو اعتراض کیوں؟
کوئی دست و اسہال پہ لکھے یا جوئیں مارنے کے طریقے بتائے ، فرنیچر کی رکھوالی سکھائے یا کپڑوں اور گھر کی صفائی ستھرائی کے مشورے دے ، شہد ،اچار بنائے یا پھولوں پھلوں کے فوائد بتائے یہ سب اس کی مرضی اس کا شوق مجھے کوئی حق نہیں کہ میں اس پر اعتراض کروں یا ڈکٹیٹ کروں ،
اسے وہ لکھنے پہ آمادہ یا مجبور کروں جو مجھے پسند ہے اسے نہیں۔ اسی طرح میں ، تعلیمی پالیسی پہ تنقید کروں یا نئی تعلیمی پالیسی وضع کر کے دکھائوں ، معاشی مسائل کی گتھیاں سلجھانے کی ناکام سعی کروں یا سماجی مسائل کی ، عورتوں کو ہدف تنقید بنائوں یا خلاف مزاج و حالات و خواہش مردوں کی بڑائی کے گن گائوں ، کسی دوسرے کو بھی کوئی حق نہیں کہ میری انگلی پکڑ کر چلانے کی کوشش کرے۔
کیا یہ ہمارا حق ہے کہ دوسروں کے معاملات میں مداخلت کریں انہیں اپنی من مرضی پہ چلانے کی خواہش کریں۔۔؟
یہ شخصی آزادی ہے جس کا احترام ہم پر لازم ہے۔