قربان انجم :
اعلیٰ سرکاری مناصب پر فائز لوگوں کے ساتھ معروف صحافی رحمت علی رازی مرحوم کے تعلقات کو دوسرے صحافیوں پر امتیازی حیثیت حاصل تھی۔ سرکاری ، غیرسرکاری دوست اور رشتے دار سب لوگوں سے بے تکلف اور مخلصانہ تعلقات کے قائل تھے۔ اگر کہیں شبہ پڑ جائے کہ فریق ثانی اپنائیت کے بجائے منافقت اور فخر یا احساس برتری سے کام لے رہا ہے تو وہ برداشت نہیں کرتے تھے۔
میں متعدد واقعات کا گواہ ہوں مگر انھوں نے حسین حقانی صاحب کی جو درگت بنائی تھی، اسے یادگار حیثیت حاصل ہے۔ ان دنوں پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں محمد نوازشریف کے مشیر تھے۔ چند سینئر صحافیوں کو وزیراعلیٰ نے اپنے کوٹے سے پلاٹ دیے مگر جناب حقانی الاٹمنٹ کی راہ میں حائل ہورہے تھے، صحافیوں اور صوبائی حکومت کے ذمہ داروں کے درمیان غلط فہمیاں بلکہ نفرت اور اشتعال پیدا کرنے کا گھنائونا کھیل کھیل رہے تھے۔
صحافیوں کو یقین دلاتے کہ آپ کو پلاٹ ملنا بے حد دشوار ہے تاہم فکر نہ کریں ، میں آسانیاں پیدا کررہا ہوں۔ جب کہ وہ فی الحقیقت آسانیوں کو مشکلات میں تبدیل کررہے تھے اور متعلقہ صحافی اس حقیقت حال سے آگاہ تھے۔
ایک روز چند صحافی یہ معاملہ سمجھنے اور سمجھانے کے لیے حسین حقانی سے ملاقات کے لئے ان کے دفتر پہنچ گئے مگر انھوں نے سرد مہری کا مظاہرہ کیا۔ اکثر کہا کرتے کہ میں صحافیوں کو کیونکر نظر انداز کرسکتا ہوں، وہ تو میرے اپنے قبیلے کے لوگ ہیں مگر صحافیوں کا تاثر ہمیشہ اس کے برعکس رہا۔
اس روز بطور خاص انھوں نے ” افسر شاہی “ کا ایسا مظاہرہ کیا جس میں نخوت نمایاں تھی۔ دروازے پر مامور اہلکار نے بتایا، صاحب اس وقت ملاقات نہیں کرسکیں گے کیونکہ وہ ضروری میٹنگ میں مصروف ہیں۔ ان کی اپنی برادری کے لوگوں نے انتظار کو شدت سے محسوس کیا۔ اس دوران دیکھنے میں آیا کہ حقانی صاحب کے کمرے کے باہر دو بلب باری باری روشن ہوتے تھے۔ سرخ اور سبز۔
سرخ بلب روشن ہونے کا مطلب تھا کہ صاحب غیرمعمولی اور اہم مصروفیات کے باعث کسی سے ملیں گے نہیں۔ منتظر صحافیوں کے لیے یہ منظر نہایت ذلت آمیز اور اشتعال انگیز تھا۔
رازی صاحب نے اپنے دوستوں سے کہا:
چلو اجازت کے بغیر اندر چلتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی وہ اٹھے اور دروازے کو ہاتھ سے نہیں پائوں کی ٹھوکر سے کھولا۔ جب صحافی اندر گئے تو یہ دیکھ کر ان کے اشتعال میں کئی گنا اضافہ ہوگیا کہ وہ کسی سے میٹنگ نہیں کررہے تھے بلکہ فون پر کسی جاننے والی کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف تھے۔
ہر صحافی نے انھیں اپنے اپنے انداز میں ڈانٹ پلائی۔ میں نے اشتعال میں آ کر کہا:
یہ باہر تم نے ریڈ لائٹ ایریا کیوں قائم کر رکھا ہے؟( میرا اشارہ دروازے پر نصب سرخ بتی کی طرف تھا ) مگر رازی صاحب نے انھیں جو کھری کھری سنائیں ، وہ شائد کوئی بھی شریف آدمی پوری عمر نہ بھلا سکے گا مگر حقانی کے مزاج شناس جانتے ہیں ، وہ بے مزہ ہونے کی ضرورت کم ہی محسوس کرتے ہیں۔
انھوں نے اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کا ذکر معروف کالم نگار ہارون الرشید سے کیا اور کہا کہ میں استعفیٰ دیتا ہوں کیونکہ میں اپنی توہین مزید برداشت نہیں کرسکتا۔ ہارون الرشید نے اس کے جواب میں کہا:
” رازی صاحب نے آپ کو تھپڑ تو نہیں مارا کیونکہ وہ تو تھپڑ سے ہی آپ جیسے لوگوں کا استقبال کیا کرتے ہیں۔“
( یہ واقعہ جناب قربان انجم کی یادداشتوں سے لیا گیا ہے )