عاصمہ شیرازی :
سیاست میں ہر دروازہ کھلا رکھا جاتا ہے۔ یہ پہلی بار ہے کہ ہر طرف سے دروازے بند کر دیے گئے ہیں۔ اپوزیشن حکومت سے اور حکومت خود سے بات کرنے کو تیار نہیں۔ اسٹیبلشمنٹ خود سے نظریں چُراتی دکھائی دے رہی ہے۔
ایوان اقتدار میں سوائے لفظی گولہ باری اور چند سستے ترجمانوں کی روایتی گالم گلوچ کے کچھ بھی دستیاب نہیں۔ نتیجتاً اب سیاست ہی نہیں بلکہ ریاست بھی بند گلی میں داخل ہو چکی ہے۔
2018 کے عام انتخابات سے قبل ایک سٹیج سج چُکا تھا۔ سٹیج کے کردار انتخابات سے قبل ہی وجود میں آ چکے تھے۔ پاناما مقدمہ، نواز شریف کی اقامہ پر رخصتی اور پھر جی ٹی روڈ پر ن لیگ کی بریکیں ایسی لگیں کہ ’ووٹ کو عزت دو‘ کا نعرہ ترتیب پا گیا۔ یہ سب یقیناً حادثاتی طور پر ہوا مگر یہ حادثہ ہو گیا۔
ن ’نظریاتی‘ ہو گئی، ڈھائی سال کا بیانیہ پہلے سے نظریاتی جماعتوں میں ضم ہوا اور پاکستان جمہوری تحریک نے جنم لے لیا۔ پیپلز پارٹی اور دیگر چھوٹی بڑی دائیں اور بائیں ہاتھ کی جماعتوں نے ’نظریاتی‘ میاں صاحب کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور اب یہ ’بیانیہ‘ جی ٹی روڈ پر چڑھ چکا ہے۔
پاناما کے بعد میاں نواز شریف نے بھانپ لیا تھا کہ بات ’جہاں سے چلی ہے وہاں نہ تو واپسی کی گنجائش ہے اور نہ ہی دوبارہ ویسا رشتہ اُستوار ہو پائے گا جیسا ماضی میں رہا ہے۔
عدلیہ سے یہ معاملہ پردہ نشینوں کی طرف شفٹ ہوا اور پھر ن لیگ سے یہ سوال بار بار پوچھا جانے لگا کہ آپ کرداروں کے نام کیوں نہیں لیتے؟ اب جبکہ کرداروں کے نام بھی زبان پر آچُکے تو بات دور تلک نکل گئی ہے۔ نام نہ لینے اور لینے کے درمیان نہ جانے کہاں کہاں کتنا کتنا وقت لگا ہو گا، کتنی ملاقاتیں اور کیا کیا وعدے ہوئے ہوں گے مگر وہ نا ہو سکا اور اب یہ عالم ہے کہ واپسی کی گنجائش دکھائی نہیں دیتی۔
دوسری طرف اسلام آباد سے پنڈی کے وعدے اور قسمیں، ساتھ نہ چھوڑنے کے عہد و پیمان بھی ہوئے ہوں گے مگر کہیں کسی جگہ یہ حقیقت بھی تسلیم کی گئی کہ جانے والا اپنی جگہ اہم ہے لہٰذا سیاست سے نہ سہی ملک سے باہر بھیج کر سیاسی اور غیر سیاسی پچ ساز گار بنا دی جائے۔
نواز شریف کو جانا تھا چلے گئے مگر کپتان کے لیے یہ انہونی کیسے ’ہونی‘ ہوئی؟ اُسی ’ہونی‘ نے سیاسی طور پر تحریک انصاف کی حکومت کو ایسی گزند پہنچائی کہ خان صاحب بل کھاتے رہ گئے مگر آج تک اس غم سے نکل نہیں پائے۔
یہ بات اہم ہے کہ اسلام آباد راولپنڈی کی کبھی مجبوری نہیں بنا۔ ایک دوسرے سے جُڑے مفادات یا کچھ اور۔۔۔ جُڑواں شہر پہلی بار ایک صفحے پر تھے مگر صفحہ ہی اپوزیشن کے ہاتھ آ گیا، عوام کے ہاتھ آ گیا۔ سول اور ملٹری ہم آہنگی شاید اب بھی آئیڈیل ہے مگر تحریر کس کے ہاتھ یہ معلوم نہیں۔
پہلے اسٹیبلشمنٹ سیاسی کرداروں کو کٹھ پُتلی بناتی تھی اب سیاست دان آہستہ آہستہ ڈوریاں تھام رہے ہیں۔ پہلے طاقت کے مراکز اپنے مطابق سب کو چلاتے تھے اب جہاں دیدہ سیاست دان گیند اپنی ڈی میں لے آئے ہیں۔ پہلے فیصلے بند کمروں میں ہوتے تھے مگر اب اُنھی فیصلوں کے خلاف چوک چوراہوں پر احتجاج ہو رہا ہے۔ پہلے جو سیاست دان کندھوں کی جانب اشارے کر کے بات کرتے دکھائی تھے اب ٹی وی چینلوں پر بیٹھ کر بڑے اعتماد سے بات کررہے ہیں۔
اپوزیشن اسٹیبلشمنٹ کے خلاف نعرہ زن ہے تو حکومتی ترجمان اور خود جناب وزیراعظم ماضی میں اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں ناچنے والی کٹھ پُتلیوں کو طعنے دیتے دکھائی دیتے ہیں۔ وزیراعظم خفیہ ملاقاتوں پر بھی خفا خفا سے ہیں مگر اس سارے کھیل میں کچھ دوستی اور کچھ دشمنی میں، کچھ چاہتے اور کچھ نہ چاہتے ہوئے ’غیر سیاسی کرداروں‘ کے ’سیاسی کردار‘ پر ہی بات ہو رہی ہے۔ پنجاب کی جی ٹی روڈ ہو، بلوچستان یا خیبر پختونخواہ کے دور دراز علاقے۔۔۔ آوازیں بڑھ گئی ہیں۔
میدانِ سیاست میں زیرک سیاست دان اپنی ٹائمنگ کے اعتبار سے میچ خود مقرر کر رہے ہیں۔۔ کب، کہاں، کتنا سکور کرنا ہے یہ بھی خود طے کر رہے ہیں۔ اصل امتحان اب اہل اختیار کا ہے کہ کھیل کھل کر کھیلنے دیں گے یا پچ ہی اُکھاڑیں گے۔ دونوں صورتوں میں تبدیلی تو آئے گی مگر کس کی پسپائی اور کس کی چڑھائی ہو گی؟
( بشکریہ بی بی سی اردو)