عبید اللہ عابد :
عمران خان حکومت پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کو توڑنے میں ناکام ہوگئی۔ کم ازکم پہلی کوشش میں ایسا ہی ہوا ہے۔ کراچی جلسے کے بعد تمام وفاقی وزرا پاکستان پیپلزپارٹی سے درخواست کرتے رہے کہ وہ مسلم لیگ ن کے سربراہ نواز شریف کے ریاست مخالف بیانیہ سے علیحدگی اختیار کرلے، بعض وزرا نے امیدیں بھی ظاہر کی تھیں کہ پیپلزپارٹی سمجھ داری کا مظاہرہ کرے گی۔
وزیراعظم عمران خان حکومت کے حامی بعض تجزیہ نگار بھی خاصا جوڑ توڑ کرکے بتارہے تھے کہ جب آصف علی زرداری نے ملک کے حساس اداروں کے خلاف تقریریں کی تھیں تو نواز شریف نے ان کا ساتھ چھوڑ دیا تھا، اب نوازشریف نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی پر براہ راست تنقید کی ہے، تو آصف علی زرداری پرانا بدلہ لیں گے اور بلاول کو کوئٹہ جلسہ میں شرکت سے روک دیں گے حتیٰ کہ بلاول بھٹو زرداری ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب بھی نہیں کریں گے۔
یہ سارے حساب کتاب غلط ثابت ہوئے، تحریک انصاف کے وزرا کی درخواستیں بلاول بھٹو زرداری نے مسترد کردیں۔ پیپلزپارٹی کے چئیرمین نے نہ صرف خطاب کیا بلکہ واشگاف انداز میں کہا کہ جس کل جماعتی کانفرنس میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ قائم ہوئی، وہ پیپلزپارٹی ہی کی بلائی ہوئی کل جماعتی کانفرنس تھی۔ ایسے میں وہ کیسے پیچھے ہٹ سکتے ہیں۔ وہ آگے تو بڑھ سکتے ہیں، پیچھے نہیں ہٹ سکتے۔
بلاول نے کہا کہ عمران خان فوج سمیت ملک کے تمام اداروں کو ٹائیگر فورس بنانا چاہتے ہیں۔ ہم اس کی اجازت نہیں دیں گےاس لیے چاہتے ہیں کہ ان کا مستقبل میں کوئی سیاسی کردار نہ رہے۔ واضح رہے کہ بلاول بھٹو زرداری گلگت بلتستان میں اپنی پارٹی کی انتخابی مہم میں مصروف ہیں، اس لئے انھوں نے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کیا۔ انھوں نے کہا کہ میں کٹھ پتلی نہیں اور نہ ہی کسی کے اشارے پر چلتا ہوں۔
اس سے پہلے پاکستان مسلم لیگ ن کی سینئر نائب صدر مریم نواز نے کسی کو مخاطب کئے بغیر کہا کہ اپنے حلف اور آئین کی پاسداری کرو اور سیاست سے دور ہوجائو، جعلی حکومتیں مت بنائو۔ کٹھ پتلیوں کا تماشا اب ختم ہونے والا ہے۔ یادرہے کہ مریم نواز نے اس سے پہلے ایک بیان کہا تھا کہ عمران خان کی حکومت پانچ سال تو دور کی بات 2020 بھی پورا نہیں کرسکے گی۔
سوال یہ ہے کہ کیا واقعی عمران خان کی حکومت خطرے میں ہے؟
یہ ان دنوں سب سے زیادہ پوچھا جانے والا سوال ہے۔ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لئے میں نے حکومتی وزیروں کے بیانات ، الفاظ اور لہجوں کو دیکھتا، سنتا اور محسوس کرتا ہوں۔ حکومت کے حامی تجزیہ نگاروں کے تجزیے بھی پڑھتا ہوں۔ ادھر ادھر سے بھی خبریں تلاش کرتا ہوں۔ اس سب کچھ کے بعد ، نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ حکومت کے لئے حالات اچھے نہیں ہیں، وہ جو ایک صفحہ والے دعوے ہیں، وہ درست ہیں لیکن اس طرح درست نہیں جیسے تحریک انصاف کے کارکنان سمجھ رہے ہیں۔
کم ازکم اس حکومت کا سب سے بڑا عہدے دار یہ سمجھتا ہے کہ جن کے وجود سے ” صفحہ ہستی “ میں وزن ہے، وہ اس صفحہ پر موجود رہنے پر مجبور ہیں۔ یہ بات کسی حد تک درست ہے لیکن زیادہ دنوں تک درست نہیں رہے گی، کیونکہ محبت میں جب مجبوری آجائے تو پھر محبت اسی دن ختم ہو جاتی ہے، ہاں ! مجبوری کا تعلق چلتا ہے کچھ دن لیکن زیادہ دن نہیں۔
شیخ رشید کے الفاظ اور لہجہ بھی دیکھنے اور سننے کے لائق ہوتا ہے۔ ان کا حالیہ بیان جو آج کے اخبارات میں بھی شائع ہوا ہے، اس میں کافی زیادہ تبدیلی محسوس ہورہی ہے۔ وہ جس تیقن سے عمران خان حکومت کے مضبوط ہونے کی بات کرتے تھے، جس یقین سے مستقبل کی خبریں دیا کرتے تھے، اب وہ قطعیت کہیں نظر نہیں آرہی ہے۔
شیخ صاحب کے چند جملوں پر غور کیجئے گا:
” وزیراعظم کی پوری کوشش ہوگی کہ نوازشریف کو واپس لایاجائے، اس میں کتنے کامیاب ہوتے ہیں یہ آنے والا وقت بتائے گا۔“( شیخ صاحب نے کوئی پیش گوئی کرنے سے گریز کیا، ورنہ وہ کچھ عرصہ پہلے تک روزانہ پیش گوئی کرتے تھے جس میں اپوزیشن بالخصوص نوازشریف کا مستقبل تاریک بتایا کرتے تھے، لیکن کچھ عرصہ سے ان کی اپوزیشن کے خلاف پیش گوئیاں بند ہیں۔ )
شیخ رشید نے مزید فرمایا :
” جو لوگ خود کو بہت پہلوان سمجھ رہے ہیں وہ ٹارزن کی پکڑ میں ہوں گے اور 31 دسمبر سے 20 فروری تک جھاڑو پھر جائے گی، ملکی سیاست میں اکھاڑ پچھاڑ ہوسکتی ہے۔“( اس میں انھوں نے واضح نہیں کیا کہ کون لوگ ٹارزن کی پکڑ میں ہوں گے، اپوزیشن والے تو پہلے ہی جھاڑو کے نیچے ہیں، ایسے میں ایک ہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ حکومت والے بھی اس جھاڑو کے نیچے آئیں گے )
اگر حکومت والے جھاڑو کے نیچے آئیں گے تو کیوں؟
وزیراعظم عمران خان نے جو حالیہ انٹرویو اے آر وائی چینل کو دیا ہے، اس میں انھوں نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی اپوزیشن رہنمائوں سے ملاقاتوں کو غلط قرار دیا ہے۔ بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق ان کی یہ بات دراصل ایک طعنہ تھی۔ محبوب نے یہ طعنہ سنا تو اس کا دل برا ہوگیا۔ ویسے تو اس سے پہلے بھی دونوں کے درمیان کچھ بہت اچھا نہیں چل رہا تھا لیکن اس طعنہ نے معاملہ زیادہ خراب کردیا۔ شیخ رشید کی ٹارزن والی اور جھاڑو پھرنے والی بات کا اس طعنہ کا جواب سمجھ لیا جائے تو سوال کا جواب بھی مل سکتا ہے۔
چنانچہ اب شیخ رشید کی جھاڑو پھرنے والی بات کو دوبارہ پڑھیں تو سمجھ آجائے گی پوری بات۔ محبوب کے اردگرد رہنے والے بتاتے ہیں کہ واقعی محبوب کا موڈ خراب ہے ان دنوں۔ موڈ کی خرابی سدھار کی طرف نہیں لے کر جائے گی بلکہ معاملات کوئی اور ہی رخ اختیار کریں گے۔ معاملات جو بھی رخ اختیار کریں ، اس کے نتیجے میں وزیراعظم عمران خان کے ہاتھ میں کچھ نہیں آئے گا۔
یہی وجہ ہے کہ مریم نوازاور ان کے والد نوازشریف جارحانہ انداز اختیار کئے ہوئے ہیں۔ بیٹی بلواسطہ بات کرتی ہے ، باپ بلا واسطہ۔ ان پر پوری طرح آشکار ہوچکا ہے کہ اب ایک صفحہ والی بات نہیں رہی۔ اب تو پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے پہلے اسٹیبلشمنٹ کو طعنہ دیا کہ ” پہلے بھی کہا تھا کہ ملک ان نااہلوں کے حوالے نہ کرو، جعلی حکمرانوں کے خلاف ہماری تحریک اور زور سے آگے بڑھے گی۔ “ پھر مولانا نے کھلی کھلی پیشکش کردی کہ ” آج بھی اسٹیبلشمنٹ جعلی حکومت کی پشت پناہی سے دست بردار ہوجائے تو اسے اپنی آنکھوں پر بٹھانے کے لیے تیار ہیں ۔ ہم اداروں کے دشمن نہیں، اداروں کا احترام کرتے ہیں۔“
معاملات کس طرف جارہے ہیں ، مولانا فضل الرحمن کی ان باتوں سے بخوبی واضح ہورہا ہے۔ معاملات کی رفتار فطری انداز میں آگے بڑھ رہی ہے۔