جسٹس قاضی فائزعیسیٰ

جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کیس کا تفصیلی فیصلہ، ماہر قانون کی نظر میں

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر محمد مشتاق :

تفصیل سے لکھنے کی فرصت نہیں ہے ۔ اس لیے سردست مختصر تبصرہ پیشِ خدمت ہے۔

اول ۔ پہلے اس ” حکم نامے“ کے بنیادی نکات یاد کیجیے جو سپریم کورٹ نے 19 جون 2020ء کو جاری کیا تھا۔ اس حکم نامے کی رو سے تمام دس جج صاحبان نے بالاتفاق جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحب کے خلاف ریفرنس خارج کردیا تھا۔ البتہ جسٹس یحیٰ آفریدی کا موقف یہ تھا کہ ریفرنس کے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسی صاحب کی درخواست قابلِ سماعت نہیں تھی۔

تاہم چونکہ انھوں نے بار کونسل اور دیگر درخواستوں کو قابلِ سماعت تسلیم کیا تھا، اس لیے دیگر نو جج صاحبان کے ساتھ انھوں نے بھی کیس کے میرٹس پر فیصلہ سناتے ہوئے ان کے ساتھ ریفرنس کو خارج کرنے پر اتفاق کیا تھا ۔ پھر ان دس جج صاحبان میں تین ( جسٹس مقبول باقر، جسٹس سید منصور علی شاہ اور جسٹس یحیٰ آفریدی) نے تو ریفرنس خارج کرنے پر ہی اکتفا کیا لیکن سات جج صاحبان نے اس کے بعد جسٹس صاحب کی اہلیہ اور بچوں کے ٹیکس وغیرہ کے مسائل پر الگ سے حکم بھی جاری کیا تھا۔

دوم : اب تفصیلات کےلیے تین الگ فیصلے لکھے گئے ہیں:
جسٹس عمر عطا بندیال نے بنیادی فیصلہ لکھا ہے جس میں سات جج صاحبان کے موقف کے تفصیلی دلائل پیش کیے گئے ہیں ،

ان سات جج صاحبان میں ایک جسٹس فیصل عرب بھی تھے جنھوں نے اس تفصیلی فیصلے سے اتفاق کرتے ہوئے اپنے کچھ الگ دلائل بھی لکھے ہیں ،

اسی طرح جسٹس یحیٰ آفریدی نے اپنے فیصلے میں اس بات کی وضاحت کی ہے کہ وہ کیوں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست کو ناقابلِ سماعت سمجھتے ہیں لیکن دوسری درخواستوں کو قابلِ سماعت سمجھتے ہوئے ریفرنس کو خارج کررہے ہیں۔

میری سمجھ میں یہ نہیں آیا کہ جن تین جج صاحبان نے صرف ریفرنس خارج کرنے تک خود محدود کیا تھا، ان کی جانب سے تفصیلی فیصلہ کیوں نہیں آیا؟ انھوں نے اس بات کی وضاحت کیوں ضروری نہیں سمجھی کہ وہ کیوں حکم نامے کے اس حصے سے متفق نہیں ہیں جس میں جسٹس صاحب کی اہلیہ اور بچوں کی جائیداد اور ٹیکس کے معاملے کو ایف بی آر کی طرف بھیجا گیا؟

اگرچہ جسٹس یحیٰ آفریدی کے فیصلے میں اس کی کچھ وضاحت مل جاتی ہے لیکن اس فیصلے کا بنیادی فوکس اس پر ہے کہ وہ کیوں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست کو ناقابلِ سماعت اور دیگر درخواستوں کو قابلِ سماعت سمجھ رہے ہیں اور کیوں وہ ریفرنس کو خارج کررہے ہیں؟ اسی وجہ سے ان کے اس فیصلے پر دیگر دو جج صاحبان، جسٹس مقبول باقر اور جسٹس سید منصور علی شاہ کے دستخط بھی نہیں ہیں۔

سوم ۔ بہرحال اصل فیصلہ جسٹس عمر عطا بندیال کا لکھا ہوا ہے۔ اس میں ایک اہم نکتہ یہ ذکر کیا گیا ہے کہ جسٹس صاحب پر قانون کی رو سے ہرگز یہ لازم نہیں تھا کہ وہ اپنے گوشواروں میں اپنی اہلیہ یا بچوں کے اثاثہ جات کا ذکر کرتے اور اس لیے ان کے خلاف اس بنا پر مس کنڈکٹ کا الزام قطعاً بے بنیاد ہے۔

اس قانونی حقیقت کی وضاحت کے ساتھ ساتھ البتہ یہ بات ذکر کی گئی ہے کہ جج کے اعلیٰ منصب اور مقام کی وجہ سے اس پر خواہ قانوناً اپنی اہلیہ یا بچوں کے حوالے سے ذمہ داری نہ عائد ہوتی ہو لیکن اعلیٰ اخلاقی اقدار کا تقاضا یہ ہے کہ وہ حتی الامکان اپنے خاندان کے اثاثہ جات سے باخبر رہے اور ان پر نظر رکھےاور اسی طرح خواہ قانوناً جج کے خلاف ریفرنس سے ان اثاثہ جات کا کوئی تعلق نہ بنتا ہو لیکن معاشرے میں جج کے مقام کو مدنظر رکھتے ہوئے مناسب یہ ہے کہ اس معاملے میں قیاس آرائیوں کی گنجائش ہی نہ رہنے دی جائے۔ مسز عیسیٰ کے متعلق حکم نامے کے جزو کا جواز یہی اخلاقی پہلو بنا ہے، نہ کہ کوئی قانونی اصول۔ حکم نامے پر اپنے تبصرے میں ہم نے لکھا تھا:

” اس کا آسان الفاظ میں مطلب یہ ہے کہ جج صاحب کے خلاف حکومت کی جانب سے دائر کردہ ریفرنس ختم ہوگیا ہے اور حکومت کی یہ بات عدالت نے مسترد کردی ہے کہ بیوی اور بچوں کی پراپرٹی اپنے کاغذات میں نہ دکھا کر جج صاحب نے کوئی مس کنڈکٹ کیا ہے۔

مزید یہ کہ اس نے حکومت کی اب تک کی کارگردگی اور پھرتیاں یکسر مسترد کرکے دوبارہ حکومت پر بارِ ثبوت ڈال دیا ہے کہ وہ دکھائے کہ جج صاحب کی بیوی اور بچوں کی اس جائیداد کی وجہ سے جج صاحب کے خلاف کوئی کیس کس طرح بنتا ہے؟ اس ضمن میں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ حکومت اب جاسوسی اور غیر قانونی طریقے اختیار نہیں کرسکے گی۔

یہ بات بھی اہم ہے کہ ان سات جج صاحبان نے انتہائی صراحت کے ساتھ کہا ہے کہ اہلیہ اور بچوں کی جائیداد کا معاملہ سپریم جیوڈیشل کونسل میں جسٹس صاحب کے خلاف ریفرنس سے الگ ہے، یعنی اگر اہلیہ یا بچوں کے خلاف ٹیکس کے قانون کی رو سے کوئی کارروائی ممکن بھی ہوجائے تو اس کا لازماً مطلب یہ نہیں ہوگا کہ جج صاحب اس کےلیے ذمہ دار ہیں۔ یہ اس حکم نامے کا دوسرا اہم ترین نکتہ تھاجسے بہت سے ٹی وی اینکرز اور مبصرین نہیں سمجھ سکے۔ “

تفصیلی فیصلے نے ہمارے اس موقف پر مہرِ تائید ثبت کی ہے، وللہ الحمد۔

چہارم : جہاں تک ریفرنس دائر کرنے میں بد نیتی کا تعلق ہے، تو عدالت نے واضح کیا ہے کہ قانوناً بدنیتی دو قسموں پر مشتمل ہوتی ہے: بدنیتی بطورِ امر قانونی (malice in law) اور بدنیتی بطورِ امرِ واقعہ (malice in fact)۔

عدالت نے قرار دیا ہے کہ یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر کام جو قانوناً غلط ہو وہ لازماً بدنیتی پر ہی مبنی ہو۔ بطورِ امرِ قانونی بدنیتی ثابت کرنے کےلیے یہ دکھانا ضروری ہوتا ہے کہ قانون کی جو خلاف ورزی کی گئی وہ اتنی واضح اور اتنی واشگاف ہو کہ اس کی کوئی توجیہ ممکن ہی نہ ہو۔ عدالت نے گیارہ ایسے نکات (ان کا ذکر آگے آرہا ہے) بتائے ہیں جن سے یہ بدنیتی بطورِ امرِ قانونی بلاشک و شبہ ثابت ہوجاتی ہے۔

پنجم : اس کے بعد کا سوال یہ تھا کہ کیا بدنیتی بطورِ امرِ واقعہ بھی ثابت ہوئی؟
عدالت کا موقف یہ ہے کہ اس کےلیے معیارِ ثبوت زیادہ کڑا ہے اور اسے ثابت کرنا زیادہ مشکل ہے۔ اس بدنیتی کے ثبوت کےلیے جتنے شواہد اور دلائل دیے گئے، ان میں سے ہر ایک میں عدالت نے اپنے طور پر کمزوری دکھانے کی کوشش کی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ فیصلے کا یہ حصہ انتہائی کمزور اور پھسپھسا ہے۔

تفصیل کا موقع نہیں ہے لیکن عدالت نے اس امر پر بھی غور نہیں کیا کہ ان میں سے ہر ہر امر خواہ الگ الگ اس بات کےلیے کافی نہ ہو کہ اس سے بدنیتی بطورِ امرِ واقعہ ثابت ہو، لیکن جب یہ سارے امور ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں اور ایک سیریز کا حصہ ہیں، تو ان سب کو ملا کر دیکھنے کی ضرورت ہے اور جب ایک دفعہ ان سارے امور کو اکٹھا کرکے دیکھا جائے تو بدنیتی بطورِ امر واقعہ ایک کھلی اور واضح حقیقت کی طرح سامنے آجاتی ہے۔

ششم ۔ مثلاً فیض آباد دھرنے کے متعلق جسٹس صاحب کے فیصلے میں ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی کے متعلق ریمارکس پر دونوں پارٹیوں کی جانب سے سخت ترین ردِ عمل سامنے آیا۔ عدالت نے ایم کیو ایم کی جانب سے درخواست ، پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے دے گے ابتدائی موقف ، عدالت میں سابق اٹارنی جنرل کے بےہودہ ریمارکس اور فردوس عاشق اعوان کی بے ہودہ پریس کانفرنس میں سے ہر ایک کو الگ الگ لے کر انھیں بدنیتی کے ثبوت کےلیے ناکافی قرار دیا لیکن یہ نہیں دیکھا کہ یہ سب ایک سیریز کا حصہ ہیں۔

عدالت نے یہ تو کہہ دیا کہ ایم کیو ایم کی حیثیت حکومت میں ایک معمولی حصے دار کی ہے (حالانکہ یہ بات بھی درست نہیں ہے) لیکن یہ نہیں دیکھا کہ اسی ایم کیو ایم کی جانب سے جو شخص حکومت میں وفاقی وزیرِ قانون کے منصب پر فائز ہے، اسی وزیرِ قانون نے جسٹس صاحب کے خلاف ریفرنس بنانے میں بنیادی کردار ادا کیا!

یہ بات نظرانداز کرنے پر مزید حیرت اس وجہ سے بھی ہوتی ہے کہ آگے عدالت نے خود تفصیل سے اور مختلف پیرایوں میں اس بات کو واضح کیا ہے کہ جسٹس صاحب کے خلاف ریفرنس کےلیے تمام کارروائی وزیرِ قانون نے کی حالانکہ دستور اور قانون کی رو سے یہ کام صدر کی جانب سے وزیراعظم کے مشورے کے بعد ہونا چاہیے تھا! کیا اس کے باوجود بھی malice in fact ثابت نہیں ہوا؟

بہرحال بدنیتی کی ایک قسم، malice in law ، ثابت ہونے پر ریفرنس تو خارج کیا گیا لیکن بدنیتی کی دوسری قسم، malice in fact ، ثابت نہ ہونے پر بدنیتی کے مرتکب ان تمام افراد کو ایک قسم کا تحفظ بھی فراہم کیا گیا۔ یہ اس فیصلے کا سب سے مایوس کن پہلو ہے۔

ہفتم : فیصلے کا سب سے اہم حصہ وہ ہے جہاں عدالت نے تفصیلی بحث کے بعد نتیجہ نکال کر سامنے رکھ دیا ہے کہ ریفرنس کے معاملے میں حکومت کی جانب سے قانون کی واشگاف اور صریح ترین خلاف ورزیاں کیا ہیں۔ عدالت نے درج ذیل گیارہ خلاف ورزیوں کی فہرست بنائی ہے:

الف ۔ ریفرنس دائر کرنے کےلیے صدر یا وزیراعظم کی جانب سے کوئی اختیار نہیں دیا گیا بلکہ ساری کارروائی وزیرِ قانون کی ایما پر ہوئی؛

ب ۔ ریفرنس دائر کرنے سے قبل مسز عیسیٰ کو ٹیکس کے قانون کے تحت کوئی نوٹس نہیں دیا گیا؛

ج ۔ یہ فرض کیا گیا کہ جسٹس صاحب اس کے پابند ہیں کہ وہ اپنے گوشواروں میں اپنی اہلیہ اور بچوں کی جائیداد بھی دکھائیں حالانکہ وہ مالیاتی طور پر خودمختار ہیں (عدالت نے تفصیل سے واضح کیا ہے کہ قانون کی یہ مفروضہ تعبیر کیوں غلط ، یا کم از کم متنازعہ ہے اور یہ بھی دکھایا ہے کہ اس تعبیر کو اپنانے کےلیے ریفرنس دائر کرنے والوں کے پاس ایک اسسٹنٹ کمشنر کے لکھے گئے نوٹ کے سوا کوئی قانونی سند نہیں تھی!)؛

د ۔ منی لانڈرنگ کا الزام لگانے کےلیے کوئی ثبوت موجود نہیں تھا اور اس کے باوجود اس الزام کو شامل کیا گیا؛

ھ ۔ اسی طرح زر مبادلہ کے متعلق قانون کی خلاف ورزی کا الزام بھی بغیر کسی ثبوت کے عائد کیا گیا؛

و ۔ صدر نے ریفرنس کے قابلِ سماعت ہونے کے متعلق اٹارنی جنرل اور وزیرِ قانون کی رائے پر اعتماد کیا حالانکہ وہی تو اس ریفرنس کے اصل مؤلف تھے اور ان سے اس بابت مشورہ لینا غلط تھا ،
ز۔ صدر نے ریفرنس کے متعلق غیر جانبدارانہ اور آزادانہ مشورہ لینے کےلیے کسی غیرمتعلق فرد سے مشورہ نہیں لیا،

ح ۔ صدر نے اس معاملے میں قانون اور ضابطے کی صریح خلاف ورزیوں سے صرفِ نظر کیا ،
ط ۔ صدر پر لازم تھا کہ وہ اس معاملے پر سوچی سمجھی راے قائم کرتے لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا،

ی ۔ چونکہ اس معاملے میں کارروائی کا اختیار صدر کی جانب سے نہیں بلکہ وزیرِ قانون کی جانب سے دیا گیا، اس لیے جسٹس صاحب اور ان کی اہلیہ کے ٹیکس ریکارڈ تک رسائی غیرقانونی طریقے سے کی گئی ،

س ۔ فردوس عاشق اعوان نے پریس کانفرنس میں جسٹس صاحب کے خلاف توہین آمیز جملے کہے۔

یہ صریح ترین اور واضح ترین قانونی غلطیاں نوٹ کرنے کے بعد عدالت نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے کسی جج کے خلاف صدر کے دستخطوں سے دائر کیے جانے والے ریفرنس میں قانون بہت احتیاط اور حکمت کا تقاضا کرتا ہےلیکن اس معاملے میں ایسا نہیں ہوا۔ عدالت نے مزید کہا کہ یہ محض قانون کی عام خلاف ورزیاں نہیں بلکہ یہ قانون کو یکسر نظرانداز کرنے کا عمل ہے۔ اس لیے بدنیتی بطور امر قانونی قطعی طور پر ثابت ہوگئی ہے۔

اس فیصلے کے دیگر امور پر کسی اور وقت بحث کریں گے، ان شاء اللہ۔ البتہ دو مزید نکات پر مختصر فوری تبصرہ ضروری ہے:

اول: اس معاملے میں اسلامی احکام کیا ہیں؟ دس جج صاحبان میں کسی نے اس امر پر اس پہلو سے غور کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ بس دو مقامات پر اسلامی احکام کا مختصر تذکرہ آیا ہے۔ ایک تو جسٹس بندیال نے فیصلے کی ابتدا میں سورۃ النسآء کی آیت نقل کی ہے جس میں مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ اپنے پرائے کی تمییز کیے بغیر عدل کے تقاضے پورے کرو۔

یہ گویا جسٹس صاحب یہ بتارہے تھے کہ ہم نے اپنے فاضل بھائی کی جانب داری نہیں کی۔ تاہم کیا یہ مناسب نہیں تھا کہ وہ زیادہ نہیں تو ادب القاضی کے متعلق آیات و احادیث اور فقہی لٹریچر سے ہی کچھ نقل کرتے؟ شاید اس طرح ان کے اس نکتے کوزیادہ تقویت ملتی کہ قانوناً جج پر خواہ کچھ لازم نہ ہو لیکن جج کے اعلی کردار کی مناسبت سے اخلاقی تقاضے کچھ زیادہ ہوتے ہیں۔

دوسرا مقام جہاں اسلام کا ذکر آیا ہے، جسٹس فیصل عرب کا اضافی نوٹ ہے جہاں انھوں نے یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ شوہر پر اہلیہ کے متعلق کیا ذمہ داری عائد ہوتی ہے؟ تاہم انھوں نے آیات و احادیث نقل کرنے کے بجاے علامہ ابن الہام کی بات نقل کی ہے ۔

عرض ہے کہ ایک تو بیوی کے نفقہ اور اخراجات کے متعلق کئی صریح نصوص کی موجودگی میں محض ابن الہمام کی بات نقل کرنے کی وجہ سمجھ میں نہیں آئی۔ دوسرے، ابن الہمام کی بات سے صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ بیوی خواہ امیر ہو، اس کا نفقہ شوہر پر ہوتا ہے۔ اس سے یہ کیسے ثابت ہوتا ہے کہ بیوی کے اموال کی تفصیل معلوم کرنا یا حکومت کو بتانا شوہر کی ذمہ داری ہے؟ مائی لارڈ یہ دو الگ امور ہیں اور ایک سے دوسرا ثابت نہیں ہوتا!

دوم : دوسرا نکتہ اس پیرا کے متعلق ہے جسے لوگ رواروی میں نظرانداز کرگئے ہیں حالانکہ اس کے اثرات دوررس ثابت ہوسکتے ہیں۔ پیرا 142 میں یہ واضح کرتے ہوئے کہ کیوں ہم نے مسز عیسیٰ کے معاملے میں ٹیکس حکام کو حکم دیا ہے، بتایا گیا ہے کہ ہم نہیں چاہتے کہ اس معاملے میں کسی کو بدگمانی کا موقع مل سکے۔

اس کے بعد کہا گیا ہے کہ بیرون ملک موجود اموال کا معاملہ خصوصاً پاناما لیکس کے بعد بہت حساس نوعیت اختیار کیا گیا ہے اور عدلیہ و مسلح افواج سمیت تمام سرکاری ملازمین پر اس بارے میں ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ یہاں الفاظ بہت اہم ہیں۔ اس لیے میں انھیں جوں کا توں نقل کرنا چاہوں گا:

The matter of undeclared and unexplained foreign wealth of public office holders bears a stigma in Pakistan that these assets have been acquired unlawfully (a stigma which applies with even greater force since the PANAMA leaks on 03.04.2016). Therefore, every public office holder including Judges of the Superior Courts, officers of the armed forces, elected representatives and public servants are accountable under the law. Indeed, neither the institution of the judiciary nor the other institutions of Pakistan can tolerate a contrary perception. Consequently, all public office holders remain accountable under their applicable legislation on misconduct.

سوال یہ ہے کہ کیا اس اصول کی روشنی میں پاپا جونز کے پیزا کے متعلق خصوصی تفتیش اور کارروائی شروع نہیں کرنی چاہیے؟
Park at your own risk
ختم شد


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں