سپریم کورٹ آف پاکستان نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس غیر آئینی قرار دے دیا ہے اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ریفرنس پر تفصیلی فیصلہ جاری کردیا گیا ہے۔ تفصیلی فیصلہ 224 صفحات پر مشتمل ہے۔
جسٹس قاضی عیسیٰ ریفرنس پر تفصیلی فیصلہ سورۃ النساء کی آیات سے شروع کیا گیا۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے تفصیلی فیصلہ تحریر کیا، فیصلے میں لکھا گیا کہ آزاد، غیر جانبدار عدلیہ کسی بھی مہذب جمہوری معاشرے کی اقدار میں شامل ہے۔ جسٹس فیصل عرب اور جسٹس یحیٰ آفریدی نے فیصلے میں الگ الگ نوٹ تحریر کیا ہے۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے نوٹ میں لکھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس آئین و قانون کی خلاف ورزی تھی، ریفرنس داخل کرنے کا سارا عمل آئین و قانون کے خلاف تھا۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے نوٹ میں لکھا کہ صدر آئین کے مطابق صوابدیدی اختیارات کے استعمال میں ناکام رہے۔
جسٹس فیصل عرب نے تفصیلی فیصلے میں لکھا کہ جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کا وکلا برادری میں انتہائی احترام ہے ، جب ان کے ما لی معاملات پر سوال اٹھا تو انتہائی لازمی تھا کہ وہ اپنے اوپر لگے داغ دھوئیں ۔ جسٹس فیصل عرب نے فیصلے میں لکھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر اپنی لندن جائیدادوں کو ظاہر کرکے ، واحد طریقہ تھا کہ وہ اس داغ کو دھوئیں۔ جسٹس فیصل عرب نے اپنے نوٹ میں لکھا کہ آئین کا آرٹیکل209غیر فعال کیا گیا تو یہ جن لوگوں کے لیے بنایا گیا ان کے لیےمردہ ہوگیا۔ جسٹس فیصل عرب نے تفصیلی فیصلے میں لکھا کہ قانون کی نظر میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کےخلاف صدارتی ریفرنس قابل سماعت نہیں ہے۔
پاکستان بار کونسل کے وائس چئیرمین عابد ساقی نے مطالبہ کیا ہے کہ سپریم کورٹ کی طرف قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس مسترد کئے جانے کے بعد صدر عارف علوی کو صدرمملکت کے عہدے سے استعفیٰ دینا چاہئیے کیونکہ انہوں نے ایک جج پر بے بنیاد الزامات لگائے
معروف تجزیہ نگار جناب سلیم صافی نے کہا ہے کہ استعفی تو خیر کبھی نہیں دیں گے کیونکہ ایسے کاموں کے لئے بڑی اخلاقی جرات درکار ہوتی ہے لیکن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس فیصلے کے بعد صدر اور وزیراعظم کو جسٹس فائز عیسی اور قوم سے معافی مانگنی چاہیے ۔
روزنامہ 92 نیوز سے وابستہ صحافی فرحان احمد خان کا کہنا ہے کہ
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سرخرو ہو گئے۔ ثابت ہوا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس آئین و قانون کی خلاف ورزی تھی اور اس کے لیے صدر مملکت کا آفس استعمال ہوا۔
آئین و قانون سے ماوراء اس حرکت پر صدر عارف علوی کو سوچنا چاہیے کہ کیا وہ اخلاقی و قانونی طور پر یہ عہدہ اپنے پاس رکھنے کے اب مجاز ہیں؟
ایک اچھی شہرت کے حامل جج کا میڈیا ٹرائل کرنے والوں کی بھی خبر لی جانی چاہیے۔ میں چاہتا ہوں کہ وہ سارے کالم اور ویڈیوز جمع کروں جن میں بوٹ پالش کرنے والے دانشوروں نے جسٹس فائز عیسیٰ کی تذلیل کی کوشش کی تھی۔
ان سب لوگوں کو بھی شرم سے ڈوب مرنا چاہیے جو طنز کرتے ہوئے یہ کہتے تھے کہ جسٹس فائز عیسیٰ رسیدیں منہ پر ماریں۔ ان کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ جج صاحب نے گزشتہ کل رسیدیں منہ پر مار کر اپنے فیلو جج صاحبان کے لیے بھی مثال قائم کی اور دریدہ دہنوں کے منہ پر تمانچہ بھی رسید کر دیا۔
اب سی پیک کا متنازع چیئرمین عاصم باجوہ بھی رسیدیں سامنے لائے اور یہ بہادر دانشور ذرا اس سے بھی اسی انداز میں رسیدیں مانگ کر دکھائیں جیسے یہ جسٹس فائز عیسیٰ سے مانگا کرتے تھے۔
اور ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کی بات کب شروع ہوئی تھی۔ یاددہانی کے لیے بتا دوں کہ یہ سلسلہ مشہور ’فیض آباد دھرنا کیس‘ کے فیصلے کے بعد شروع ہوا تھا جس میں قاضی فائز عیسیٰ نے کہا تھا کہ وزارت دفاع ان سب فوجیوں کے خلاف کارروائی کرے جو اپنے حلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سیاسی عمل میں مداخلت کرتے رہے۔
اس سب تفصیل کو ایک اور خبر سے ملا کر پڑھیں، اہم ترین اور باخبر سمجھے جانے والے حلقوں میں خبر گردش کر رہی ہے کہ انٹیلیجنس کے ایک اہم عہدے دار کا مواخذہ ہو سکتا ہے اور شاید اس کی پوزیشن خطرے ہیں۔
اصول کی بات یہی ہے کہ جن جن لوگوں نے اپنی آئینی و قانونی حدوں کو پامال کیا ، وہ سب جواب دہ ہوں۔
مجھے یاد ہے کہ فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے کے بعد طاقتور حلقوں کا ردعمل دیکھ کر کچھ دوستوں نے کہا تھا کہ ”جسٹس فائز عیسیٰ نے ریڈ لائن کراس کی ہے“ ، عرض یہ ہے کہ ججز کہ ریڈ لائن آئین اور قانون ڈیفائن کرتا ہے اور انہوں نے آئین و قانون سے ماوراء کچھ بھی نہیں کیا تھا۔ ان کا جرم منہ زوروں پر سوال اٹھانا تھا ، باقی سب کہانیاں ہیں۔ “