انناس

محنتانہ

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ابن فاضل :

سنگاپور میں ایک پھل فروش انناس بیچ رہا تھا. ایک ڈالر کا ایک۔ ساتھ ہی اس نے ڈسپوزیبل پلیٹ میں آدھا انناس کاٹ کر کلنگ شیٹ میں پیک کرکے تھا. اس پر بھی ایک ڈالر کا ٹیگ لگا تھا. میں نے اس سے پوچھا کہ پورا انناس بھی ایک ڈالر کا اور آدھا بھی ایک ڈالر کا، یہ کیا بات ہوئی؟

اس نے فوراً کہا: ” میں نے محنت نہیں کی. یہ اس کا محنتانہ ہے. اس نے پچاس کے قریب ایسے پیکٹ بنا کر رکھے تھے جو کہ ظاہر ہے اس کا روزانہ کا معمول رہا ہوگا اور وہ شام تک بک جاتے ہوں گے۔“

اب اگر ڈسپوزیبل پلیٹ اور کلنگ شیٹ کی قیمت منہا کرکے بھی جمع تفریق کریں تو پاکستانی دو ہزار روپے اس نے لوگوں محنتانہ وصول کیا جو لوگوں نے بخوشی دیا جبکہ پھل کا منافع اس کے علاوہ ہے.

دوسری طرف اپنے سماج کی عمومی نفسیات کا اندازہ لگائیں، اگر کوئی شخص ہم سے کہے کہ میں نے آپ کا ٹی وی ٹھیک کیا ہے، اس میں صرف تین روپے کی ایک رزسٹنس پڑی ہے اور میری محنت ایک ہزار روپے ہے۔ ہم کہیں گے تمہارا دماغ چل گیا ہے ایک ہزار روپے محنت…. کیا کیا ہے؟؟؟ اب چاہے اس کا آدھا دن اس رزسٹنس کی تلاش میں لگا ہو پھر بھی ہم میں سے کوئی شخص بخوشی ہزار روپیہ دینے پر راضی نہیں ہوگا.

اس اجتماعی عوامی بخل کا رد عمل یہ ہے کہ شاذ ہی کوئی سروسز دینے والا شخص اب سچ بولتا ہو. سب یہی کہتے ہیں فلاں، فلاں اور فلاں چیز خراب ہے. بارہ سو کی وہ آئیں گی اور تین سو میری مزدوری. تین سو پر ہم با آسانی مان جائیں گے اور فی الحقیقت اس کو ایک ہزار سے زائد منافع ملے گا لیکن اس کیلئے بھی کمائی مشکوک اور ہمارے ذہنوں میں بھی شک کہ پتہ نہیں اس نے جھوٹ بولا ہے. معلوم نہیں وہ چیزیں خراب بھی تھیں یا نہیں. مطلب دونوں ہی پریشان.

موٹر مکینک، فریج اے سی، واشنگ مشین پنکھے اور چولہے ٹھیک کرنے والے سے لیکر پلمبر تک ہر شخص کا مزاج یہ بن گیا ہے کہ جب تک جھوٹ نہیں بولیں گے پورا معاوضہ نہیں ملے گا. اور تو اور ہمارے تو رنگساز بھی ٹوکن والا رنگ خریدتے ہیں کہ مالک مکان نے محنتانہ تو پورا دینا نہیں ٹوکن سے پانچ سو نکل آئے وہی غنیمت ہے.

آقا کریم کے ایک فرمان کہ
” جو کچھ اپنے لیے پسند کرتے ہو اپنے بھائی کیلیے وہی پسند کرو“ ،
پر اگر ہم. عمل کرنا شروع کردیں، اور محنت کرنے والی کی جگہ خود کورکھ کر ایک لمحہ کیلئے سوچیں کہ اگر میں اس کی جگہ ہوتا تو کتنے محنتانہ پر خوش ہوتا یا کتنے سے گھر کا نظام چلتا، اور پھر خوش دلی سے جی بڑا کرکے اتنا ہی دینا شروع کردیں، تو معاشرے سے بڑی حد تک جھوٹ اور بے چینی ختم ہوسکتی ہے. اور خوشحالی آسکتی ہے.


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں