نیر تاباں :
پوچھا بچے کی سالگرہ کیسے مناتی ہیں ؟
بچے کے تین دوست تھے جو گھر آئے۔ مل کر گیمز کھیلیں۔ پیزا اور برگر کھائے اور ساتھ فانٹا (جو بڑی نعمت ہے کیونکہ عام حالات میں گھر نہیں آتی)۔
بعد میں کیک تھا (موم بتیوں اور تالیوں میں برتھ ڈے سانگ والا کام نہیں)۔ بس ! میں نے پیسز کاٹ کر بچوں کو دے دیے۔ جس کا دل تھا کیک کے بجائے آئس کریم لینے کا تھا، اس نے وہ لے لی۔
رات کو بچے یہیں رہے۔ کھاتے پیتے رہے۔ کچھ دیر مووی دیکھی۔ لیگو کھیلی۔ چھپن چھپائی کھیلی۔ اور بس۔
دو چیزیں خاص تھیں۔ احمد کیساتھ ڈسکشن کے بعد یہ پلان کیا کہ دوستوں کو گفٹ سے منع کیا جائے۔ اس کے بجائے Let’s awake ایک آرگنائزیشن بہت اچھا کام کر رہی ہے۔ اس کا لنک امیوں کو بھیج دیا گیا کہ یہاں جتنے چاہیں پیسے ڈونیٹ کر دیں کہ دینے والے کے لئے بھی صدقہ جاریہ بنے اور وصول پانے والے کے لئے بھی۔
خالی ہاتھ آنا انہیں مشکل لگ رہا تھا تو چھوٹے موٹے پریزینٹ اور کینڈیز پھر بھی مل ہی گئیں۔ بچہ جو بڑے تحائف کو قربان کر کے پیسے ڈونیٹ کرنے پر راضی ہو جائے تو اس کے لئے چھوٹی سی شاباشی ہی سہی۔
دوسری چیز کہ goodie bags کا کلچر ختم کرنے کی کوشش۔ بچے آئیں۔ کھیلیں کو دیں۔ جو نصیب میں ہے کھائیں پیئیں اور خوش خوش گھر جائیں۔
ان دونوں چیزوں کے پیچھے ایک تو میٹیریل ازم سے بچانے کی کوشش، پھر اینوائرنمنٹ کو بچانے کی بھی چھوٹی سی کوشش۔ بار بار پلٹ کر نیت کو ٹھیک کرنا اور delayed gratitude بچے کو سکھانا بھی کہ ابھی نہیں ملے گا لیکن بعد میں بڑھ چڑھ کر ملے گا۔
شیشے پر مارکر سے
Ahmed turns 9
لکھ دیا تھا اور نئی شرٹ دلوا دی تھی کہ پہن کر پہلے تو شکر کریں نماز میں۔ پھر آگے بڑھیں۔ ماما بابا کی طرف سے اپنی پسند کا تحفہ انہوں نے آن لائن آرڈر کر لیا تھا۔
شام کو بیٹھ کر چھوٹی سی ڈسکشن اس چیز پر کہ اس سال کن باتوں پر فوکس کرنا ہے۔ سر فہرست کپڑوں کی پاکی اور نماز کی پابندی ہے۔
بس یہی ہے احوال سالگرہ کا!