عمران زاہد، اردو کالم نگار

کیا واقعی پاکستان درست راستے پر چل نکلا ہے؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

عمران زاہد :

عمران خان صاحب کو معیشت کا بالکل کچھ نہیں پتہ یا وہ جان بوجھ کو لوگوں کو بیوقوف بنانا چاہ رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں انہوں نے ایک ٹویٹ کی جس میں خوشخبری سنائی کہ پاکستان درست راستے پر چل نکلا ہے۔

لوگوں کو خوشخبری سنائی کہ پاکستان کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارے سے نکل کر سرپلس میں چلا گیا ہے اور گزشتہ ماہ ہماری ایکسپورٹ میں 30 فیصد اضافہ ہوا اور ترسیلات زر میں 9 فیصد کا اضافہ۔

ایک عام آدمی کے لئے کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس کا مطلب یہ ہے کہ گویا ہم نے اپنے گھر کی بجلی، پانی اور گیس کے کنکشن کٹوا دئیے ہیں۔ کھانے پینے پر پیسے خرچ کرنے کی بجائے کسی لنگر پہ جانا شروع کر دیا ہے۔ ان ضروری اخراجات کے نہ ہونے سے جو اخراجات بچے ہیں وہ میرے لئے سرپلس ہو گئے ہیں۔

اصل سرپلس وہ ہوتا ہے جس میں آپ ترقی کر رہے ہوں، جی ڈی پی اوپر جا رہا ہو، کاروبار بڑھ رہا ہو، سارے ضروری اخراجات بھی جاری ہوں اور پھر پیسے بچ رہیں۔ ایسی بچت سے آپ دوسرے ممالک کو قرض دیتے ہیں یا ان کے صنعتی منصوبوں میں خرچ کر کے منافع کماتے ہیں۔ کیا ہم اس قابل ہو چکے ہیں کہ دوسرے ممالک کو قرض دے سکیں؟

خان صاحب نے جو سرپلس پیش کیا ہے وہ ہماری معیشت کے پس منظر میں بالکل الٹ تصویر پیش کرتا ہے۔ یعنی بیروزگاری بڑھ رہی ہے، مہنگائی بڑھ رہی ہے، آمدن میں کمی ہو رہی ہے، چھوٹے کاروبار بند ہو رہے ہیں ، غریب غریب تر ہوتا چلا جا رہا ہے کیونکہ حکومت عوام پر پیسہ خرچ ہی نہیں کر رہی اور وہ سارا پیسہ بچا کر اسے سرپلس ظاہر کر رہی ہے۔

برآمدات کے حوالے سے خان صاحب نے بالکل غلط بیانی کی ہے۔
اسٹیٹ بینک کا برآمدات کا ڈیٹا میرے سامنے ہے۔
گزشتہ سال جولائی اگست میں ایکسپورٹس تھیں 4.2 بلین ڈالرز رواں سال میں انہی دو مہینوں کی برآمدات ہیں 3.4 بلین ڈالرز اس میں بھی اگست کی برآمدات جولائی سے کم رہی ہیں۔

اگر سالانہ برآمدات کا ڈیٹا دیکھیں تو مالی سال 2020 کی برآمدات 2019 سے بھی کم رہی ہیں اور دونوں سالوں کی برآمدات 2018 سے کم ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ڈالر کو اتنا مہنگا کر کے، عوام الناس کو مہنگائی میں ڈبو کر بھی کر برآمدات سے آمدن نہیں بڑھ سکیں۔

مالی سال 2019 میں برآمدات تھیں 24.2 بلین ڈالر، 2020 میں برآمدات رہیں 22.5 بلین ڈالر … اور مالی سال 2018، جسے گزشتہ حکومت کا آخری سال شمار کیا جاتا ہے، کی برآمدات تھیں 24.7 بلین ڈالرز۔

جہاں تک ترسیلات زر کی بات ہے۔ بے شک ترسیلات زر بڑھی ہیں لیکن ماہرین معیشت کے نزدیک یہ ایک عارضی انتظام ہے۔ اس سے معیشت کی بہتری ظاہر نہیں ہوتی۔ معیشت کی بہتری کے اشاریے بالکل مختلف ہیں۔

ترسیلات زر بڑھنے کی وجوہات میں بیرون ملک پاکستانیوں کی نوکریوں کا ختم ہونا، حج کا نہ ہونے سے ان پیسوں کا پاکستان میں آنا اور بہت سے پاکستانیوں کا لاک ڈاؤن کے خاتمے کے بعد اکٹھے ہی اپنی جمع پونجی پاکستان منقل کرنا ہے شامل ہیں۔ کچھ عرصے کے بعد اندازہ ہو گا کہ ترسیلاتِ زر کا یہ رحجان جاری رہتا ہے یا نہیں۔

لامحالہ ہمیں معاشی مشکلات کو دور کرنے کے لئے اپنی برآمدات کو ہی بڑھانا پڑے گا جو بدقسمتی سے ابھی تک گزشتہ حکومت کی سطح پر بھی نہیں پہنچ سکیں۔

دعا ہے کہ ہماری حکومت لوگوں کو سبز باغ دکھانے کی بجائے اور غیر ضروری معاملات میں اپنا وقت صرف کرنے کی بجائے دل جمعی سے معیشت پر اپنا فوکس سیٹ کرے تاکہ ملک اس بدحالی سے باہر نکل سکے۔ اگر یہ حکومت ایسا نہیں کر سکتی تو اللہ ہمیں ویسی حکومت عطا فرمائے جو معیشت پر فوکس سیٹ کرے۔ آمین۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں