عبید اللہ عابد :
ارشاد بھٹی کے بارے میں کون نہیں جانتا کہ وہ کہاں کے ” تجزیہ نگار “ ہیں اور کس کھونٹے سے بندھے ہوئے ہیں۔ 2011 کے بعد وہ ان تجزیہ نگاروں میں شامل ہوئے تھے جو ایک نئی سیاسی پراڈکٹ مارکیٹ متعارف کرانے اور پھر اس کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملانے میں دن رات مصروف رہتے تھے۔
اب جبکہ ان کی مشہور کی ہوئی پراڈکٹ نتائج دینے میں ناکام رہی ، وہ شرمندہ شرمندہ سے لگ رہے ہیں۔ اپنے کالموں اور تجزیوں میں موجودہ حکومت کے خلاف کچھ حقائق بھی شامل کرتے ہیں۔ پراڈکٹ کی مشہوری کرنے والے تجزیہ نگاروں میں سے بعض نے قوم سے واضح معافی مانگ لی، بعض کی ناک معافی مانگنے میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے، وہ آدھے تجزیہ میں پراڈکٹ کی خرابیاں بیان کرتے ہیں لیکن اختتامیہ میں ایک بار پھر اسی ناکام پراڈکٹ کو پکڑے کھڑے ہوتے ہیں۔
صرف ارشاد بھٹی ہی ایسا نہیں کرتے، بلکہ کچھ دیگر تجزیہ کار بھی ہیں اس صف میں۔ دیگر تجزیہ کاروں کے چہروں کی نقاب کشائی پھر کبھی سہی، فی الحال ارشاد بھٹی کے تازہ ترین کالم ( مطبوعہ روزنامہ جنگ ، 22 اکتوبر 2020 ) سے چند اقتباسات پڑھ لیجئے جن میں وہ عمران خان حکومت کا کچھ احوال بیان کررہے ہیں:
” ابھی آخری کابینہ اجلاس میں ندیم افضل چن نے شہزاد اکبر کو کھری کھری سنادیں، کہا، آپ کے شوگر، آٹا، گندم انکوائری کمیشن فراڈ، ان انکوائریوں کا مقصدا پنے ناپسندیدہ لوگوں کو فکس کرنا، ہم غیر ملکی کسانوں سے مہنگی گندم خرید رہے جبکہ ہمارے کسان رُل رہے، ہم نے کپاس کی سپورٹ پرائس نہ بڑھائی، فصل کم ہوئی، ملک کو نقصان ہوا، ہمارے بھی کیا کہنے، ہم نے ہی گندم، چینی انکوائریاں کرائیں، ہم ہی گندم، چینی چور بن گئے، اس موقع پر وزیراعظم نے چن صاحب سے کہا، یہ جلسوں والی تقریر کابینہ اجلاس میں نہیں ہوتی، یہ سن کر ندیم چن بولے، ’’سر یہ میرے دل کی آواز یہ جلسے کی تقریر نہیں ‘‘،اس موقع پر شہزاد اکبر نے بولنے کی کوشش کی تو وزیراعظم نے انہیں روک دیا۔ “
” یہاں یہ یاد رہے کپاس سپورٹ پرائس خسرو بختیار، رزاق داؤد نے مقرر نہ ہونے دی، اسی کابینہ میٹنگ میں ایک بار پھر شیخ رشید نے گندم سپورٹ پرائس بڑھانے کی مخالفت کی، مطلب اپنا کسان مرتا ہے تو مر جائے، یہ بھی سنتے جائیے، پاکستان کی 73 سالہ تاریخ میں پہلی بار ہمارے قرضے جی ڈی پی سے زیادہ ہوگئے، مطلب پورا ملک جتنا مل کر کماتا ہے، قرضے اس سے زیادہ، لیگی حکومت گئی تو قرضے جی ڈی پی کے 72فیصد تھے، اب قرضے جی ڈی پی کے 107فیصد ۔ “
” ہمیں تو یہ معلوم کہ مارکیٹ میں روپے کو ڈالر کے مقابلے میں مستحکم رکھنے کیلئے اسحق ڈار نے اربوں ڈالر مارکیٹ میں جھونکے، ہمیں کسی نے یہ نہ بتایا کہ جب 2018 میں اسد عمر وزیر خزانہ ہوا کرتے تھے تب انہوں نے تقریباً سال بھر میں ساڑھے چار ارب ڈالر مارکیٹ میں پھینکے، روپے کے استحکام کیلئے اور مزے کی بات روپیہ پھر بھی ڈی ویلیو ہی ہوا۔ “
” تبدیلی سرکار کے ایک وفاقی وزیر کی بیوی کی آٹے کی مل نکل آئی، انہوں نے یہ الیکشن کمیشن میں ڈکلیئر نہیں کی ہوئی، الیکشن کمیشن نے جب انہیں نوٹس دیا کہ آپ نے اپنی اہلیہ کی مل کیوں نہیں ڈکلیئر کی تو وزیرصاحب نے جواب دیا، میری بیگم اپنی مل ایف بی آر میں ڈکلیئر کر چکی، حالانکہ قانونی طور پر اسمبلی ممبران کا الیکشن کمیشن میں سب کچھ ڈکلیئر کرنا ضروری، اب آگے دیکھیے کیا ہوتا ہے۔ “
یہ تو تھے عمران خان کے ایک حامی تجزیہ کار کے انکشافات، یہ عمران خان حکومت کی دو ڈھائی سالہ کارکردگی کی تین ، چار جھلکیاں ہیں۔ پوری کہانی بیان کرنے کے لئے بہت سا وقت چاہئے۔ آج ارادہ تھا کہ اپوزیشن تحریک سے نمٹنے کے لئے عمران خان حکومت کی حکمت عملی پر بات کی جاتی لیکن ارشاد بھٹی کا کالم نظر آگیا، اس نے کافی جگہ لے لی، اس کے ساتھ ہی ساتھ کچھ تازہ ترین خبریں بھی پڑھتے جائیے:
” بجلی کی قیمت میں ایک روپیہ 36 پیسے فی یونٹ اضافے کا امکان “
” تحریک انصاف کے رکن سندھ اسمبلی نے اپنی پارٹی پالیسی کے خلاف جزائر سے متعلقہ صدارتی آرڈیننس کے خلاف قرارداد کی حمایت کردی۔ یہ قرارداد سندھ اسمبلی نے منظور کرلی۔ تحریک انصاف نے اجلاس کا بائیکاٹ کیا تھا تاہم پی ٹی آئی کے ایم پی اے شہریار نے نہ صرف بائیکاٹ میں حصہ نہیں لیا بلکہ قرارداد کے حق میں ووٹ دیا۔“
کپاس کی پیداوار تیس سال کی کم ترین سطح پر رہنے کا خدشہ
اور
حفیظ شیخ نے کہا ہے کہ مزید قرضہ لینا پڑے گا۔