ڈاکٹرجویریہ سعید، اردو کالم نگار، ماہر نفسیات

درد کا ریفلیکس ایکشن

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر جویریہ سعید :

آزمائش کسے کہتے ہیں ؟
کوئی نعمت چھن جائے،
انسان اذیت میں ہو،
بیماری ، موت، مال کا نقصان، اپنوں کی بے وفائی۔
درد سے انسان دہرا ہو جاتا ہے۔

اسے درد جھیلنے کے جو ذرائع دیے گئے ہیں ، سب تھکنے لگتے ہیں۔ احساسات پر تلخی غالب آنے لگتی ہے۔
خدا سے شکوے چلے آتے ہیں۔
مجھے اعتراف ہے کہ یہ سب درد کی شدت کا عکس ہوتا ہے۔
انسان خدا سے منہ موڑے خفا یا تلخ لہجے میں شکوہ کرتا ہے۔
میرے ساتھ ہی کیوں ہوا ؟
میرے ہی ساتھ ہوتا ہے۔
میرے ساتھ ہمیشہ برا ہی ہوا ہے۔

میں سمجھتی ہوں کہ یہ درد کا ریفلیکس ایکشن ہے۔ اور جس پر نہ بیتا ہو وہ اسے محسوس کیے بغیر نصیحتیں کرے تو یہ بڑی بے رحمی کی بات ہے۔

میں تمہارا ہاتھ تھام کر دھیرے سے سہلاتی ہوں۔
مگر
میری ہمدم۔
جن نعمتوں اور سہاروں کے چھن جانے پر تم کو شکوے ہیں،
وہ چیزیں ، وہ لوگ، وہ جسم ، وہ مال، وہ خوشحالی اور مسرت کی وہ کیفیت،
اس لیے نعمت تھی۔۔ کہ خدا نے اسے نعمت کے روپ میں تمہیں دیا تھا۔

اور جن چیزوں کو چاہنے کے لیے تم اب بے بسی محسوس کررہے ہو۔
مال، صحت، رشتے، ڈاکٹر، دوا، شفا۔
وہ سب بھی اسی صورت سہارا بنیں گی جب خدا انہیں سہارا بنائے گا۔
وہ نہ چاہے تو سب الٹا مصیبت اور بے کار۔
اور وہ چاہے تو کچھ نہ ہوتے بھی کام نکلتے ہیں۔

جن نعمتوں کے جانے پر رو رہے ہو، یاد کرو تو وہ بھی تو اس کی عطا تھی۔
یہ میں تمہیں اس لیے نہیں کہتی کہ تمہارے درد کا احساس نہیں،
اس لیے کہتی ہوں کہ میں چاہتی ہوں کہ تم خفگی اور رنج میں خود کو اس سہارے سے محروم نہ کرو جو اصل سہارا ہے۔
وہ خفا ہو جائے،
یا تم اس سے خفا ہو جائو،
تو پھر کہاں اماں پاؤ گے؟

تمہارا درد شدید ہے،
اور مجھے اس کا ادراک نہیں۔
مگر اس درد میں جو سنبھالے گا اور اب تک سنبھالتا رہا ہے۔
بس اس سے دور نہ ہو۔

پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک میں ان کے صاحب زادے کی سانسیں اکھڑ رہی تھیں۔
جو آنکھیں اس دنیا کا نور ہیں ، ان سے آنسو جاری تھے۔
جو دل خدا کے نور سے منور تھا ، اس میں کتنے ہی غم بھی پوشیدہ تھے کہ ایک اور غم ملتا ہے۔
انہیں والدین کی چھاؤں بھی نہ ملی۔

اور ایک کے علاوہ ساری اولاد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں خالق حقیقی سے جا ملی۔
ایک پیارا سا بیٹا جو آنکھوں کا نور تھا، مقدس بازوؤں دم توڑ رہا ہے۔
ان دنیا و مافیہا سے زیادہ قیمتی لبوں سے ارشاد ہوتا ہے۔

” آنکھوں سے آنسو جاری ہیں اور دل غم سے نڈھال ہے پر زبان سے ہم وہی کہیں گے جو ہمارے پروردگار کو پسند ہے، اے ابراہیم! ہم تمہاری جدائی سے غمگین ہیں “

میری ہمدم ، میری دوست۔۔۔
خدا تمہارے غمزدہ دلوں پر مرہم رکھے،
تمہارے لیے آسانیاں کرے،

مجھے اعتراف ہے کہ تمہارا درد سوا ہے
اور میرے پاس تسلی کے الفاظ نہیں،
کوئی وعدہ ، کوئی امید نہیں،
مجھے تمہارے درد کا ادراک بھی نہیں۔
مگر میرا جی چاہتا ہے میں پیار سے تمہارے سامنے پڑھوں۔

دن کی روشنی کی قسم ہے۔

اور رات کی جب وہ چھا جائے۔

آپ کے رب نے نہ آپ کو چھوڑا ہے اور نہ بیزار ہوا ہے۔

اور البتہ آخرت آپ کے لیے دنیا سے بہتر ہے۔

اور آپ کا رب آپ کو (اتنا) دے گا کہ آپ خوش ہو جائیں گے۔

کیا اس نے آپ کو یتیم نہیں پایا تھا پھر جگہ دی۔

اور آپ کو (شریعت سے) بے خبر پایا پھر (شریعت کا) راستہ بتایا۔

اور اس نے آپ کو تنگدست پایا پھر غنی کر دیا۔

پھر یتیم کو دبایا نہ کرو۔

اور سائل کو جھڑکا نہ کرو۔

اور ہر حال میں اپنے رب کے احسان کا ذکر کیا کرو۔ ( الضحیٰ )


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں