گل بدین حکمت یار

گل بدین حکمت یار کی دو باتیں جو پاکستانیوں کے لئے نہایت اہم ہیں

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

فاروق عادل :

وہ شاید 1980ء کا اکتوبر ہو گا جب انجینئر گل بدین حکمت یار کو سننے کا موقع ملا۔ تب انجینئر صاحب کی داڑھی سیاہ تھی اور وہ اونچی دیوار کی قراقلی ٹوپی پہنا کرتے تھے۔ آج کا حکمت یار وہ حکمت یار ہی نہیں رہا۔ ہے تو وہ ویسا ہی اونچا لمبا لیکن داڑھی کا رنگ بدل چکا۔اس کے ساتھ ہی گفتگو کا آہنگ بھی۔

وہ جو پرانے حکمت یار کی گفتگو میں شعلہ سا لپک جاتا تھا، اب اس جگہ ایک ہموار، دھیما لیکن مستحکم لہجہ لے چکا ہے جس میں وہ پیشانی پر کوئی بل یا چہرے کا کوئی تاثر بدلے بغیر سخت سے سخت بات کہہ جاتا ہے۔ ہاں، اس قراقلی ٹوپی کی جگہ سادگی لیکن سلیقے سے بندھی ہوئی سیاہ پگڑی لے چکی ہے، بزرگی کی متفق علیہ علامت۔

حکومت پاکستان کی دعوت پر وہ تین روزہ دورے پر اسلام آباد پہنچے تو ان کی آخری مصروفیت پروفیسر خورشید احمد کا انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز تھا جہاں پروفیسر صاحب کے جانشین خالد رحمان نے ان کا خیر مقدم کیا اور ان پرانے دنوں کی یاد تازہ کی جب وہ پاکستان میں ہوا کرتے تھے اور اس ادارے میں افغانستان کے ماضی، حال اور مستقبل کی صورت گری کے ضمن میں اپنے افکار سے فیض یاب کیا کرتے تھے لیکن آج کا دن حکمت یار کا تھا۔

قریباً ایک گھنٹے پر پھیلی ہوئی ان کی تقریر اور سوال جواب کے وقفے میں ایسی بے شمار باتیں ہیں جن کا احاطہ انھوں نے کیا لیکن دو باتیں ایسی ہیں جو مستقبل کے پاک افغان تعلق اور خطے کے مستقبل کی تصویر واضح کرتی ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ افغان شہریوں نے ترکی اور خلیجی ممالک میں بیس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے، افغان شہری اتنی دور جا کر سرمایہ کاری کریں مگر پاکستان میں نہ کریں؟ یہ انھیں پسند نہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان افغان شہریوں کو بینک اکاؤنٹ کی چونکہ سہولت فراہم نہیں کرتا، اس لیے پاکستان اس قیمتی سرمایہ کاری سے محروم رہتا ہے۔ انھوں نے تجویز پیش کی کہ دونوں ملکوں کو یوروپی یونین کی طرز پر اپنے شہریوں کو کاروبار کی آزادی دینی چاہئے۔

توقع رکھنی چاہئے کہ مستقبل کے افغانستان جس میں حکمت یار کا کردار ممکنہ طور پر کلیدی ہوگا، دونوں ملکوں کے درمیان یوروپی یونین جیسا تعلق دیکھا جاسکے گا۔

انھوں نے جو دوسری بات کہی، وہ اس سے بھی اہم ہے۔ ان دنوں امریکی انخلا کے بعد مستقبل کے افغانستان کی صورت گری پر کام ہو رہا یے، عبداللہ عبداللہ کے دورہ پاکستان کے بعد ان کا یہ دورہ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ انھوں نے دوٹوک الفاظ میں کہہ دیا کہ اُس نظام کے کل پرزے جنھیں امریکا نے اپنی بیساکھیوں پر کھڑا کیا، مستقبل میں ان کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے یعنی اشرف غنی اینڈ کمپنی اپنے لیے کوئی اور ٹھکانہ تلاش کرے۔

وہ کہتے ہیں کہ امریکیوں کے جانے کے بعد افغانستان کا نظام کیا ہوگا اور کیسے وہ بروئے کار آئے گا، اس کا فیصلہ ہم افغانوں کو کرنے دیا جائے، کوئی اور اس میں مداخلت نہ کرے۔

حکمت یار یہ بات بڑی نرمی سے بیان کرتے ہیں لیکن اس شخص کو جاننے والے جانتے ہیں کہ یہ نرم گو اپنے ارادوں میں کتنا مضبوط ہوتا ہے۔ مطلب واضح ہے کہ آنے والے دنوں میں ہمارا یہ پڑوس ایک اور خانہ جنگی کی خبر دے تو اس پر کسی کو حیرت نہ ہونی چاہئے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں