صدر جنرل محمد ضیا الحق

جب ہفت روزہ ” تکبیر“ کی سرخی پر صدر ضیا الحق ہوئے برہم

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

قربان انجم :

یہ ان دنوں کی بات ہے جب صدر جنرل محمد ضیا الحق نے انتخابی مہم کے لئے چار دیواری کے اندر محدود سیاسی اجتماعات کی اجازت دے رکھی تھی۔ ان میں لائوڈ سپیکر کے استعمال کی بھی اجازت نہیں تھی۔ میں نے ” تکبیر “ ( کراچی سے شائع ہونے والے سیاسی ہفت روزہ میگزین ) کے لئے لاہور سے اپنے مکتوب میں ان انتخابات کو ” گونگے بہرے انتخابات “ کا نام دیا۔

مدیر ” تکبیر “ محمد صلاح الدین نے اس شمارے کے ٹائٹل پیج پر دو کارٹون بنائے۔ ایک کے کانوں اور دوسرے کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر جلی حروف میں کیپشن لگایا: ” یہ گونگے بہرے انتخابات “ ۔ تکبیر کے اداریے اور محمد صلاح الدین شہید کے تجزیے میں بھی انتخابی مہم کو بھونڈے انداز میں پابند کرنے پر سخت تنقید کی گئی تھی۔

اس دوران ایک روز صدر ضیا الحق لاہور آئے۔ ائرپورٹ پر نیوز کانفرنس کا اہتمام کیا۔ میں نے بھی نیوز کانفرنس میں شرکت کی۔ صدر کی نیوز کانفرنس میں سینئر رپورٹرزشریک ہوتے تھے۔ میں سب سے جونئیر تھا۔ میں سینئرز کی موجودگی میں ” صاحب نیوز کانفرنس “ سے سوال کرنے سے گریز کیا کرتا تھا۔ اس روز بھی میں نے طے کر رکھا تھا کوئی بھی سوال نہیں کروں گا

مگر صدر موصوف نے نیوز کانفرنس شروع کرتے ہی ہفت روزہ ” تکبیر “ پر برسنا شروع کردیا۔ میں نے صدر مرحوم کو اس قدر مشتعل کبھی نہیں دیکھا تھا کیونکہ بالعموم وہ غصے میں غیر معمولی حد تک برداشت کا ملکہ رکھتے تھے۔ اس روز اپنے افتتاحی بیان میں انھوں نے صحافیوں سے کہا:

” حضرات ! جو انتخابی مہم ” چل “ رہی ہے، اس کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟ کیا اس جیسی پر امن مہم آپ نے ماضی میں کبھی دیکھی؟“

یہ افتتاحی بیان پریس کانفرنس سےخطاب کرنے والے کسی بھی رہنما کے معمول سے یکسر مختلف تھا۔ بعض جی حضوری قسم کے رپورٹروں نے صدر محترم کی خوشنودی کے لئے کہا ” یہ مہم نہایت پرامن رہی ہے، اسے اسی طرح جاری رہنا چاہئے۔“

صدر ضیا غصے سے لرزتی آواز میں گویا ہوئے: ” مگر وہ پرچہ دیکھا آپ نے جو کراچی سی نکلتا ہے ” تکبیر“ ، اس میں ایڈیٹر صاحب لکھتے ہیں : ” گونگے بہرے انتخابات “۔
اس مرحلے پر صدر نے نثار عثمانی مرحوم کو مخاطب کرکے کہا :
” یہ لوگ دراصل امن چاہتے ہی نہیں ، یہ چاہتے ہیں خون خرابہ ہو، قتل و غارت گری ہو اور اگر معصوم لوگوں کا خون نہ بہے تو اس قسم کے صحافیوں کو مزہ نہیں آتا ۔ آپ نے پڑھا ہے ” تکبیر “ ؟ ، اس کے صفحہ اول پر لکھا ہے کہ یہ انتخابات ” گونگے ، بہرے ہیں۔“

نثار عثمانی نے ” تکبیر “ کا وہ شمارہ اس وقت تک نہیں دیکھا تھا تاہم انھوں نے صدر کی ہاں میں ہاں نہیں ملائی کیونکہ وہ خود پابند قسم کی انتخابی مہم کے خلاف تھے۔

میں ” تکبیر “ سے وابستہ تھا اور مدیر ” تکبیر “ سے دلی وابستگی رکھتا تھا، اس لئے میں نے صدر سے سوالات نہ کرنے کا فیصلہ ” واپس “ لے لیا اور سوالات پوچھنے شروع کردئیے۔ اس دوران میں میرا لہجہ بھی متوازن نہیں رہا۔ یہاں تک کہ ایک مرحلے پر تو میری ان سے گفتگو کو میرے صحافی بھائی بعد میں ” بچوں ایسے انداز “ کی حامل قرار دیتے رہے۔

اس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ آئین کے ساتھ ضیا الحق نے جو سلوک روا رکھا تھا، اس کی توضیح کرتے ہوئے فرما رہے تھے
” آئین توڑا نہیں گیا ، کالعدم بھی نہیں کیا گیا ، ” ملتوی “ کیا گیا ہے ، یا یوں کہہ لیجیے ، زندہ رہے مگر محفوظ کرلیا گیا ہے ، موزوں وقت آنے پر زیرعمل لے آئیں گے۔ آئین کی موجودہ پوزیشن بیان کرنے کے لئے مجھے اس وقت صحیح لفظ یاد نہیں آرہا ۔“

میں نے صدر مرحوم کی ” لاعلمی “ یا ” نادانی “ کا انھیں احساس دلانے کے انداز میں کہا :
” جناب صدر ! آپ یوں کہہ سکتے ہیں It has been kept in abeyance ، میرا مقصد صدر کی تصحیح یا اپنا علم بگھارنے کے بجائے محض دل کی بھڑاس نکالنا تھا۔
” ہاں ، ہاں “ صدر مرحوم نے غصے اور بے زاری ملے احساس کے تابع کہا : ” یہی درست ہے، قانون دان حضرات یہی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔“

بہرحال یہ نیوز کانفرنس ناخوشگوار انداز میں شروع ہوئی اور آخر دم تک ناخوشگواری رہی اور مدیر ” تکبیر “ جناب صدر کے عتاب کا ہدف بنے رہے۔

میں نے دفتر واپس پہنچ کر فوراً مدیر تکبیر جناب محمد صلاح الدین سے کراچی رابطہ کرکے انھیں بتایا کہ صدر ضیا الحق ” تکبیر “ پر خاصے برہم تھے اور نیوز کانفرنس کے دوران میں خلاف معمول اشتعال سے مغلوب رہے ہیں۔

مدیر ” تکبیر “ نے مخصوص مہذب ، مدھم اور نرم و ملائم انداز میں کہا :
” کیا زیادہ ہی ناراض ہوگئے ہیں ؟“
” جی ہاں ! زیادہ ہی کہنا چاہیے “
” تو کیا آپ اس نیوز کانفرنس کی مختصر رپورٹ فوراً بھیج سکتے ہیں؟ “
” آج ارسال کرنا تو بے سود ہے، آج تو آخری کاپی پریس جاری رہی ہے “
” آپ فکر نہیں کریں بلکہ ” تکبیر “ کے متعلق ان کی گفتگو مجھے ابھی ڈکٹیشن دے دیں “۔

میں نے حکم کی تعمیل کی اور اگلے روز جو ” تکبیر “ بازار میں آیا، اس میں نصف صفحے کی رپورٹ شائع ہوئی جس میں وہی کارٹون ( گونگے بہرے والا ) دوبارہ شائع کردیا گیا اور رپورٹ پر یہ سرخی جمائی : ” تکبیر پر صدر ضیا الحق کی برہمی ۔“


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

ایک تبصرہ برائے “جب ہفت روزہ ” تکبیر“ کی سرخی پر صدر ضیا الحق ہوئے برہم”

  1. زبیدہ روف Avatar
    زبیدہ روف

    قربان انجم صاحب اپنی یاداشتوں میں سے یہ واقعہ share
    کرنے کا شکریہ۔۔۔ اس طرح کے تاریخی حقائق زیادہ سے زیادہ لکھے اور شائع ھونے چاہئیں ۔۔