نبیلہ شہزاد :
میرے گھر کے قریب ہی ایک فیملی رہتی ہے جس کا ہمارے ساتھ کافی میل جول ہے۔ فیملی کی خاتون اول باجی نے اپنی خوش اخلاقی و خوش مزاجی کی بنا پر میرے دل میں اپنی جگہ بنا لی ۔ اس باجی کی خوبی تھی کہ ہفتہ ڈیڑھ ہفتہ بعد مجھے ملنے آتی ۔ اکثر اوقات ہاتھ میں ایک عدد ٹفن بھی ہوتا جس میں گھر کی بنی کوئی سوغات ہوتی۔
ہر ملاقات پر مجھے اپنے گھر آنے کی دعوت بھی دیتی اور میں ” انشاءاللہ آئوں گی “ کہہ کر آنے کا عندیہ بھی دے دیتی۔ اور جب میں اگلی ملاقات تک بھی نہ جا پاتی تو باجی یہ کہہ کر میری شرمندگی خود ہی دور کرنے کی کوشش کر تیں کہ ” کوئی بات نہیں تمہارے ابھی بچے بہت چھوٹے ہیں ۔ میرے تو بچے بڑے ہو چکے ہیں۔ اور زیادہ تر فارغ رہتی ہوں۔ میں نے مل لیا یا تم نے آ کر مل لیا ایک ہی بات ہے۔ “
یوں میں ہلکی پھلکی ہو جاتی۔ میں باجی کی زندگی میں صرف ایک بار ہی ان کے گھر جا سکی۔ اچانک ایک دن خبر ملی کہ ہارٹ اٹیک ہو گیا ہے، مجھ سے رہا نہ گیا ۔ میں فوراً ہسپتال پہنچی۔ باجی آنکھیں بند کیے ای سی یو میں لیٹی پڑی تھیں۔
میں باجی کا ہاتھ نرمی سے تھام کر پاس بیٹھ گئی۔ چند لمحوں کے لیے باجی کی آنکھ کھلی اور آکسیجن ماسک کے اندر سے ہی مجھے ہلکی سی مسکراہٹ نظر آئی۔ یہ میری اور باجی کی آخری ملاقات تھی۔ لیکن ان کی بے لوث محبت شاید سدا کے لیے میرے دماغ میں ثبت ہو چکی ہے۔
جس طرح انسان کا کوئی منفی عمل اس کا پیچھاکرتا ہےاور کبھی نہ کبھی زندگی میں اس کے سامنے ضرور آ تا ہے ۔اس طرح اس کے نیک عمل کا صلہ بھی کسی نہ کسی صورت میں اس دنیا میں ضرور ملتا ہے ۔
ہم جو محبتیں اللہ تعالی کی رضا کے لئے ایک دوسرے سے کرتے ہیں تو پھر ایسی بے لوث محبتیں کرنے والوں کے لیےدوسروں کے دلوں میں قدرومنزلت اللہ تعالی خود پیدا کرتے ہیں۔ اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں ولا تفرقو بینکم فرما کر مسلمانوں کو یک جان ہونے کا حکم دیا ہے۔
پھر اپنی کتاب میں ہی ان باتوں سے گریز کرنے کا حکم دیا ہےجن کی وجہ سے آپس کی محبتیں ٹوٹنے کا خدشہ ہے ۔ جیسے سورہ حجرات میں ایمان والوں کو منع کر دیا گیا کہ وہ ایک دوسرے کا مذاق نہ اڑائیں نہ ایک دوسرے کو عیب لگائیں اور نہ ہی ایک دوسرے کو چڑانے کے لیے برے نام رکھیں ۔
پھر محبتیں قائم رکھنے کے کئی گر اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے ہمیں سکھا ئے کہ تمام امت جسد واحد کی مانند ہے ۔اگر اس کے ایک حصہ میں تکلیف ہو تو سارا جسم بے چینی محسوس کرتا ہے ۔
آج امت مسلمہ کا سب سے المناک مسئلہ بھی آپس کا تفرقہ ہے ۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی مسلمانوں نے جھنجوڑ دینے والا نقصان اٹھایا چاہے وہ جنگ کا میدان ہو یا معیشیت اور علم کا ، اپنوں کی سازشوں سے ہی اٹھایا۔
مسلم دشمن طاقتوں کا سب سے بڑا خوف مسلمانوں کا اتحاد ہے۔ اس اتحاد کو ختم کرنے کے لئے ان کی سر توڑ کوششوں کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے۔اب ہم نے دوبارہ امت مسلمہ کو یکجا کرنا ہے ۔اور اس کا آغاز ہم نے اپنے گھروں سے کرنا ہے۔
مذکورہ باجی کی طرح خود محبتیں بانٹنے والا بننا ہے۔ جواباً ردعمل کے گلے شکوےکے بغیر کہ
ہم نے تو بھائی چارگی بڑھانے کی اپنی ذمہ داری پوری کرنی ہے۔ دوسرے اپنے معاملے کو خود ہی جانیں۔