حامد میر :
کہنے کو تو پاکستان ایک جمہوری ملک ہے لیکن اِس جمہوریت میں ہر طرف خوف اور سازش کا ڈیرہ ہے۔ حکومت کو حکومت سے اور اپوزیشن کو اپوزیشن سے خوف ہے۔ صحافی بھی صحافی سے خوفزدہ ہے، اسی لئے آج کل اکثر سچ سرگوشیوں میں بولے جاتے ہیں لیکن جھوٹ بولنے کے لئے ہمارے کچھ دوست گلا پھاڑتے نظر آتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا اندر کی خبریں باہر لانے والوں کو بڑا صحافی سمجھا جاتا تھا۔
زیادہ پرانی بات نہیں، جب عمران خان اپوزیشن میں تھے اور کئی جلسوں میں اصرار کرکے ہمیں ساتھ لے جاتے تھے۔ ایک دفعہ ہم اُن کے ساتھ اسلام آباد سے میانوالی جا رہے تھے، جہاں اُنہوں نے جلسے سے خطاب کرنا تھا۔ گاڑی میں وسیم اکرم بھی تھے۔
وسیم اکرم نے مجھ سے پوچھا کہ میانوالی کے جلسے میں کوئی گڑبڑ تو نہیں ہوگی؟ میں نے جواب میں کہا کہ کل رات کو وزیراعلیٰ شہباز شریف سے پوچھا تھا کہ آپ میانوالی کا جلسہ روکیں گے تو نہیں، اُنہوں نے کہا میں پاگل ہوں کہ جلسہ روک کر عمران خان کو ہیرو بنائوں۔ یہ سُن کر ڈرائیور کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھے ہوئے عمران خان نے گردن گھما کر کہا کہ کسی کا باپ بھی میرا جلسہ نہیں روک سکتا، اِس ملک میں جمہوریت ہے، آمریت تو نہیں ہے۔
پھر اُنہوں نے گردن سیدھی کی اور بڑے معصومانہ انداز میں کہا کہ جب ہماری حکومت آئے گی تو ہم کبھی اپوزیشن کا جلسہ نہیں روکیں گے۔ خان صاحب کی یہ بات سُن کر وسیم اکرم کی باچھیں کھل گئیں اور اُنہوں نے میرے کان میں پوچھا …’’کیا خان صاحب واقعی وزیراعظم بن جائیں گے؟‘‘ میں نے جواب میں سوئنگ کے سلطان کے کان میں کہا کہ اگر محمد خان جونیجو پاکستان کا وزیراعظم بن سکتا ہے تو عمران خان بھی بن سکتا ہے۔ خان صاحب نے دوبارہ گردن گھمائی اور پوچھا:’’کیا کہا تم نے؟‘‘ اس سے پہلے کہ وسیم اکرم کچھ کہتا میں نے بات بدلنے کی کوشش کی لیکن وسیم اکرم نے بلند آواز میں اعلان کیا کہ میر صاحب نے مجھے بڑی اندر کی بات بتا دی ہے۔
ایک دفعہ خان صاحب نے فرمائش کی کہ تم پشاور کے جلسے میں میرے ساتھ چلو۔ میں نے مصروفیت کا بہانہ بنایا تو اُنہوں نے کہا راستے میں بڑی ضروری بات کرنی ہے۔ ہم بنی گالہ سے ہیلی کاپٹر میں پشاور پہنچے۔ وہاں بہت بڑا جلسہ ہوا۔ واپسی پر موسم خراب ہو گیا تو ایئر پورٹ پر خان صاحب کے ساتھ لمبی گفتگو ہوئی جس میں وہ بڑے یقین سے کہہ رہے تھے کہ تحریک انصاف کو پاکستان کی خدمت کا موقع ملنے والا ہے۔
میں نے اُن کو یاد دلایا کہ آپ نے میانوالی جاتے ہوئے کہا تھا کہ ہماری حکومت آئی تو ہم اپوزیشن کا جلسہ نہیں روکیں گے، وعدہ کریں کہ آپ وزیراعظم بن گئے تو انتقام کی سیاست نہیں کریں گے۔ خان صاحب نے کہا کہ میں انتقام نہیں لوں گا، میں احتساب کروں گا، نواز شریف اور زرداری سے لوٹی ہوئی دولت نکلوائوں گا اور پاکستان کے حالات بدل دوں گا۔
یہ سُن کر جہانگیر ترین نے بہت زور سے ان شاء اللہ کہا۔ میں خاموش ہو گیا۔ تھوڑی دیر بعد جہانگیر ترین نے مجھے پوچھا تم خاموش کیوں ہو گئے؟ میں نے جواب میں کہا کہ اگر پرویز مشرف جیسا مضبوط حکمران نواز شریف اور زرداری سے کوئی دولت نہیں نکلوا سکا تو آپ کیسے نکلوائیں گے؟
ترین صاحب خاموش رہے کیونکہ وہ تو خود مشرف دور کی کابینہ میں وزیر تھے۔ پھر خان صاحب کو اچانک کچھ یاد آیا اور کہنے لگے کہ گھبرائو نہیں اگر میں وزیراعظم بن گیا تو میڈیا کو مکمل آزادی ملے گی۔ میں تو یہ سُن کر خوش ہو گیا لیکن میری نظر جاوید ہاشمی پر پڑی جو ایک خفیف سی مسکراہٹ کے ساتھ میری طرف دیکھ رہے تھے اور اُن کی آنکھوں میں صاف لکھا تھا کہ وہ عمران خان کے الفاظ پر یقین نہیں رکھتے۔ کچھ عرصہ کے بعد وہ تحریک انصاف چھوڑ گئے۔
یہ لمبی تمہید صرف یہ عرض کرنے کے لئے باندھی ہے کہ اِس ناچیز نے محترمہ بےنظیر بھٹو، نواز شریف اور عمران خان سمیت کئی وزرائے اعظم کو اپوزیشن میں بھی قریب سے دیکھا ہے اور حکومت میں بھی لیکن جتنی تیزی سے عمران خان کی حکومت غیرمقبول ہوئی ہے، اُس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ جیسی انتقامی کارروائیاں آج کی اپوزیشن کے ساتھ ہو رہی ہیں اُس کی بھی مثال نہیں ملتی اور جو کچھ میڈیا کے ساتھ اِس دور میں ہوا ہے وہ بھی بےمثال ہے۔
کچھ عرصہ پہلے تک اندر کی خبریں باہر لانے والے بڑے صحافی کہلاتے تھے، آج کے اکثر بڑے صحافی اندر کی خبریں چھپانے میں لگے ہوئے ہیں کیونکہ جو بھی اندر کی خبر باہر لاتا ہے، وہ غدار اور لفافہ کہلاتا ہے۔ وہ عمران خان جو ہمیں کہا کرتے تھے کہ اگر وہ وزیراعظم بن گئے تو کبھی اپوزیشن کا جلسہ نہیں روکیں گے، اُن کے دورِ حکومت میں اپوزیشن کے جلسوں کو ناکام بنانے کے لئے پوری ریاستی مشینری متحرک ہے۔
ایک طرف حکومت کہہ رہی ہے کہ اپوزیشن کو جلسوں کی مکمل آزادی ہے، دوسری طرف گوجرانوالہ شہر کو کنٹینروں سے بھر دیا گیا ہے اور اپوزیشن کے بینر ہٹائے جا رہے ہیں۔ چند ہفتے پہلے تک یہ تاثر تھا کہ مسلم لیگ ن میں دو گروپ ہیں۔ ایک گروپ کے قائد شہباز شریف ہیں اور دوسرے گروپ کی قائد مریم نواز ہیں لیکن عمران خان کی حکومت نے اِس تاثر کی نفی کر دی ہے۔ شہباز شریف اور اُن کے خاندان پر ایسا ایسا مقدمہ بنایا گیا کہ مریم نواز اپنے چچا کے حق میں چیخنے لگیں اور اب مریم نواز کی جاتی امرا میں رہائش گاہ کے باہر بھی کنٹینر کھڑے کر دیے گئے ہیں۔
عمران خان مانیں یا نہ مانیں لیکن وہ مریم نواز کے محسن بن چکے ہیں۔ اُنہوں نے مریم نواز کو ایک قد آور لیڈر بنا دیا ہے اور نون میں سے شین نکالنے کی سب کوششوں کو ناکام بنا دیا ہے۔ عمران خان کی حکومت نے پہلے پہل یہ کریڈٹ لینے کی کوشش کی کہ نواز شریف کی تقریر ٹی وی چینلز پر دکھانے کی اجازت دے کر بہت وسیع القلبی کا مظاہرہ کیا، بعد میں نواز شریف پر پابندی لگا دی گئی۔ ایسی ہی پابندی گزشتہ سال آصف علی زرداری کے انٹرویو پر لگائی گئی تھی۔ نواز شریف کی تقاریر پر پابندی اور اپوزیشن کا راستہ کنٹینروں سے روکنے کی کوشش دراصل حکومت کی کمزوری کا اعتراف ہے۔
آنے والے دنوں میں حکومت کو کشمیری قیادت کی طرف سے بھی تنقید کا سامنا ہو سکتا ہے۔ وزیراعظم کے معاونِ خصوصی برائے قومی سلامتی معید یوسف نے بھارتی صحافی کرن تھاپڑ کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ بھارت نے ہمیں مذاکرات کا پیغام بھیجا ہے لیکن ہم کشمیریوں کو مذاکرات میں شامل کئے بغیر آگے نہیں بڑھیں گے۔ جس دن معید یوسف نے یہ انٹرویو دیا اُسی شام مقبوضہ جموں و کشمیر کی سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی ایک سال کی نظر بندی کے بعد رہا ہو گئیں۔ آزاد کشمیر کے وزیراعظم راجہ فاروق حیدر نجی محفلوں میں جو کچھ بتا رہے ہیں وہ سُن کر دل دہل جاتا ہے۔
معید یوسف کے آن دی ریکارڈ موقف اور راجہ فاروق حیدر کے آف دی ریکارڈ موقف میں زمین و آسمان کا فرق ہے اور اگر راجہ صاحب بھی آن دی ریکارڈ آ گئے تو عمران خان کے لئے جواب دینا مشکل ہو جائے گا۔ عمران خان کے لئے اصل خطرہ راجہ فاروق حیدر ہیں جو آج کل اپنے آپ کو آزاد کشمیر کا آخری وزیراعظم قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر مجھے پاکستان کا مفاد عزیز نہ ہو تو عمران خان میری ایک پریس کانفرنس کی مار ہے۔