حکیم نیاز احمد ڈیال
[email protected]
آنکھیں قدرت کا انمول عطیہ ہیں۔ یہ نہ صرف انسانی شخصیت کو دید و نظارہ سے ر و شناس کراتی ہیں بلکہ کائنات کے رنگوں سے محظوظ ہونے کے مواقع بھی فراہم کرتی ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ نظر ہے تو نظارہ ہے، نظارہ ہے تو جہان پیارا ہے۔
عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ جو چیز جتنی قیمتی ہوتی ہے اس کی حفاظت اسی قدر اہتمام سے کی جاتی ہے۔آنکھیں جسمِ انسانی میں سب سے زیادہ حساس اور نازک ہوتی ہیں۔ ہلکا ساذرہ بھی ان کے ”طور“ بدلنے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ لہٰذا ان کی حفاظت بھی اسی قدر احتیاط اور توجہ کہ متقاضی ہوتی ہے۔
آنکھوں کی ہلکی سی تکلیف بھی بہت زیادہ اذیت کا باعث ہوتی ہے۔ ماحولیاتی آلودگی،گرد وغبار اور تیز روشنی ہمیشہ آنکھوں کو متاثر کرتی ہے۔ موسمی اثرات کی وجہ سے آنکھوں کا ایک مرض بکثرت پھیلتا ہے۔ جب یہ مرض پھیلتا ہے تو ایک محتاط اندازے کے مطابق ہر ساتواں شخص اس مرض میں مبتلا پایا جاتا ہے۔اس مرض کو آشوبِ چشم کہا جاتا ہے۔
برسات کے بعد اور موسم کی تبدیلی کے وقت آشوبِ چشم بڑی تیزی سے پھیلتا ہے۔یہ ایک انتہائی تکلیف دہ مرض ہے جسے طبی اصطلاح میں رمد(pinkeye) کہا جاتا ہے جبکہ عوام الناس اسے آنکھ دکھنا یا آنکھ آنا بھی کہتے ہیں۔اس مرض میں مریض کی آنکھیں سوج کر سرخ اور بھاری ہو جاتی ہیں۔آنکھوں میں دکھن اور جلن کا احساس شدت سے ہونے لگتا ہے۔
آنکھو ں سے پانی نما پتلی رطوبت ہر وقت بہتی رہتی ہے اور آنکھیں تیز چمک یا روشنی برداشت نہیں کر پاتی ہیں۔ سو کر اٹھنے سے آنکھوں کی پتلیاں باہم چپک جاتی ہیں اور مریض درد کی شدت کو بڑی مشکل سے برداشت کرتا ہے۔آشوب ِ چشم عام طور پر ایک چھوتی بیماری ہوتی ہے جو ایک شخص سے دوسرے میں منتقل ہو جاتی ہے۔
اگر چہ آشوبِ چشم کا کوئی خاص موسم یا وقت نہیں ہوتا لیکن موسمِ برسات کے بعد اس کے حملہ آور ہونے کے امکانات زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔ بارش ہو جانے کے بعد نکلنے والی دھوپ شدید تیز ہوتی ہے جو نہ صرف چبھن کا باعث بنتی ہے بلکہ آنکھوں کو چندھیانے کا سبب بھی۔
سورج کی چمک آنکھوں پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے جس سے آنکھیں متورم ہو کر آشوبِ چشم میں مبتلا ہو جاتی ہیں۔علاوہ ازیں سڑکوں پر چلنے والی ٹریفک سے برسات کے دنوں میں گندے ذرات،گرد و غبار اور ماحول کی آلودگی میں اضافہ ہوجانا بھی اس مرض کے پھیلاؤ کا باعث بن جاتا ہے۔
وبائی امراض پر قابو پانا آسان نہیں ہوتا۔ ہاں البتہ چند ایسے امراض جو مخصوص مدت کے بعد خود ہی ختم ہو جاتے ہیں۔آشوبِ چشم بھی ان میں سے ایک ہے۔ سات سے دس دنوں کے بعد خود ہی چلا جاتا ہے۔جب اس کی وبا پھیلتی ہے تو اس کے سامنے بچے،بوڑھے، جوان مرد اور عورتیں سب ہی بے بس ہوتے ہیں۔آشوبِ چشم کے حملہ سے بچنے اور اس کی شدت میں کمی کرنے کے لیے چند حفاظتی تدابیر اور احتیاطی تراکیب تحریر کی جاتی ہیں جن پر آپ عمل پیرا ہو کر خاطر خواہ حد تک آشوبِ چشم کے اثرات سے محفوظ رہیں گے۔
آشوب چشم میں حفاظتی تدابیر
آ نکھوں پر ہلکے سبز،سیاہ اور نیلے شیشے والی عینک کا استعمال کیے بغیر گھر سے باہر نہ نکلیں۔ عینک لگائے بغیر موٹر سائیکل یا سائیکل ہر گز نہ چلائیں،کیونکہ ہوا میں شامل ذرات اور دھواں بھی آنکھوں میں پڑ کر آشوبِ چشم کا باعث بنتے ہیں۔ تیز روشنی اور چمک دار چیزوں کی طرف دھیکنے سے پر ہیز کریں۔
ٹی وی بھی عینک لگائے بغیر نہ دیکھا جائے اور ٹی وی سکرین کافی فاصلے پر رکھیں۔ اسی طرح کمپیوٹر استعمال کرنے والے افراد بھی احتیاط کریں کہ کمپیوٹر پر عینک لگائے بغیر نہ بیٹھا جائے۔ خوراک میں تمام تر گرم اور ترش اشیا حتی المقدور کم کردی جائیں۔
سکوائش،سکنجبین وغیرہ استعمال کریں لیکن موسم کی مناسبت اور مناسب مقدار میں۔ اسی طرح چکنائی اور تیزمصالحہ جات والی غذاؤں سے بھی مقدور بھر بچنے کی کوشش کریں بالخصوص بیگن،بھنڈی،گوبھی دال مسور،دال چنا اور بڑے گوشت وغیرہ سے مکمل طور پر اجتناب برتا جائے۔
حفظِ ما تقدم کے طور پر پھٹکڑی سفید 50 گرام کو 5 کلو پانی میں حل کرکے200 ملی لٹر عرقِ گلاب ملا کر گھر میں رکھیں اور صبح و شام مذکورہ محلول سے آنکھوں کو دھوتے رہیں، یوں آپ آشوبِ چشم کے حملے سے ممکنہ حد تک بچے رہیں گے۔
اسی طرح اس مرض میں مبتلا افراد سے ہاتھ ملانے کے بعد آنکھوں کو ہاتھ لگانے سے احتیاط کریں۔ مریضوں کے ساتھ مل بیٹھ کر کھانے پینے سے بھی پر ہیز کریں۔صاف ستھرے رہیں،باہر سے گھر آنے کے فوراََ بعد ہاتھ منہ ضرور دھوئیں۔
احتیاطی تراکیب
خدا نخواستہ اگر آپ آشوبِ چشم کی لپیٹ میں آ چکے ہیں تو گبھرایئے نہیں آپ اس تکلیف سے جلد ہی نجات حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ آپ درج ذیل باتوں پر دھیان دیں:
اول : دھوپ میں نکلنا بند کردیں اور تیز روشنی کی طرف بھی ہر گز نہ دیکھیں۔
دوم: نظری کام کرنے والے خواتین و حضرات لکھنے پڑھنے سے گریز کریں اور دماغی محنت بالکل نہ کریں۔
سوم : گرد وغبار اور دھواں آنکھوں میں نہ پڑنے دیں۔
چہارم : آنکھوں پر سبز رنگ کا چشمہ اور سر پر کپڑا لٹکائیں۔
پنجم : آنکھوں پر برف کی ٹکو ر کریں اور خارش یا جلن ہونے کی صورت میں آنکھوں کو زور سے نہ ملیں بلکہ کوشش کریں کہ با لکل بھی نہ ملیں۔
ششم :آنکھوں سے بہتے پانی کوپُونچھنے کے لیے ٹشو پر ہلدی استعمال کریں۔
ہفتم: بار بار پپٹوں کو ملنا اور آنکھوں کو صافٖ کرنا مناسب نہیں ہوتا اگر ضرورت پڑے بھی تو نرمی اور آہستگی سے ملیں۔
آشوب چشم کا علاج
اول: ہلدی 5 گرام کو عرقِ گلاب 50 ملی لٹر میں ملا کر محلول بنا لیں۔دن میں 3 سے 5 بار چند قطرے آنکھوں میں ٹپکائیں۔
دوم : 50 ml عرقِ گلاب میں 5 گرام پھٹکڑی سفید حل کرکے آمیزہ تیار کریں۔اور وقفے وقفے سے چند قطرے آ نکھوں میں ڈالتے رہیں۔آنکھوں میں واقع جلن اور دھکن میں کمی ہونا شروع ہو جائے گی۔
سوم : سبز دھنیا کا پانی نکال کر آنکھوں کے ارد گرد ہلکوں پر لیپ کریں۔مرض کی شدت میں کمی واقع ہوگی۔
چہارم : عرقِ گلاب 250ml میں کافور حل کر کے محلول تیار کر کے روئی سے آنکھوں پر لگانا آشوبِ چشم سے نجات دلاتا ہے۔
پنجم : ایک گرام ریٹھا صاف پانی میں گھس کر دو قطرے آنکھوں میں ڈالنا بھی مفید ثابت ہوتا ہے۔
ششم : گھیکوار کے پتوں کا پانی نچوڑ کر آنکھوں میں ڈالنا بھی آشوبِ چشم کے مرض سے چھٹکارا دلاتا ہے۔
ہفتم : سفوفِ ہلیلہ (آملہ ایک گرام،بھیڑہ ایک گرام،ہرڈ ایک گرام)ایک چمچ رات کو پانی میں بھگو کر صبح نہار منہ پینا بھی لا تعداد فوائد کا باعث ہے۔
ہشتم : رات کو سوتے وقت اطریفلِ کشنیزی،اطریفل منڈی اور معجون عشبہ نصف چمچ عرق، سونف کے ایک کپ کے ساتھ کھانا بھی مرض کی شدت میں بتدریج کمی لاتا ہے۔
پرہیز
غذاؤں میں بکری کا گوشت،گھیا توری،ٹینڈے وغیرہ کا شوربہ سرخ مرچ کے بغیر استعمال کریں۔ چپاتی بالخصوص توے کی روٹی بھی فوائد کی حامل ہوتی ہے۔ دالوں میں مونگ کی دال اور دلیا وغیرہ بہترین غذائیں ہیں۔ آلو اور قیمے والے نان،کلچے وغیرہ با لکل ترک کر دیں۔ بازاری ا ور کولامشروبات اور چائے و کافی کو خیر باد کہہ دینے میں ہی عافیت ہو تی ہے۔علاوہ ازیں صبح و شام نہانا اور صاف ستھرے لباس کا پہننا بھی آشوبِ چشم سے بچنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔