مولوی

مولوی

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر شائستہ جبیں :

مولوی ۔۔۔۔۔
یہ لفظ سُنتے ہی ذہن میں ایک مدقوق، نحیف ونزار، مفلوک الحال اور بظاہر ذرا سی بھی نمایاں شخصیت نہ رکھنے والے فرد کا عکس نمودار ہوتا ہے. ایک ایسا شخص جو کسی بھی ظاہری یا باطنی خصوصیت کا حامل نہیں ہوتا اور نہ ہی معاشرہ اس کی کسی خوبی کو مُثبت انداز میں قبول کرنے کو تیار ہوتا ہے.

یہ کردار اور بہت سے رسوم و رواج اور خُرافات کی طرح جنوب ایشیائی ممالک خصوصاً پاک و ہند میں پایا جاتا ہے، بلکہ تذلیل کے لیے پالا جاتا ہے، کہنا مناسب ہو گا.

دلچسپ امر یہ ہے کہ یہ دونوں معاشرے اس کردار کے بغیر خود کو ادھورا تصور کرتے ہیں اور ہر مذہبی فریضہ کی ادائیگی کے لئے اس کی موجودگی کے محتاج ہیں، لیکن اسے کوئی عزت اور مقام و مرتبہ دینے کو آمادہ نہیں ہیں.

اس رویے کی بنیادی وجہ مذہب سے لاعلمی اور خود اس کے علم کے حصول کے لیے تیار نہ ہونا ہے. اسلامی تعلیمات کا تقاضا تو یہ ہے کہ ہر مسلمان کو مذہبی فرائض (مثلاً امامت، نماز جنازہ، فاتحہ، نکاح، دعا) کرانے کا اہل ہونا چاہئے اور ان کاموں کے لئے کسی مخصوص فرد کا ہونا غیر ضروری ہے. لیکن غیر مسلموں کے ساتھ طویل اختلاط کے نتیجے میں انہی کی طرح عبادت کے لیے مخصوص افراد کا تصور مسلمانوں میں بھی سرایت کر گیا ہے اور مولوی نامی کردار کو مذہبی رسوم کی ادائیگی کے لیے لازم سمجھا جانے لگا ہے.

مولوی کو صرف حقیر اور بے توقیر سمجھا ہی نہیں جاتا بلکہ گھر کا سب سے کند ذہن بچہ جس کے بارے میں یقین ہو کہ کسی اور میدان میں نہیں چل سکے گا، اُسے مدرسے میں مولوی بننے کے لیے داخل کرا دیا جاتا ہے (سوائے چند ایک گھرانوں کے جو بلا تخصیص اپنے تمام بچوں کو علوم دینیہ بھی پڑھانے کا اہتمام کرتے ہیں).

کم خرچ بالا نشین کی مثال پر عمل کرتے ہوئے مدرسے کو اخراجات کے نام پر معمولی سی رقم اور بعض تو معمولی رقم بھی دینا گوارا نہیں کرتے. وہی اہل خانہ جو کسی نام نہاد انگریزی زبان سکھانے والے اداروں کو ماہانہ ہزاروں روپیہ فیس کے نام پر ادا کر رہے ہوں گے، لیکن مدارس سے توقع یہی ہوتی ہے کہ وہ فی سبیل اللہ ان کے بچے کو دینی علوم میں مہارت تامہ عطا کر دیں.

مدارس کو نہ تو حکومتی سرپرستی میسر ہوتی ہے اور نہ والدین کسی معاشی امداد کے لئے تیار ہوتے ہیں. نتیجتاً بیشتر مدارس چندے کی رقوم سے اخراجات پورے کرنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں. دور دراز کے طلباء کو رہائش اور کھانا بھی فراہم کیا جاتا ہے. ناکافی سہولیات، طلباء کی کثیر تعداد، پڑھائی کا بوجھ، یہ اکثر مدارس کی امتیازی خصوصیات ہیں.

بچے کے رجحان یا دلچسپی جانے بغیر گھر والے اور مدرسے والے مل کر معاشرے کو ایک مولوی دینے کی طویل اور صبر آزما مشقت میں لگ جاتے ہیں. بچہ دماغ کا استعمال صرف رٹا لگانے کے کر سکتا ہے، سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو تالا لگا کر کُنجی گم کر دی جاتی ہے کہ کہیں وہ خدانخواستہ سوچنے کے جرم میں ہی مبتلا نہ ہو جائے.

ہر فرقہ کے مدارس اپنی اپنی مرضی کا نصاب گھوٹ کر بچے کو پلا دیتے ہیں اور وہ ساری عمر توتے کی طرح رٹے نصاب کو دہراتا رہتا ہے اور اس سے ایک انچ آگے پیچھے ہونے کو تیار نہیں ہوتا.

اسلام جو دین فطرت ہے، مذہبی ہم آہنگی کا قائل ہے، برداشت اور معافی کو مذہبی تعلیمات کا اہم حصہ قرار دیتا ہے، وسیع القلبی اور اعلیٰ ظرفی کا درس دیتا ہے، دوست، دشمن سب کے ساتھ عدل کا درس دیتا ہے، ایک اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے کا حکم دیتا ہے، مسلمانوں کو جسدِ واحد کی مانند قرار دیتا ہے، محبت، امن اور سلامتی کا علمبردار ہے، وہ واحد مذہب ہے جو دین اور دنیا میں توازن کو لازم قرار دیتا ہے، اس بے مثال مذہب کی نمائندگی کی ذمہ داری ہم بغیر کسی خرچ کے صدیوں پرانے نصاب کا رٹا لگا کر تیار ہونے والے ” آفیشل مولوی “ کے سپرد کر کے بری الذمہ ہو جاتے ہیں.

نماز پڑھنی ہے تو مولوی کی ضرورت ہے، جمعہ، عیدین کے اجتماعات ہوں تو مولوی صاحب کے بغیر نامکمل، نکاح پڑھانا ہے تو مولوی صاحب طلب کیے جائیں گے، موت ہو گئی جنازہ پڑھانے کے لیے مولوی صاحب کی آمد کے منتظر رہیں گے،

وہ مولوی جو ایک معمولی اعزازیہ پر شہر، ہر محلے کی چھوٹی بڑی مسجد میں دستیاب ہے. مذہب کی تعلیمات کا جائزہ لیں تو ان تمام عبادات اور فرائض کی ادائیگی کے لئے کسی مخصوص فرد کی ضرورت کا کہیں ذکر نہیں ہے. مشہور سکالر ڈاکٹر اسرار احمد فرمایا کرتے تھے کہ

” ہم نے مولوی کو ایک پیشہ بنا دیا ہے. ہر بیٹے کو اس قابل ہونا چاہیے کہ وہ اپنے باپ کا جنازہ خود پڑھائے اور ہر باپ کو اس قابل ہونا چاہیے کہ وہ اپنی بیٹی کا نکاح خود پڑھائے. بیٹے کے دل سے باپ کے لئیے اور اولاد کے لئے ماں باپ کے دل سے جو دعا نکلتی ہے، وہ کسی پیشہ ور فرد کے دل سے نہیں نکل سکتی. “

مذہب کی تعلیم حاصل کرنا معاشرے کے ہر فرد کی ذمہ داری ہے، اس کے کسی فرد کو مخصوص کر کے پھر اس کی تضحیک کرنے کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے. دینی علوم پر دسترس ہونا ہمارے پر بچے کا اولین فرض ہونا چاہیے اور والدین کو اس فریضہ کی ادائیگی کو اولین ترجیح بنانا چاہیئے.

قرآن مجید جگہ جگہ افلا یتدبرون، افلا یعقلون یعنی عقل کے استعمال اور غوروفکر کا درس دیتا ہے. ہمارے ہر بچے اور معاشرے کے ہر فرد کو اپنی بہترین ذہنی صلاحیتیں مذہبی تعلیمات کے حصول میں صرف کرنی چاہئیں. تدبر و تفکر گہرے غور و خوض کو کہتے ہیں اور یہ اعلیٰ ذہنی صلاحیت کا حامل فرد ہی کر سکتا ہے. اس لیے ہمارے ہر فرد کو مولوی ہونا چاہئے.


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

4 پر “مولوی” جوابات

  1. Kalsoom razzaq Avatar
    Kalsoom razzaq

    MashAllah…hamisha ke tarah aik umdaa tehreer…boht acha likha…deen ke taleem hasil …krna sb pay lazim hy

  2. Zakia Suleman Avatar
    Zakia Suleman

    Thought provoking and beautifully written😍😍😍

  3. حفظہ علی.. Avatar
    حفظہ علی..

    Bhttt acha.. DR Israr Ahmad ny kia khoob frmaya… 👍

  4. مسز شہناز محسن سیال Avatar
    مسز شہناز محسن سیال

    ماشااللہ اللہہ سلامت رہیں بہت خوب پہت عمدہ تحریر ہے اللہ کرے زور قلم اور زیادہ