عبید اللہ عابد :
پاکستان میں ریلوے کے وزیر شیخ رشید ریلوے کے بجائے بہت سے دیگر کام کرتے ہیں، مثلا پیش گوئیاں کرنا، عمران خان کے مخالفین کے برے مستقبل کی خبر دینا حتیٰ کہ وہ ڈی جی آئی ایس پی آر کا کام بھی سنبھال لیتے ہیں، بس ! ایک ریلوے کا کام نہیں کرتے، جو ان کی اصل ذمہ داری ہے۔ نتیجتاً ریلوے بدترین حالات سے دوچار ہوچکی ہے۔
گزشتہ روز کراچی میں معروف سکالر مولانا ڈاکٹر عادل خان کا قتل ہوا تو وزیر موصوف نے پاکستانی عوام کے سامنے ” انکشاف “ کیا کہ بھارت پاکستان میں فرقہ وارانہ فسادات کروانے کی سازش کررہا ہے۔ کچھ ہی دیر بعد وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان کا بیان بھی سامنے آگیا :
” بھارت علما کرام کی ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے ملک بھر میں فرقہ وارانہ فسادات کرانا چاہتا ہے علما لوگوں کو اس سازش کا حصہ نہ بننے دیں۔ “
پہلی بات :
پاکستان کے حکمران اس طرح کے بیانات دے کر نہایت فضول مشق کرتے ہیں۔ پاکستان کے عوام جانتے ہیں کہ بھارت پاکستان کا دشمن ہے، دوست نہیں۔ پاکستانی عوام جانتے ہیں کہ دشمن کا کام دشمنی کرنا ہی ہوتا ہے، وہ دوستی نہیں کرتا۔ اس لئے وزیراعظم عمران خان اور شیخ رشید ایسے بیانات دے کر اپنا وقت ضائع کررہے ہیں۔ قوم ایسے ” انکشافات “ کو کوئی اہمیت نہیں دیتی۔
دوسری بات :
حکمرانوں کا کام بیانات دینا نہیں ہوتا، دشمن کی دشمنی کا راستہ روکنا ہوتا ہے لیکن افسوس ناک امر یہ ہے کہ پاکستان کی موجودہ حکومت صرف بیانات جاری کرکے گزارہ کررہی ہے، عمران خان حکومت اس قدر کمزور ہے کہ وہ ملک میں ہونے والے کسی بھی جرم کی درست تفتیش کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی، مجرم پکڑنا اور اسے سزا دینا تو بہت دور کی بات ہے۔
عمران خان حکومت کیوں مجرم پکڑنے کی صلاحیت نہیں رکھی؟
کیونکہ مجرموں کے سرپرست اور سہولت کار حکومت میں کلیدی عہدوں پر موجود ہیں۔ عمران خان کیسے فرقہ واریت کے خلاف بات کرسکتے ہیں جبکہ انھوں نے نہایت متعصب اور شدت پسند فرقہ پرستوں کی سرپرستی کرنے والوں کو اپنے ساتھ بٹھایا ہوا ہے۔
ایسے وزیروں، مشیروں کی متعصب فرقہ پرستوں اور شدت پسندوں سے ملاقاتیں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ تمام تر ثبوت موجود ہیں۔ وہ انھیں کس طرح سہولتیں فراہم کرتے ہیں، خود بزرگ شیعہ ذاکرین اس کی تفصیل سناتے ہیں۔ اس کے بعد ملک میں فرقہ وارانہ فسادات ہوں تو پھر کم ازکم حکمرانوں کو بھارت کی طرف انگلی کا اشارہ کرنے کے بجائے اپنا چہرہ دیکھ لینا چاہئیے۔
وزیراعظم اگر بھارت کی سازش کو ناکام بنانا چاہتے ہیں تو وہ علما کو نصیحت کرنے سے پہلے اپنی حکومت سے فرقہ پرستوں کو نکال باہر کریں۔ نہ صرف حکومت میں اعلیٰ سطح کے عہدوں سے فرقہ پرستوں کو ہٹائیں بلکہ ملک کے تمام اداروں کو بھی ایسے لوگوں سے پاک کرنے کا اہتمام کریں، ہر ایسے فرد کو انتظامی مشینری کا حصہ بننے سے روکیں جس کے اندر فرقہ وارانہ تعصب کے جراثیم موجود ہیں۔ ایک جامع پالیسی بنا کر بتدریج یہ مقصد حاصل کیا جاسکتا ہے۔
لیکن اس سے بھی پہلے مولانا ڈاکٹرعادل خان کے قاتلوں کا پیچھا کرکے انھیں گرفتار کرنا ہوگا۔ ایک رپورٹ کے مطابق کراچی میں 16 جید علمائے کرام کو قتل کیا جا چکا ہے لیکن ایک کے بھی قاتل گرفتار نہیں ہوئے۔ اس تناظر میں کہنا ہرگز غلط نہ ہوگا کہ پاکستان کی حکومتیں اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں بری طرح ناکام رہی ہیں۔
اور اس ناکامی کی اصل وجہ صرف ایک ہے کہ حکمران اپنا اصل کام کرنے کے بجائے کچھ دوسرے کام کرنے میں لگے ہوتے ہیں۔ یوں جرائم ہوتے چلے جاتے ہیں، مجرم جانتے ہیں کہ ان کا پیچھا کرنے والا کوئی نہیں۔ نتیجتا ً دشمن کو پاکستان کے خلاف سازش در سازش کرنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔