پاکستان کے صوبہ گلگت بلتستان کا ایک دلچسپ اردو سفرنامہ
ابن فاضل :
یہ بستی کیل ہی تھی. بستی کے آغاز میں بائیں طرف ایک بہت خوبصورت سبز فٹ بال کا میدان تھا جس میں فوجی بھائیوں کا فٹ بال مقابلہ ہورہا تھا. درمیان میں لکڑی کی ایک سٹیج سی بنی تھی جس پر کچھ کرسیاں اور مائکروفون وغیرہ لگے تھے. اور میچ پر رواں تبصرہ کیا جارہا تھا. جو میدان میں چاروں طرف نصب کیے گئے مکبر صوت سے ہر طرف سنائی دے رہا تھا. بہت سے لوگ اطراف میں بیٹھے انہماک سے میچ دیکھ رہے تھے.
پچیس کلومیٹر کی مسلسل واک کے بعد ہمارے لیے کچھ دیر سستانے اور حواس بحال کرنے کے لیے اس سے بہتر کوئی اور جگہ نہیں ہوسکتی تھی. ہم سامان اتار کر ہری کچور گھاس پر نیم دراز ہورہے. اگرچہ ہر مہم جوئی سے پہلے صبح کے وقت ہم ایک گھنٹہ فٹ بال کھیلا کرتے تھے. مگر پھر بھی فٹ بال دیکھنا ہمیں کبھی پسند نہیں رہا اس کے باوجود کافی دیر ہم وہیں پڑے رہے. کچھ ہمت جمع ہوئی تو اٹھے اور قریب ترین ہوٹل کی تلاش میں چل دیے.
سڑک کنارے ایک چھوٹے سے دو منزلہ ہوٹل میں دوسری منزل پر دو کمرے ملے. سامان وہاں چھوڑ کر نیچے آئے. بازار میں موجود کسی کھانے والے ہوٹل سے کھانا کھایا، چائے پی اور ایک گرم حمام پر چلے آئے. ایک عام سی باربر شاپ میں داخل ہوئے ، آئینہ کے سامنے کھڑے ہو کر خود پر نظر جب ڈالی ٹھٹھک گئے. وہ جو شخص آئینے میں تھا وہ یقیناً ہم نہیں تھے.
بھلا کہاں ہم گورے چٹے، زبردست، کلین شیو گھنگھریالے بالوں والے ایک جاذب نظر نوجوان اور کہاں یہ کالا بھجنگ برف جلا ( snow burnt ) کمزور سا شخص ، شیو بڑھی ہوئی، بے ہنگم بال اور ہونٹوں پرقلت آب نوشی سے بڑے بڑے چھالے پڑے ہوئے.
ماتھے اور گالوں پر بالکل نوزائیدہ بچوں کی طرح باریک جلد کی چھوٹی چھوٹی جھلیاں ابھرتی ہوئیں، جنہیں کھینچنے پر نیچے سے کسی قدر سفید اور بہتر جلد برآمد ہو مگر سفید اور کالے کے رنگ کے تفاوت سے شکل اور بھی بھیانک لگنے لگے. اس سب کے باوجود آنکھوں میں کامیابی کی چمک اور دل میں ایک زبردست مہم سر کرنے کا خمار جو آج تلک ہے.
خوفزدہ ہو کر باقی دوستوں کو بھی غور سے دیکھا، ایک چٹے کے سوا سبھی کالے ہوئے تھے. چٹا اس لیے نہیں کہ وہ پہلے سے تھا. صبر کے سوا کیا چارہ تھا. شیو کروائی اور حلیہ بہتر کرنے کیلئے دستیاب وسائل اور ہنر سے جو کچھ بن پڑا وہ کیا مگر کچھ زیادہ آفاقہ نہیں ہوا.
اپنی حالت پر پشیمانی یا ترس سے زیادہ اس بات کا خوف غالب تھا کہ ماں جی ! اگر ہمیں اس حالت میں شکستہ و پراگندہ دیکھ لیں گی تو آئندہ شاید کبھی مہم جوئی کی اجازت ہی نہ ملے. بہرحال کچھ بھی ہو گھر تو جانا تھا آٹھ روز تو پہلے ہوچکے تھے گھر سے نکلے. اور شدید ہوم سکنس کا دورہ پڑرہا تھا.
جیسے تیسے رات کھٹملوں سے نبرد آزما ہوتے گزری. صبح مظفرآباد کیلیے بس میں سوار ہوئے. خیال تھا کہ سارا راستہ سوتے ہوئے جائیں گے لیکن وہ کیا ہے کہ
ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں.
اٹھمقام سے کچھ پہلے بس روک دی گئی. سب سواریاں اتار دی گئیں. معلوم ہوا کہ بھارتی درندوں نے لائن آف کنٹرول کے اس پار سے فائرنگ کرکے ہم سے پہلے مظفر آباد جانے والی بس میں سوار کئی لوگوں کو شہید کردیا ہے. اس لیے انتظامیہ نے اٹھمقام پر دونوں اطراف سے آنے والی ٹریفک کو شہر کے باہر کچھ فاصلہ پر روک دیا ہے.
جو لوگ وادی نیلم میں سفر کرچکے ہیں وہ اس بات سے اچھی طرح شناسا ہوں گے کہ وادی میں جانے والی سڑک کی مقامات پر بھارتی مقبوضہ کشمیر کے پہاڑوں کے بالکل سامنے سے اس طور گزرتی ہے کہ درمیان میں صرف دریائے نیلم ہوتا ہے. اس طرف بھارتی مقبوضہ علاقہ اوراس طرف پاکستان. لیکن یہاں بھی یہ بات دیکھنے میں آتی ہے کہ کسی بھی جگہ جہاں ایسی صورتحال ہے وہاں، ان کی طرف کی کوئی آبادی نہیں حتیٰ کہ چھوٹی سی بستی بھی نہیں. جبکہ ہماری طرف بڑے بڑے قصبے عین لائن آو کنٹرول پر واقع ہیں.
نہیں معلوم یہ تقسیم کا جبر ہے یا ہماری کم حکمتی، بہرحال ہے. اور اسی کا ہم گاہے خمیازہ بھگتتے رہتے ہیں. ان کا جب جی چاہتا ہے چھوٹے ہتھیاروں سے ہی ہمارے معمولات زندگی درہم برہم کر دیتے ہیں. اور آج بھی یہی ہورہا تھا لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک بات اور بھی قابل ذکر ہے. جہاں کہیں ان کے کے اکا دکا گھر ادھر سے نظر آتے ہیں وہ انتہائی خستہ حال اور بوسیدہ سے ہوتے ہیں، جبکہ ہماری طرف بہت زبردست، خوبصورت اور نئے نئے دکھائی دیتے ہیں. اس سے شاید دونوں طرف کے معاشی حالات کا کچھ اجمالی تقابل کیا جا سکتا ہے.
چاہتے نا چاہتے ہم بس سے اترے، سامان اتروا کر ایک طرف رکھا جہاں لوگوں کا مجمع تھا وہاں جاکر بلاواسطہ معلومات (first hand knowledge) حاصل کرنے کی کوشش کی. جو معلوم پڑا وہ ہمارے لیے تو جاں گسل ہی تھا. سب لوگ یہاں سے پہاڑ پر عموداََ اوپر جائیں گے. پھر پہاڑ کی دوسری طرف پگڈنڈی پر قریب چار کلومیٹر پیدل سفر کریں گے اور پھر واپس شاہراہ نیلم پر آئیں گے. وہاں سے مظفرآباد کی بسیں ملیں گی. اسی طرح مظفر آباد سے آنے والے بھی یہ حصہ پیدل پار کرکے یہاں تک پہنچیں گے.
آپ اندازہ کریں کہ ہم ” شوریدہ سر، ژولیدہ فکر دیوانگانِ کوہ نوردی، جاں نثارانِ حسنِ فطرت “ پر اب کیا بیت رہی تھی. بالکل وہی جو مرغ مسلم اور متنجن سے سیرشکم کسی گاؤں کے مولوی پر بیتے جسے زبردستی دال کھلائی جارہی ہو.
اس پر مستزاد یہ کہ مقامی لوگوں کا خیال تھا کہ ہمارے رک سیکس کی وجہ سے دشمن کے فوجی ہمیں مجاہدین سمجھیں گے اور ضرور نشانہ بنائیں گے. یہ آفت بالکل نئی اور غیر متوقع تھی. ہم متفکر ہوئے کہ اب کیا حکمت عملی اختیار کی جائے. غوری صاحب بیحد خائف تھے. کہنے لگے سارے تھیلے بلاتاخیر دریا برد کردیے جائیں.
مجھے نہیں مرنا میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں. یاد رہے کہ ان کے والد صاحب کا انتقال ہوچکا تھا اور وہ اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کے واحد کفیل تھے. باقی تینوں کی کسی قدر بے فکری کی شاید ایک وجہ فارغ البالی بھی تھی کہ اپنی ذمہ داری بھی خود اپنے کاندھوں پر نہ تھی. اب یہاں ہماری جسمانی ہی نہیں ذہنی صلاحیتوں کا بھی امتحان تھا.
ہم ابھی اسی ادھیڑ بن میں تھے کہ کیا کیا جائے، اس دوران کچھ مقامی نوجوانوں کا ایک قافلہ وہاں پہنچا. ایک جیسے لباس میں ملبوس نوجوان رضاکار سے دکھائی دے رہے تھے. انہوں نے ہمیں دیکھا تو ٹھہر گئے ۔ایک نوجوان نے، جو ان کا گروپ لیڈر لگتا تھا، ہم سے پوچھا کیا ماجرا ہے. ہم نے سارا احوال کہہ دیا. اس نے اپنے جوانوں سے کہا کہ ان کے تھیلے اٹھا لو.
اس سے پہلے کہ ہم کچھ ردعمل دیتے ان میں سے چار جوانوں نے تھیلے اٹھا کر پہن لیے. اور پہاڑ پر چڑھائی کے راستہ کی طرف چل دیے. تب اس گروپ لیڈر نے کہا کہ جب ہم پہاڑ کی دوسری طرف اتر جائیں تو آپ چڑھنا شروع کرنا اس سے پہلے نہیں. ہم آپ کو دوسری طرف والے راستے پر ملیں گے.
ایک لحظہ کو ہم نے سوچا کہ کہیں ہمارے ساتھ کوئی دھوکہ تو نہیں ہورہا. پھر جی میں آئی کہ جتنی قدراس سامان کی ہے جو ان تھیلوں میں ہے اس سے کہیں زیادہ تو ان کو پہاڑ کے اس پار پہنچانے کے مشاہرہ ہی بن جائے گا لہٰذا ہم کسی طرح بھی خسارے میں نہیں، اور یوں بھی دریا برد کرنے سے تو بہرحال اس طریقہ میں واپس ملنے کے امکانات زیادہ ہیں.
سو بے فکر ہورہے. وہ نوجوان پہاڑ پر چڑھتے ہوئے ہماری نظروں سے اوجھل ہوگئے. تب ہم نے اللہ کا نام لے کر چڑھنا شروع کیا. الحمدللہ دشمن کے فوجیوں نے ہمیں اس قابل نہیں جانا کہ اپنا اسلحہ ہم پر ضائع کرتے یا شاید ہمارے جوانوں کی جوابی کارروائی سے وہ مورچے چھوڑ کر بھاگ نکلے تھے.
کچھ دیر بالکل عمودی چڑھائی چڑھنے کے بعد ہم پہاڑ کے دوسری طرف اترے تھے. تھوڑا ہی نیچے ایک محکمہ جنگلات کا جیپ کا راستہ تھا. اس پر کچھ آگے وہی رضاکار بیٹھے ہمارا انتظار کررہے تھے. ہم نے ان کا بہت سا شکریہ ادا کیا. وہ چل دیے. دوبارہ کبھی نظر نہیں آئے. ہم نے اس بروقت غیبی امداد پر اللہ کریم کا بہت شکر ادا کیا.
سچ ہے کہ فطرت بہادروں کی مدد سے اعراض نہیں برتتی. کچھ دیر آرام کرنے کے بعد ہم اس راستہ پر ہولیے. گھنٹہ بھر چلنے کے بعد وہ مقام آیا جہاں سے ہمیں نیچے سڑک کی طرف اترنا تھا. ہمیں نہیں معلوم تھا اس جگہ اترائی پر ہم دشمن کی نگاہوں میں تھے یا نہیں لیکن ایک تسلی ضرور تھی کہ روک سیک کمر پر ہونے کی وجہ سے شاید اتنے واضح نظر نہ آرہے ہوں گے.
اللہ کریم کی مہربانی سے کچھ دیر بعد ہم بستی میں آچکے تھے. یہ اٹھمقام کا آخری کنارا تھا یا شاید پہلا. اس جگہ سڑک پر بہت گہما گہمی تھی. مظفر آباد جانے کیلئے بسیں بھی دستیاب تھیں. پہاڑوں پر عموماً اور اس علاقے میں بالخصوص جو بسیں چلتی ہیں ہو سامنے سے پرانے بیڈ فورڈ ٹرکوں ایسی ہوتی ہیں. اور پچھلا حصہ بھی عام بسوں کی طرح چوکور نہیں بلکہ کھڑکیوں والی جگہ سے کسی قدر گول سا ہوتا ہے. جن کے شیشے بھی گولائی میں اوپر کو کھلتے ہیں. عرف عام میں انہیں راکٹ کہا جاتا ہے.
ہم بھی ایسے ہی ایک راکٹ میں سوار ہوگئے. لیکن یہاں ہم عجلت یا دباؤ میں کھانا کھانا ہرگز نہیں بھولے. موٹے لوبیے کے ساتھ گرما گرم تندوری روٹیاں موٹے کٹے ہوئے پیاز کے ساتھ بہت بھلی لگتی ہیں. نیز اس بار ہم نے بس میں سوار ہوتے ہوئے ہرگز نہیں سوچا کہ سیٹ پر جاتے ہی سو جائیں گے، بلکہ غیر ارادی طور خود کو کسی نئی مہم، کسی نئے خطرے کیلئے تیار کرتے ہوئے بیٹھے تھے لیکن اس بار اب خیریت رہی ۔ ہم رات آٹھ بجے کے قریب مظفر آباد پہنچ چکے تھے.
مظفرآباد سے براہ راست لاہور جانے والی بس کی بکنگ کروائی گئی. جسے رات دس بجے روانہ ہونا تھا. ہمارے پاس تازہ دم ہونے اور رات کا کھانا کھانے کیلئے وافر وقت موجود تھا. سو اس وقت کا درست استعمال کیا گیا. بس میں سوار ہوتے ہی اس بار بہرحال ہم ’ کوک ‘ سوئے تھے. ایک بار آنکھ کھلی جب ڈرائیور رات کے کسی پہر مری کے نواح میں پہاڑوں کی گولائیوں سے بڑی چابک دستی سے نبرد آزما تھا.
اس کے بعد پھر ہمیں جب ہوش آیا جب ہم لاہور بس اڈے پر پہنچ چکے تھے. راستہ میں کھوکھر صاحب کس وقت نظام آباد وزیر آباد اترے ہمیں نہیں معلوم. صبح کے چھ بجے تھے. سامان ایک رکشہ میں پھینکا اور تینوں اس میں سوار ہوئے. راستہ میں ہم نے پکا عہد کیا کہ دفعہ کرو یار یہ کام ہی بیکار آئندہ کبھی ہائکنگ کیلئے نہیں جانا.. اور اگلے کم از کم ڈھائی ماہ ہم اس عہد پر قائم رہے.
ختم شد
( اگر کہیں گے تو کسی ایک آدھ مہم کا احوال اور بھی سنا دیں گے.)