قربان انجم :
اس وقت بھٹو کی لاش تختہ دار پر لٹک رہی تھی ( 1 )
میرخلیل الرحمن نے مجھے فون کیا اور کہا کہ آئیندہ اس قسم کی خبر ہو تو مجھے براہ راست بتادیا کرو۔ مجھے اس پر تقویت ملی۔ اس روز بطور خاص اس لئے کہ میں نے اس کا فالو اپ بھی حاصل کرلیا تھا۔ برادرم ممتاز اقبال ملک ہی کے توسط سے یہ اطلاع ملی تھی کہ صدر نے گورنر کی سفارش کے مطابق بھٹو کے متعلق رحم کی اپیل مسترد کردی ہے۔
یہ خبر رات گئے کنفرم ہوئی، میں نے بارہ بجے رات اپنے راولپنڈی آفس کو بھجوا دی۔ وہاں سے میر خلیل الرحمن صاحب کو بھی اس کی اطلاع کردی گئی، اس درخواست کے ساتھ کہ چونکہ اس میں صدر مملکت ملوث ہیں، ان سے تصدیق کرلی جائے۔
اس خبر میں باخبر ذرائع کے حوالے سے پھانسی کی صحیح تاریخ بھی بتا دی گئی تھی۔ معاملہ بے حد حساس تھا، اس لئے ” جنگ “ راولپنڈی کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر شورش ملک مرحوم نے میرصاحب سے کہا کہ وہ اس بارے میں خود صدر مملکت سے بات کریں۔ میر خلیل الرحمن نے صدر جنرل محمد ضیا الحق سے فون پر خبر کی تصدیق کرنے کی کوشش کی مگر ناکام رہے۔
صدر جنرل محمد ضیا الحق کے ٹیلی فون آپریٹر نے میر صاحب سے ان کا نمبر لے لیا اور کہا کہ آپ کو کال بیک کرواتا ہوں۔ چند منٹ کے بعد صدر ضیا الحق نے کال کی تو میر صاحب نے کہا:
” جناب صدر ! کیا یہ بات درست ہے کہ آپ نے ذوالفقار علی بھٹو کے لئے رحم کی اپیل مسترد کردی ہے؟“
صدر مملکت نے براہ راست اور قابل فہم جواب دینے کے بجائے کہا:
” میر صاحب ! اس وقت میری میز پر رحم کی چار سو اپیلیں پڑی ہیں، آپ ان کے بارے میں کیوں نہیں پوچھتے، صرف ایک مخصوص شخص میں آپ کو کیا دلچسپی ہے؟ “
میر صاحب نے کہا : ” صدر محترم ! آپ سے بہتر کوئی نہیں جانتا کہ مجھے بطور صحافی اس مخصوص شخص کے کیس ہی سے کیوں دلچسپی ہے۔ آپ اس حقیقت سے بھی بخوبی آگاہ ہیں کہ ہمیں عوام اور قارئین کی دلچسپی کو مدنظر رکھنا پڑتا ہے۔ ان کی دلچسپی ہی ہماری زبان میں نیوز ویلیو ( خبر کی اہمیت ) کہلاتی ہے، اس لیے آپ مہربانی فرمائیں اور میرے رپورٹر کی ارسال کردہ خبر کی تردید یا تصدیق فرما دیں۔ “
صدر ضیا الحق نے اپنے مخصوص انداز میں طرح دیتے ہوئے کہا:
Mir sahib ! Need not worry. You will get the news well in time .اور ہنستے ہوئے مکالمہ ختم کردیا۔ اس طرح خبر کی تردید ہوسکی اور نہ تصدیق۔ میر صاحب نے راولپنڈی آفس کے ذمہ داروں کو بعض ہدایات کے تحت خبر شائع کرنے کو کہا۔ اگلے روز میں نے خبر پڑھی تو وہ واضح اور قابل فہم نہیں تھی۔ گول مول انداز میں اگر مگر کے ساتھ شائع کی گئی تھی۔
بھٹو کو پھانسی دئیے جانے کے کچھ عرصے بعد کسی تقریب میں صدر جنرل محمد ضیا الحق سے میرخلیل الرحمن کی ملاقات ہوئی تو میر صاحب نے شکایت کی ” آپ نے خبر کی تصدیق کرنے سے گریز کیا، حالانکہ یہ خبر سچ تھی۔ اگر ہم آپ کے ” سرکاری “ لوگوں سے تصدیق کرواتے ہیں تو وہ بھی بالعموم یہی روش اپناتے ہیں۔ ان کی منشا کے خلاف چاہے سچی خبر ہی چھپ جائے تو شکایت کرتے ہیں۔ بلکہ ڈانٹتے ہیں کہ ہم سے رابطہ کرکے حقیقت حال معلوم کرلیا کرو ! “
صدر ضیا الحق نے ” طرح مزید “ کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا : ” میر صاحب ! میں نے آپ سے یہی کہا تھا کہ آپ کو بروقت خبر مل جائے گی اور ہم نے بھٹو کو پھانسی دیے جانے کی خبر گیارہ بجے دن ریڈیو پاکستان پر نشر کردی تھی۔ “
چار اور پانچ اپریل 1979کی درمیانی شب مجھے شورش ملک نے کہا کہ
” آج رات ہمارے رابطے میں رہیں ۔“ اس کا مطلب واضح تھا کہ رات کچھ ہونے والا ہے۔ کیا ہونے والا ہے؟ اس کا اندازہ ہمیں صبح ہی سے تھا اور تصدیق کے لئے ہی میں اور منیر کاظمی سیکرٹریٹ میں رات کو ہونے والے ” وقوعہ “ کی تفصیلات جمع کرتے رہے تھے۔
ہم اتفاقاً ہوم ڈیپارٹمنٹ کے سیکشن آفسر کے کمرے کے قریب سے گزر رہے تھے کہ اچانک دروازہ کھلا۔ اندر سے ایک فوجی افسر ایک پولیس آفیسر کی معیت میں نہایت عجلت کے ساتھ باہر نکلا۔ اس کے ہاتھ میں ایک فائل تھی جس پر ایک سرخ لکیر نمایاں نظر آرہی تھی۔ ہماری چھٹی حس نے پکارا، یہ بھٹو کیس کے متعلق فائل ہے۔ ان افسروں سے بات کرنے کا کوئی فائدہ نہ تھا اس لئے ہم سول سیکرٹریٹ میں اپنا ” کام “ نمٹا کر اپنے اپنے دفتر پہنچ گئے۔
خبر کی مزید تفصیلات کے لئے ہم نے تقسیم کار کا اصول اپنایا۔ باقی لوگوں سے رابطے منیر کاظمی اور ممتاز اقبال ملک نے کرنے تھے۔ مجھے یہ ٹاسک سونپا گیا تھا کہ رات آٹھ بجے کے قریب سیکرٹری داخلہ کو گھر فون کرکے استفسار کرنا ہے ” کیا بھٹو کیس کی فائل اسلام آباد پہنچ گئی ہے یا نہیں ؟ “ اور اس سوال کا جو بھی جواب ملے، اسی پر اکتفا کریں اور سوال در سوال سے گریز کریں۔ ( جاری ہے )