رابعہ حسن ، اردو کالم نگار

زلزلہ 2005 : میں ملبے سے زندہ کیسے نکلی؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

رابعہ حسن :

یہ ابھی کل ہی کی بات لگتی ہے کہ جب میں سرو قامت درختوں کے سائے تلے کالج کی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے کہہ رہی تھی کہ اگر کوئی طلب علم میں گھر سے نکلے اور مارا جائے تو وہ شہید ہے۔

تب میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ میرے کہے گئے الفاظ تھوڑی ہی دیر میں بھیانک سچائی کا روپ دھارنے والے ہیں۔ تب میں آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد کے فاطمہ جناح پوسٹ گریجویٹ کالج میں سال سوم کی طالبہ تھی۔ بہت سی طالبات کو میرے الفاظ اور تقریر کی طوالت گراں گزر رہی تھی۔ ان کی خواہش تھی کہ کسی طور میری تقریر مختصر ہو اور وہ اس سے جان چھڑا کر جا سکیں۔

تھوڑی ہی دیر بعد کلاس روم میں جانے پر مجھے پتا چلا کہ جہاں میں بیٹھا کرتی تھی وہاں آج کوئی اور لڑکی بیٹھی ہوئی ہے۔ طوہاً و کرہاً مجھے پہلی قطار کے پہلے ڈیسک پر بیٹھنا پڑا۔ ہماری پہلی کلاس انگلش کی تھی، جو کہ میم فریدہ وحید لیا کرتی تھیں۔ میرا رولنمبر 344 تھا، جس کو پکارے جانے کے انتظار میں میں ہاتھ میں سرخ بال پین لیے بیٹھی تھی۔

میم کے کہنے پہ کہ ”غیر حاضر بچیوں کے رول نمبر لکھتی جاؤ رابعہ!“ میں رجسٹر کھولے بچیوں کے رول نمبر لکھ رہی تھی۔ ابھی حاضری 971 تک ہی پہنچی تھی کہ شدید گڑگڑاہٹ نے آ لیا۔ یہ گڑگڑاہٹ اتنی شدید اور اچانک تھی کہ چونکنے کا موقع بھی نہیں ملا۔ جب ہوش آیا میں گردن تک ملبے میں دبی ہوئی تھی۔

”یا اللہ یہ کیا ہو گیا ہے؟ اتنا اندھیرا کیوں ہے؟ کہیں یہ میری قبر تو نہیں“ میرے ذہن میں میں پہلا خیال یہی آیا۔
”نہیں ……نہیں …… میں تو کالج گئی تھی……اور کلاس میں تھی……“ جب حواس ذرا بحال ہوئے تو میں نے اپنے خیال کی خود ہی نفی کی۔

”پر یہ ملبہ کیسے؟“
میرے ذہن میں یہی خیال آیا کہ کہیں انڈیا نے حملہ کر دیا ہے۔ چونکہ کالج کا یہ حصہ بوسیدہ اور پرانا تھا اس لیے گر گیا ہے۔

”میرے گھر والوں کو تو پتا ہی نہیں چلے گا کہ میں یہاں دبی ہوئی ہوں۔ میں یہیں مر جائوں گی، یہ خیال آتے ہی میں نے زور زور سے چیخنا شروع کر دیا۔

”کوئی ہے جو مجھے بچائے؟“ گلا خشک ہونے کی وجہ سے بولنامشکل تھا، مگر اوپر والا ہونٹ کٹ جانے کی وجہ سے خون بہہ کر منہ میں جا رہا تھا، جس سے گلا تر ہو رہا تھا۔ پہلی بار میں نے ارد گرد نظر دوڑائی میرے ارد گرد اور بھی لڑکیاں تھیں جو ملبے میں دبی ہوئی مدد کی منتظر تھیں۔

اتنے میں دو لڑکیاں آئیں اور خدا جانے ان میں اتنی ہمت کہاں سے آئی کہ انہوں نے بھاری سلیں اور بلاک ہٹا کر مجھے ملبے سے نکالا۔ میرا ایک پائوں فرش پھٹ جانے کی وجہ سے اس میں دھنس چکا تھا، جسے جوتے سمیت باہر نکالنا ناممکن تھا۔ اس لیے ان لڑکیوں کے کہنے پہ میں نے جوتے سے پائوں نکالا۔

کالج کا وہ حصہ جہاں فرسٹ ائیر اور تھرڈ ائیر کی کلاسز ہوتی تھیں مکمل طور پر زمین بوس ہو چکا تھا۔ اس لیے باہر گراونڈ میں آنے کے لیے اس ملبے کے اوپر سے گزرنا پڑ رہا تھا۔ میں نے جب اپنے جیسے انسانوں کو ملبے میں دبے دیکھا، تو ان کے اوپر سے چل کر باہر نکلنے سے انکار کر دیا۔ جبکہ وہ دونوں لڑکیاں چیخ چیخ کر کہہ رہی تھیں کہ
”خدا را یہاں سے نکلو، ورنہ جو بلڈنگ کھڑی ہے وہ ہمارے اوپر گر جائے گی۔“

اپنے جیسے انسانوں کے اوپر سے گزرنا بہت دشوار کام تھا۔ جب میں ملبے سے نکل کر کالج گراونڈ میں پہنچی تو میری ایک کزن جو کہ میری سینئیر بھی تھی مجھے دیکھ کر چیخنے لگی، کہ یہ کیا ہو گیا تمہیں؟ اس کے کہنے پہ مجھے احساس ہوا کہ میں تو زخمی ہوں۔ میرا اوپر والا ہونٹ پھٹ چکا تھا، سر میں بھی زخم تھا، کمر اور ایک پاؤں بھی زخمی تھے۔

گرائونڈ میں پہنچ کے پتا چلا کہ یہاں تو قیامت ٹوٹ پڑی ہے، کالج کی آدھی عمارت ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکی تھی، جس میں سے بہت سی لڑکیاں مدد کے لیے پکار رہی تھیں تو بہت سی تکلیف سے چیخ پکار کر رہی تھیں۔

موت کا یہ رنگ، زندگی کی یہ بے بسی میں نے پہلی بار دیکھی، اور میری دعا ہے کہ ہماری آئندہ نسلوں میں سے کوئی بھی مجبوری و بے کسی کے ایسے لمحات سے نہ گزرے۔ ہماری عربی کی پروفیسر نے مجھے ایک ٹیڑھے میڑھے کٹورے میں پانی پینے کو دیا، میں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ میرا روزہ ہے، جس پر میم نے کہا زندگی رہی تو پھر رکھ لینا، بیٹا ! ابھی اپنی حالت دیکھو۔

میں کچھ دیر کے لیے زمین پر لیٹی مگر دائیں طرف نظر پڑتے ہی اٹھ بیٹھی کیونکہ وہاں ایک لڑکی زور زور سے ہچکیاں لے رہی تھیں، تب مجھے نہیں پتا تھا کہ ان ہچکیوں کے بعد موت کا سناٹا ہوتا ہے، تب مجھے لگا کہ اگر میں نے آنکھیں بند کیں تو شاید دوبارہ کبھی نہ کھول سکوں گی۔

ہر طرف آہ و بکا تھی، کالج کی وہ پروفیسر صاحبان جو کہ عمارت کے اس حصے سے باہر تھیں، اور گارڈ باہر سے لوگوں کو مدد کے لیے بلانے کی کوشش کر رہے تھے۔ ان میں سے کسی کو بھی اندازہ نہیں تھا کہ پورا شہر ہی مدد مانگ رہا ہے۔

”سی ایم ایچ لے کے جائو زخمیوں کو؟“ کسی نے کہا مگر پتا چلا کہ سی ایم ایچ ملبے کا ڈھیر ہے۔

میں کچھ لڑکیوں کے ساتھ گھر کے لیے روانہ ہوئی، میں نے وہاں سے چہلہ تک کا اتنا طویل سفر کبھی نہیں کیا تھا۔ جب میں کالج سے نکل رہی تھی تب میں نے اپنی ایک کلاس فیلو کونپل کی امی کو چیختے ہوئے دیکھا، وہ ایک ایک لڑکی کو روک کے اپنی بیٹی کا پوچھ رہی تھیں۔

بعد میں پتا چلا کہ کونپل اور اس کے والد پروفیسر وقار ملک دونوں اس زلزلے کی نذر ہو گئے۔ میں نے رستے میں اسلام آباد اسکول و کالج کو ملبے کے ڈھیر میں بدلا دیکھا، رستے میں کوئی جگہ ایسی نہیں تھی جہاں کوئی زخمی نہیں تھا، لوگ مدد کے لیے پکار رہے تھے، چیخ رہے تھے۔ جو ملبے سے باہر تھے وہ خالی ہاتھ تھے، اور خالی ہاتھ ہی سلوں، بلاکوں اور پتھروں سے نبرد آزما تھے۔

انسانیت شاید یہی ہے، ان میں سے کسی کو بھی اپنے گھر والوں کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں تھی، مگر پھر بھی وہ دوسروں کی مدد کر رہے تھے۔ میں جب چہلہ پیٹرول پمپ پہ پہنچی تو مجھے اپنی والدہ اس حالت میں ملیں کہ وہ زار و قطار رو رہی تھیں، ناصر اور سعدیہ کا اسکول گر چکا تھا، سعدیہ کو تو صحیح سلامت نکال لیا گیا تھا پر ناصر کا ابھی تک کچھ پتا نہیں چلا تھا۔

جب مجھے اپنے بھائی کا پتا چلا تو میں وہیں پہ سجدہ ریز ہو گئی۔ تب میں نے بہت سی باتوں کے ساتھ یہ بھی جانا کہ جب سجدوں میں صداقت ہو تو وہ نہ مسجد کے فرش کو دیکھتے ہیں اور نہ کعبہ کی زمین کو۔ میں نے اس وقت تک دعا مانگنی نہیں چھوڑی جب تک کہ میری دعا قبول نہیں ہو گئی۔ میرے بھائی کو کئی گھنٹوں بعد زندہ نکال دیا گیا تھا۔

جہاں اب پارکو پیٹرول پمپ ہے وہاں کھیت ہوا کرتے تھے، جہاں اسکول کے بچوں اور بچیوں کے جنازوں کی قطاریں تھیں۔ میرے ایک انکل مکان کی دیوار کے نیچے آکر شہید ہو چکے تھے۔

شام کو جب ہم اپنے محلے میں پہنچے تو ابو وہاں نہیں تھے، کسی نے کہا وہ تو گرلز کالج میں ہیں اور مجھے تلاش کر رہے ہیں، میرا بھائی منصور ان کی طرف گیا اور انہیں یہ نوید سنائی کہ ہم سب خیریت سے ہیں۔ میرے والد صاحب نے جب مجھے زندہ سلامت دیکھا تو ان کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو آ گئے۔

انہوں نے وہاں میری کلاس فیلوز کی اتنی لاشیں دیکھی تھیں کہ وہ میرے بچنے کی امید ہی چھوڑ بیٹھے تھے۔ محلے میں سے کوئی گھر ایسا نہیں تھا کہ جہاں شہادت نہ ہوئی ہو، شہید بچوں کے والدین آ آ کر ایک ایک آدمی کی خیریت معلوم کر رہے تھے اور زندہ بچ جانے والوں کو مبارکباد دے رہے تھے۔

وہ دن جتنا کڑا تھا، وہ رات اتنی ہی بھاری تھی، پلاسٹک کی ایک شیٹ بارش سے تحفظ دینے کے لیے ناکافی تھی۔ ہمارے ساتھ وہ چار بچے بھی تھے جن کی ماں چار منزلہ عمارت کے ملبے کے نیچے دبی ہوئی تھی۔ رات جتنی بھی طویل ہو سحر پھر بھی ہو کر رہیتی ہے۔ اس رات کے اختتام پہ فجر کی اذان زندہ لوگوں کے لیے امید کا پیغام تھی۔

اگلی شام ہمیں پتا چلا کہ گائوں میں میری پھپھو فاطمہ شہید ہو گئی ہیں، خالہ کے گھر کے 9 افراد شہید ہو چکے تھے۔

ہزاروں کے حساب سے لوگ لقمہ اجل بن گئے۔ بہت سے عزیز ، رشتے دار ، احباب ، کلاس فیلوز اور اساتذہ شہید ہو گئے۔ میں نے بہت سے لوگوں کو جسمانی مسائل کے ساتھ ساتھ اعصابی مسائل کا شکار ہوتے دیکھا۔ مسائل کئی دنوں بعد جب میں مائیگریشن سرٹیفیکیٹ کی غرض سے کالج گئی تو مجھے کالج کی پرنسپل ڈاکٹر صائمہ ایک فون کے ساتھ بیٹھی دکھائی دیں، بہت سی میتیں ابھی بھی ملبے سے نکالے جانے کی منتظر تھیں۔ پرنسپل صاحبہ نے مجھے بہت دکھی انداز سے کہا کہ

جب یہ شہر آباد تھا ، ہم سب یہیں تھے، اور جب یہ اجڑ گیا ہے تب ہم اسے چھوڑ کر جا رہے ہیں، ہم خود ہی اپنے چمن کو چھوڑ کر چلے جائیں گے تو اسے بسانے کے لیے کون آئے گا؟

ان کی بات اور انداز میں کچھ ایسی تاثیر تھی کہ میں نے جانے کا ارادہ ملتوی کر دیا، اور تقریباً سوا ماہ بعد جب گرلز کالج میں کلاسز کا دوبارہ اجرا ہوا تو میں آنے والی واحد طالبہ تھی، اگلے دن تعداد 3 تک پہنچی اور مختلف طالبات سے رابطہ کرنے کے بعد اور انہیں دوبارہ کالج آنے پر آمادہ کرنے کے بعد ہوتے ہوتے یہ تعداد ڈیڑھ سو تک جا پہنچی۔

دیکھتے ہی دیکھتے شہر ایک بار پھر آباد ہو نے لگا، اور آج جیسا مظفرآباد ہے یقینا 2005 کے زلزلے سے پہلے ایسا بالکل نہیں تھا۔ اس کی دوبارہ آباد کاری میں ان سب ملکی اور غیر ملکی تنظیموں اور افراد کا ہاتھ ہے جنہوں نے اس سر زمین کے باشندوں کے درد کو اپنا درد سمجھا۔

آج پھر 8 اکتوبر ہے، دل ایک بار پھر اس منظر کی ہولناکی کو یاد کر کے دہل رہا ہے۔ روڈ پہ آج بھی ٹریفک رواں دواں ہے، بزم یاراں آج بھی سجتی ہے، عمارتیں پہلے سے زیادہ شاندار ہیں، زندگیاں پہلے سے زیادہ پرتعیش ہیں، پر پھر بھی یہ منظر ادھورا ہے۔ وہ ہزاروں افراد جو لقمہ اجل بنے اپنے پیچھے ایک نہ پر ہونے والا خلا چھوڑ گئے ہیں، ان کا خون بلند و بالا عمارتوں اور بے ہنگم تعمیر کو دیکھ کر آج بھی پوچھتا ہے کہ
کیا ہماری قربانی رائیگاں جائے گی؟


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں