”نواب زادہ نصراللہ خان بعض لوگوں کو اس لیے برے لگتے ہیں کہ مولانا مودودی ؒجیسی باتیں کرتے ہیں“۔
یہ جملہ پڑھے ہوئے، یوں سمجھئے کہ مدت بیت چکی تھی جب نواب زادہ نصراللہ خان سے ملاقات ہوئی۔ وہ اُس سیاست کا زمانہ تھا جسے نوے کی دہائی سے منسوب کیا جاتا ہے یعنی میاں اور بی بی کی لڑائی یوں جاری تھی جس کانقشہ حضرت صوفی تبسم جیسے عدیم المثال شاعر نے بچوں کے لیے ایک نظم میں کھینچ رکھا ہے ؎
ایک تھا تیتر ایک بٹیر لڑنے میں تھے دونوں شیر
لڑتے لڑتے ہوگئی گم ایک کی چونچ ایک کی دم
اُن دنوں میاں صاحب کی حکومت تھی اور اُن کی دم کونوچنے کا ”فریضہ“محترمہ ادا کر رہی تھی۔ اس زمانے میں بہت سی آل پارٹیز کانفرنسوں کے بعد جو سیاسی اتحاد تشکیل پایا، اس کے قائدین تو جانے کون لوگ رہے ہوں گے لیکن کچھ پوچھنے، سمجھنے کے لیے نگاہ انتخاب ہمیشہ نواب زادہ صاحب کی طرف اٹھتی۔
اُن ہنگامہ خیز دنوں میں کبھی لانگ مارچ نکلتا، کبھی ٹرین مارچ کیا جاتا، غرض آپا دھاپی ایسی تھی کہ نواب زادہ صاحب جیسے کسی بزرگ سے سکون سے بات نہ ہو پاتی لیکن اسی افراتفری میں مرحوم ایم آر ڈی کے کسی راہ نما نے اُن کے اعزاز میں عشائیہ دیا۔
ایسے مواقع پر ہٹو بچو کی صدائیں عام طور پر گونجا کرتی ہیں، یہ بدصورتی یہاں بالکل نہیں تھی، سکون اور اطمینان کا ماحول تھا۔ کھانا ہو چکا تونواب زادہ صاحب نے شیروانی کے کچھ بٹن کھولے اور دھیرے دھیرے چلتے ہوئے اُس کرسی کی طرف بڑھے جو خاص طور پر ان کے لیے بچھائی گئی تھی۔
نواب زادہ صاحب نے حقے کا نسبتاً ایک طویل کش لیا، اس دوران میں شاید ضیا عباس ان کے قریب آئے اور پیچھے کھڑے ہو کر آہستگی کے ساتھ کوئی بات کہی۔ نواب زادہ صاحب نے ان کی بات پوری توجہ کے ساتھ سنی اور فوراً ہی بہ آواز بلند کوئی جواب بھی دے دیا جس کا مفہوم شاید کچھ ایسا تھا کہ غیر ضروری احتیاطیں زیادہ کارآمد نہیں ہوتیں۔ اس کے بعد میدان صاف تھا۔ میں نے دائیں بائیں دیکھا اور ایک کرسی گھسیٹ کر اس پر ٹک گیا اور پوچھا، نواب زادہ صاحب، آپ کا مجموعہ کلام شائع ہوئے زمانہ بیت گیا، آئندہ مجموعے کے ضمن میں کیا تیاری ہے؟
نواب زادہ صاحب کھل کر مسکرائے، پھر فرمایا کہ وہ عیاشی تو ضیاالحق کی جیل نے ارزاں کر دی تھی، اب ایسا موقع کہاں؟ ان کا جواب سن کر میں خاموش ہو گیا اور وہ سوال پوچھنے کے لیے الفاظ موزوں کیے جو بہت دنوں سے میرے ذہن میں تھا۔ اسی دوران کچھ مقامی قسم قائدین ان کے قریب آگئے جو گفتگو سے زیادہ تصاویر وغیرہ بنوانے کے شائق تھے۔
نواب زادہ صاحب نے کچھ توجہ ان پر دی، کچھ نہ دی لیکن میری جانب مسکراتے ہوئے ایک نگاہ ڈالی۔ مجھے لگا،شاعری کے ذکر نے اس بزرگ کے دل میں میرے لیے نرم گوشہ پیدا کر دیا ہے۔ اس سے پہلے کہ وہ حقہ ایک بار پھر گڑگڑا کر دوسری جانب متوجہ ہو جاتے، میں نے وہ جملہ ان کے گوش گزار کردیا جو شاید شورش کاشمیری مرحوم کے ”چٹان“ میں شائع ہوا تھا یاقریشی و شامی صاحبان کے ”زندگی“ میں۔ وہ جملہ میں نے دہرایا اور سوال کیا کہ
سید ابوالاعلی مودودیؒ اور آپ میں ایسی کون سی مماثلت تھی یا ہے جسے اتنی خوب صورتی کے ساتھ بیان کیا گیا؟
نوے کی دہائی کو بیتے بھی اگرچہ دہائیاں بیت چکی ہیں لیکن یہ سوال سن کر نواب زادہ صاحب کے چہرے کی کیفیت کو میں آج بھی پورے تاثر کے ساتھ بیان کر سکتا ہوں۔ سوال جیسے ہی ختم ہوا، حقے کی نے انھوں نے چھوڑ دی اور دھواں خارج کیا۔
اسی دم خوشبودار دھویں کے نرم مرغولے کی اوٹ سے میں نے دیکھا، ان کے چہرے پر کسی خوش گوار سوچ کی لہریں تھیں، کوئی ایسی محبوب یاد جو دل کو خوشی اور چہرے کو مسکراہٹ سے بھر دے۔ انھوں نے ہنکارا بھرا اور کہا کہ
کیا یاد دلا دیا عزیزم!
مولانا مودودی ؒہمارے عہد کے ایک ایسے بزرگ ہیں، تاریخ انھیں یاد رکھے تو یہ اُس کی سعادت مندی ہے۔ انھوں نے یہ تعارفی جملہ کہا پھر اس کی تفصیل بیان کی۔ کہنا ان کا یہ تھا کہ ہمارے ہاں آمریت نے اسی وقت پاؤں پسارنے شروع کردیے تھے جب قائد اعظم ؒنے آنکھیں موندیں۔ اس حادثہ فاجعہ کے بعد غلام محمد نے آئین ساز اسمبلی کو توڑ کر اس ملک میں آمریت کی راہ ہموار کی۔
اسمبلی کے قتل کے بعد مولوی تمیز الدین نے اس غیر جمہوری اقدام کو عدالت میں چیلنج کرنے کا فیصلہ تو کر لیا لیکن وہ بے چارے وسائل ہی نہ رکھتے تھے۔ یہ مولانا مودودی ؒتھے جو اس مرحلے پر بروئے کار آئے۔ ممکن ہے، ان کی جماعت اس زمانے میں زیادہ اہم نہ ہو لیکن جمہوریت کے لیے یہ ایک بڑی خدمت تھی جو انھوں نے انجام دی۔
غلام محمد کے اس آمرانہ اور غیر جمہوری اقدام کے خلاف جمہوریت پسندوں کی عملی حمایت کر کے سید ابوالاعلیؒ نے جس جمہوری سوچ کا اظہار کیا تھا، آنے والے ماہ و سال میں اِس کے ساتھ ان کی وابستگی اور یک سوئی میں مزید اضافہ ہوا۔ ایوبی آمریت اس ملک پر عذاب کی طرح مسلط ہوئی تھی جس کے مقابلے کی کوئی صورت حزب اختلاف کو دکھائی نہ دیتی تھی۔
اس مرحلے پر مولانا مودودیؒ ہی تھے جنھوں نے مادر ملت کی حمایت کر کے عورت کی حکمرانی پر سوال اٹھانے والے دینی حلقوں کو پسپاکیا۔ یہ انتخاب ہم نے ہارا ضرور لیکن آمریت کے خلاف ایک بھرپور تحریک کی بنیاد بھی پڑ گئی۔ سید ابوالاعلیؒ نے اس تحریک میں کسی حیص بیص اور ذہنی الجھن کے بغیر نہ صرف حصہ ہی نہیں لیا بلکہ قائدانہ کردار ادا کیا۔
نواب زادہ صاحب سیاست پر اظہار خیال کرتے یاتاریخ کے صفحات پلٹتے، ہر دو موضوعات میں سہل ممتنع کی سی روانی ہوتی۔ اسی روانی کے ساتھ انھوں نے کہا کہ ”وہ واقعہ تو آپ نے سنا ہی ہو گا، مولانا اور ایوب خان کے مکالمے والا؟“۔ انھوں نے سوالیہ انداز میں بات شروع کی، پھر بتایا،
وہ کوئی گول میز کانفرنس تھی، مولانا کو دیکھا تو ایوب خان کہنے لگے کہ آپ لوگوں کا سیاست کے گندے کھیل سے کیاواسطہ؟ مولانا نے ترنت کہا، ہمارا سیاست سے تعلق کیا ہے، یہ تو آپ کو معلوم ہو جائے گا، اس وقت تو کٹہرے میں آپ کھڑے ہیں، آپ کا سیاست سے کیا واسطہ؟ جائیے، سرحدوں کی حفاظت کیجئے۔ ایوب اپناسا منہ لے کر رہ گئے۔
نواب زادہ صاحب نے یہ کہہ کر منقش حقے کی سنہری نے ایک بار پھر لبوں میں دبائی اور کچھ سوچتے ہوئے کہا، ”یہ اس لیے تھا کہ وہ زاہد خشک تھے، نہ نرے مولانا، وہ ایک روشن خیال ترقی پسند مسلمان تھے، ریاست، جمہوریت اور سیاست کے بارے میں ان کے ذہن میں کوئی الجھن نہ تھی۔ بس، یہی وہ قدر مشترک تھی جو ہمارے اور ان کے درمیان تھی، کسی کو پسند آتی ہے، آئے، نہیں آتی، نہ آئے“۔
خان گڑھ کے نواب یہ کہہ کر پھر مسکرائے۔ بعض لوگوں کی مسکراہٹ ان کے اجلے کردار کی طرح ہوتی ہے، اندر باہر سے یکساں۔ وہ پان چباتے تھے، حقہ پیتے تھے، ایسے مواقع پر ان کے چہرے پر نجیب امیر زادوں کے ان دونوں مشغلوں کی نشانیاں نمایاں ہو کران کی دل کشی میں اضافہ کردیتیں۔
خلد آشیانی نواب زادہ صاحب کی اس یاد کا کریڈٹ آصف علی زرداری کو جاتا ہے جنھوں نے آل پارٹیز کانفرنس میں جہاں کئی اور بزرگوں کو یاد کیا، وہیں مولانا مودودیؒ کاذکر خصوصیت کے ساتھ کیا۔ مولانا کا ذکر اور وہ بھی آصف علی زرداری کی کی زباں سے؟ یہ گتھی سلجھانے کے لیے میں نے تادیر سوچا پھر مجھے نواب زادہ نصراللہ خان، نیز ان کی باتیں یاد آئیں تو میں نے یہ جانا کہ اس حکایت میں بھی بہت سی نشانیاں ہیں، سوچنے سمجھنے والوں کے لیے۔